تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-06-2023

تحقیق کا بحرِ ذخّار

دیکھنے والی آنکھیں جنہیں ملی ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ ہر دور کی طرح آج کا دور بھی صرف اور صرف علمی سطح پر تحقیق اور عملی سطح پر جاں فشانی سے عبارت ہے۔ ہر عہد کے انسان نے دل و دماغ کو ہلادینے والی محنت کے بعد ہی کچھ پایا ہے۔ اس معاملے میں کسی کے لیے قدرت کی طرف سے کوئی رعایت نہیں۔ جو جس قدر محنت کرتا ہے وہ اُسی قدر پاتا ہے۔ کچھ نہ کرنے والے کچھ نہیں ہوتے‘ کچھ نہیں رہتے۔
ہم بیک وقت دو دنیاؤں کو دیکھ رہے ہیں۔ اِن میں سے کسی ایک دنیا ہی میں ہماری سکونت ہے۔ ایک دنیا تو وہ ہے جو تحقیق میں گم ہے، ہر شعبے میں اپنے آپ کو منوانے پر کمربستہ ہے اور چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عمل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پائے۔ دوسری دنیا وہ ہے جو تحقیق سے محض ''محظوظ‘‘ ہو رہی ہے۔ ایک طرف تماشا ہے اور دوسری طرف تماشائی۔ یہ بات تو کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اہمیت تماشے کی ہے‘ تماشائی کی نہیں۔ ہم دنیا کو قدم قدم آگے بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں مگر اپنے آپ کو ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں کر پارہے۔ ترقی یافتہ ممالک پر مشتمل دنیا اِس قدر آگے نکل چکی ہے کہ اُسے چھو پانا بھی بظاہر ممکن نہیں رہا۔ اگر ممکن ہو بھی تو صرف اُس وقت جب ایسا کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہے اُسی پر صبر و شکر کرتے رہنے کو زندگی کا بنیادی طریق بنالیا گیا ہے۔ سوچ لیا گیا ہے کہ جہاں ہیں‘ وہیں رہنا ہے‘ آگے بالکل نہیں بڑھنا۔ پیش رفت کی خواہش نہیں اور پسپائی کی ضرورت نہیں کیونکہ پسپائی کے لیے اب پیچھے ہٹنا لازم نہیں۔ جب کوئی آگے نہیں بڑھتا تو دراصل پیچھے ہٹتا جاتا ہے کیونکہ دوسرے اُس سے آگے نکل رہے ہوتے ہیں!
یہ دنیا تحقیق سے کبھی عاری نہیں رہی۔ ہر عہد کے انسان نے کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ بیسیوں صدیوں کے دوران انسان نے جو تحقیق کی اور اُس تحقیق کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو محنتِ شاقّہ کی اُس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ آج ہماری زندگی میں جو کچھ بھی ہے وہ ہمارا ایجاد کردہ یا دریافت کردہ نہیں۔ ہم تو محض استفادہ کر رہے ہیں۔ ہزاروں برس کے دوران مختلف خطوں کے انسانوں نے مل جل کر جو محنت کی ہے اُس کا ثمر دوسروں کی طرح ہماری جھولی میں بھی آ گرا ہے۔ ہر عہد کے بہترین ذہنوں نے جو کچھ سوچا اور اُسے عملی شکل دی وہ آج ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ قدرت کا عطا کردہ ہے۔ قدرتی وسائل جب افرادی قوت سے متصف ہوتے ہیں تب کچھ نیا بن پاتا ہے۔ بیسیوں زمانوں کے انسانوں نے مل جل کر جو کچھ کیا وہ آج ہماری زندگی کو قدم قدم پر آسانیوں سے ہم کنار کر رہا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ جدید ترین علوم اور اُن کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والے فنون یعنی ٹیکنالوجیز کی بدولت ایک طرف آسانیاں پیدا ہوتی ہیں تو دوسری طرف بہت سی مشکلات بھی جنم لیتی ہیں اور یوں زندگی بحرانوں کی نذر بھی ہوتی رہتی ہے۔ یہ قدرت ہی کا نظام ہے۔ ہمیں سارے معاملات میٹھے نہیں ملتے۔ کچھ کھٹا بھی چکھنا اور جھیلنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ زندگی کا حصہ ہے اِس لیے اِسے دل و جان سے اپنائے بغیر ہم بطریقِ احسن نہیں جی سکتے۔
ایڈورڈ ایوریسٹ نے کہا تھا ''ہر طرف تحقیق کا سمندر موجزن ہے۔ جس قدر تحقیق ہوتی جاتی ہے اُسی قدر جدت اور ندرت بڑھتی جاتی ہے۔ تحقیق کے نام پر جو مسابقت جاری ہے اُس میں شریک ہونے کے لیے کسی شاہی فرمان یا پروانے کی ضرورت نہیں۔ جو بڑھ کے اُٹھاکے یہ ساغر اُسی کا ہے۔‘‘ بالکل درست! ہر انسان کے پاس بھرپور انہماک اور محنتِ شاقّہ کے ذریعے کسی بھی شعبے میں اپنے آپ کو منوانے کا آپشن موجود ہے۔ یہ آپشن کوئی بھی نہیں چھین سکتا‘ چھین سکتا ہی نہیں۔ اگر انسان خود ہی کچھ نہ کرنا چاہے تو اور بات ہے وگرنہ عمل کی دنیا سبھی کو آغوش میں لینے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ جو سوچ لے کہ کچھ کرنا ہے اُس کے لیے فکر و عمل کی گنجائش ہی گنجائش ہے۔
بھرپور تحقیق اور اُسے عملی جامہ پہنانے کا میدان سب کے لیے کھلا ہے۔ ہر عہد میں کسی ایک خطے ہی نے آگے بڑھ کر یہ جام اٹھایا ہے۔ ایک دور تھا جب فارس (ایران) کے لوگ تحقیق و ترقی کے شعبے میں آگے تھے۔ تب فارس کی سلطنت پھیلتی گئی اور کئی خطے اُس کے زیرِ نگیں رہے۔ فارس کے اہلِ علم و فن نے دنیا کو بہت کچھ دیا۔ اُسی عہد میں رومن سلطنت بھی نقطۂ عروج پر تھی۔ اس سلطنت کا مشرقی سرا ترکی اور شام تک تھا اور بازنطین کہلاتا تھا۔ جب اسلام کی اشاعت شروع ہوئی تب یہ دونوں سلطنتیں اپنا عہدِ عروج گزار چکی تھیں اور پستی اِن کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔ یہ پستی اہلِ ایمان کے ہاتھوں لکھی تھی۔ عہدِ اول کے مسلمانوں نے جب دین کو پھیلانے کا بیڑا اٹھایا تو ایک طرف فارس اور دوسری طرف سلطنتِ روم کو للکارا اور دونوں ہی کو حسبِ توفیق دُھول چٹائی۔ یہ دونوں سلطنتیں علم و فن میں کم نہ تھیں۔ جدید ترین علوم و فنون میں پیش رفت کے حوالے سے اِن کا خاصا بلند مقام تھا مگر غیر معمولی مادّی ترقی اور اُس کے نتیجے میں ممکن بنائی جانے والی آسائشوں نے اِن سلطنتوں کے لوگوں کو سہل پسند اور آرام طلب بنادیا تھا۔ یہی خصلت اِن کے زوال کا بنیادی سبب بنی۔
عہدِ اول کے مسلمانوں کا سارا زور فتوحات پر تھا۔ جب فتوحات کا زور تھما اور مفتوح علاقوں کے نظم و نسق کا معاملہ اٹھا تب فکر و نظر کا میدان سجا۔ مسلمانوں نے اُس دور کے جدید ترین علوم و فنون میں مہارت پیدا کرنے پر توجہ دی۔ یونان کا فلسفہ عربی میں ترجمہ ہوکر مین لینڈ یورپ تک پہنچا۔ ہیئت، جغرافیہ، طب، ریاضی، کیمیا، حیاتیات، ارضیات اور منطق و فلسفہ میں مسلم علماء کم و بیش پانچ صدیوں تک اِس قدر چھائے رہے کہ یورپ نے بھی اُن سے استفادہ کرکے نشاۃِ ثانیہ کی بنیادیں کھڑی کیں یعنی ایک بار پھر فطری علوم و فنون کے میدان میں جھنڈے گاڑنے کے قابل ہو پا یا۔ آج یورپ جو کچھ بھی ہے اُس میں مسلمانوں کے عہدِ زرّیں سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم و فن کا بھی بہت نمایاں کردار ہے۔ اس حقیقت کو یورپ کے حقیقت پسند اہلِ نظر نے بھی تسلیم کیا ہے۔ مان لیا گیا ہے کہ مسلمانوں کا علمی ورثہ نہ ہوتا اور اُس سے استفادہ نہ کیا گیا ہوتا تو یورپ میں نشاۃِ ثانیہ ممکن نہ ہو پاتی۔ اور آج یورپ میں جتنی بھی مادّی ترقی دکھائی دے رہی ہے سب کی سب نشاۃِ ثانیہ کی مہربانی ہے۔
مسلمانوں کا عہدِ زرّیں ہر اعتبار سے متاثر کن تھا۔ جب تک علم و فن کو حرزِ جاں بنائے رکھنے کا چلن عام رہا، مسلمان دنیا پر حکمرانی کے اہل رہے اور مسلم اہلِ علم و فن اپنے اپنے شعبے کے امام رہے۔ فتوحات اور علم و فن میں مہارت نے جب آسودگی کی راہ ہموار کی تب مسلمانوں میں بھی سہل پسندی اور آرام طلبی پیدا ہوئی۔ تحقیق و جستجو کی گرم بازاری ماند پڑتی گئی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب مسلمانوں نے جدید علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے چلن کو خیرباد کہہ دیا اور انحطاط و جمود کا شکار ہوگئے۔ اِس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہم آپ سبھی جانتے ہیں یعنی زوال نے ہمیں اپنا بنالیا اور ہم قعرِ مذلت میں یوں گرے کہ اب تک نکل نہیں پائے۔
آج تحقیق کی گرم بازاری ایسی ہے کہ انسان جب متوجہ ہوکر دیکھتا ہے تو دیکھتا ہی رہ جاتا ہے اور پھر بہت دیر تک سوچنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ آج ہر قوم کے لیے سامنے خود کو جدت و ندرت کے لیے تیار کرتے رہنے کا چیلنج ہے۔ ہمیں اس عہد کو سمجھنا بھی ہے اور اِس کے تقاضے نبھاتے ہوئے آنے والے عہد کی تیاری بھی کرنی ہے۔ آج بھی وقت کسی پر مہربان ہونے کو تیار نہیں۔ کامیابی صرف اُن کے لیے ہے جو تحقیق کے بحرِ ذخّار میں غوطہ زن ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ پس ماندہ معاشروں کو ڈھنگ سے جینے کے لیے اِسی راہ پر گامزن ہونا ہے۔ اِس کے لیے انقلابی نوعیت کی ذہنی تیاری ناگزیر ہے۔ تو ہے کوئی جو اِس انقلاب کو گلے لگائے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved