اِس عالم ِ رنگ و بُو میں‘ ہجرتوں کے سفر میں‘ پہلے مسافر حضرتِ آدم علیہ السلام خود تھے۔ باغِ بہشت سے کرہ ٔارض تک کا یہ سفر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ایک نسل کے بعد دوسری نسل اور دوسرے زمانے کے بعد تیسرا زمانہ۔پاکستان اور بانیٔ پاکستان حضرتِ قائداعظم ؒ کا سفر بھی ہجرتوں سے عبارت ہے۔ پاکستان کے سفر کا آغاز علامہ محمد اقبالؒ نے اکیلے شروع کیا۔اس ادھورے سفرمیں منزلِ مراد پانے کے لیے اُن کی نظر بیرسٹر محمد علی جناح ؒ پہ پڑی۔ پھر اپنوں کی نوازشوں کے بوجھ تلے تکمیلِ سفر کے ارمان دل میں دبائے محمد علی جناحؒ غلام ہندوستان کی آزادی کا سفر ادھورا چھوڑ کر انگلستان لوٹ گئے۔ دوسری جانب حضرت علامہ اقبالؒ کے گداز دل میں تکمیل ِ سفر کی آگ بجھ نہ سکی۔ اس فلسفی شاعر نے محمد علی جناح ؒکو پھر واپس ہندوستان آنے کے سفر پر آمادہ کر لیا۔ واپسی کے بعد محمد علی جناح ؒنے خود یہ احساس کیا اور اعتراف بھی کہ اُن کی تھیلی میں پڑے ہوئے سکے کھوٹے تھے۔ مگر بانی ٔپاکستان کے عزم‘مسلسل جدوجہد اور ہمالہ سے اونچے ارادے غلام ہندوستان کو آزاد کروانے اورپارٹیشن آف انڈیا کی منزل تک لانے میں کامیاب ہو گئے۔اس ادھورے سفر کی تکمیل پر قوم نے اپنے قائد کویوں حرفِ سپاس پیش کیا۔
یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیران
اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان
حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی میں ابدی سفر کا مرحلہ قیامِ پاکستان کے بہت تھوڑے عرصے بعد آگیا۔ یوں اس جنتِ ارضی پہ قائداعظم کی ہجرتوں کا سفر تمام ہوا۔مگر اُن کابنایا ہوا پاکستان ہجرتوں کے سفر پہ بھیج دیا گیا۔وہ ملک جو مالکِ ارض و سما کی تکبیر سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا تھا۔اندرونی تقسیم کاروں اور بیرونی سہولت کاروں نے اُس کا آدھے سے زیادہ بدن کاٹ ڈالا اور اس آدھے بدن کا حال اُس فقیر جیسا ہو گیا جو سرِ راہ بیٹھا تھا اور کّوے اُس کی بوٹیاں نوچ رہے تھے۔ کسی اور طرح کی ہجرتوں کے ایک مسافر نے یہ کوّے اُڑا دیے۔ فقیر نے فریاد کی اور دھاڑیں مار کر رونا شروع ہوگیا۔مسافر نے حیرانی سے پوچھا :کیوں روتے ہو‘ شکر کرو میں یہاں آیا اور تمہارا گوشت نوچ کر کھانے والے کوّے اُڑا دیے۔ فقیر کیکرکے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: اُدھر دیکھو نئے کوّؤں کی ڈار جو میری طرف اُڑ کر آرہے ہیں۔ پہلے والوں کا پیٹ بھر گیا تھا‘ اب اُن کی جگہ اُن کے بچے آرہے ہیں وہ گوشت کے ساتھ ساتھ میری ہڈیا ں بھی نوچ ڈالیں گے۔
پاکستان کے ادھورے سفر کی داستان جاری ہے۔ جس کی تین نئی منزلیں حال ہی میں سامنے آئیں‘ تینوں ڈرا دینے والی اور قوم کو جھنجھوڑ دینے والی۔ادھورے سفرکی پہلی جدید منزل: رجیم جینج کا تحفہ قوم کو 14مہینے پہلے اس دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا تھا کہ چھ ماہ میں ہم ملک کو ''وڈّا‘‘ شیر بنا دیں گے۔ آج یہ دعویٰ سچ ثابت ہو گیا۔ وڈّا شیر جب بوڑھا اور ناکارہ ہو جاتا ہے توبندروں کے بچونگڑے اُس کے منہ پر تمانچے مارنے کو کھیل بنا لیتے ہیں۔ ہماری معیشت پہ پہلا تمانچہ ڈالر نے مارا‘ دوسرا مہنگائی نے اور تیسرا ہماری آنکھوں نے جو ہم نے IMFکی آنکھوں میں ڈال رکھی ہیں۔ آج ہماری حسین و جمیل وزاتِ خارجہ IMFکی آنکھوں کے سامنے بیان بازی کا کھیل کھیل رہی ہے کہ ہم جو مرضی کریں‘مادام IMFآپ کو اس سے کیا غرض؟ رجیم چینج والا نمبر دو بھکاری جس نے خزانے کا بھٹّہ بٹھا دیا وہ کہتا ہے‘ IMFصرف ہمارے عوام کے نام پر ہمیں قرضہ دے لیکن عوام کی آزادیوں اور بربادیوں پر آنکھیں بند رکھے۔ اس ملک میں پہلی بار ناامیدی کی جتنی بڑی لہر دوڑائی گئی ہے‘اُس کی دوسری مثال دنیامیں کہیں سے نہیں ملتی۔ فیصل آباد والوں سے پوچھ لیں کہ اُن کے پاور لومز کا لوہا‘ لنڈے میں کس بھائو فی کلو بک رہا ہے۔ چند گھرانوں‘ کچھ خاندانوں اور ایوانوں کا مسئلہ نہ عوام ہیں نہ مہنگائی۔ عوام گورا صاحب کی غلامی سے نکلے اور برائون صاحب کی غلامی میں جکڑ ے گئے۔کسی بڑے ایوان میں پچھلے 14ماہ کے عرصے میں عوام کو غربت مہنگائی اور بے روزگاری سے محفوظ بنانے کے لیے نہ کوئی منصوبہ بنا‘نہ کوئی تجویز ہے۔ ہو سکتا ہے آپ میری رہنمائی کر سکیں‘ آخر وہ کون سا انجانا‘ اَن دیکھا خوف ہے جس سے اَن دیکھے‘ انجانے عوام کو محفوظ بنانے کے لیے پچھلے 14ماہ کے عرصے میں سارا بجٹ لگ گیا؟آج ملک جہاں معاشی طور پر پہنچایا گیا‘ کیا یہ ہماری منزل ِ مراد ہے؟
ادھورے سفرکی دوسری جدید منزل: مواقع(Opportunities) کی آزادی‘ میڈیا اور پریس کی آزادی‘ حقِ اجتماع‘ آزادی ٔتحریر وتقریر کی منزل آگئی کیا؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو پھر بھارت‘ ملائیشیا‘ جاپان‘ کوریا‘ جرمنی‘ فرانس‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ امریکہ‘ فلپائن وغیرہ 100فیصد غیر جمہوری ملک اور معاشرے ہیں کیونکہ ہم نے جن اجتماعی اور قومی قدروں کا نام جمہوریت رکھا ہوا ہے‘ وہ دنیا کے کس ملک میں موجود ہیں اور اُنہیں دنیا کے کس براعظم میں جمہوریت سمجھا جا سکتا ہے۔
ادھورے سفرکی آخری جدید منزل: حضرت قائداعظم کے بعد اُن کے بنائے گئے ملک میں قوم نے اسکندر مرزا سے پرویز مشرف تک پانچ مارشل لاء بھگتے‘ جن میں کوڑے پھانسیاں‘ جلا وطنیاں‘ نااہلیاں‘ گرفتاریاں تو ہوئیں مگر آئین توڑنے کے بعد۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے جو ہو گیا‘ جو ہو رہا ہے اور جو ابھی ہونا ہے‘ اُس کے باوجود آئین موجود ہے۔ چلئے مان لیتے ہیں‘ اب اس سوال کا جواب دیجئے کہ آرٹیکل 175کے ہوتے ہوئے کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کس آرٹیکل کے تحت ہو سکتا ہے؟ کون نہیں جانتا کہ ہمارے دو سانحات سے بڑا قومی سانحہ اور کوئی نہیں‘ایک سقوطِ مشرقی پاکستان‘ دوسرا پشاور کے آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کے بے گناہ خون سے کھیلی گئی بے رحمانہ ہولی۔ مگر تب دہشت گردوں کے ملٹری ٹرائل کے لیے 1973ء کے آئین میں دو دفعہ ترمیم کی گئی تھی۔ آج بھی وہی آئین ہے اس لیے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ سویلین کے خلاف ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیسے ہو سکتا ہے؟اس کا کوئی جواب ہے نہ جواز۔ہمارا ایک اور سفر بھی ابھی ادھورا ہے‘ سچ کا سفر۔
جنابِ مظفر وارثی کا مخاطب نجانے کون تھا:
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved