ایبٹ آباد سے نتھیا گلی اور گلیات کے دیگر علاقوں سے ہوکر مری پہنچنا ہمیشہ سے ایک خوش کن تجربہ رہاہے۔ یہ ایک خوبصورت اور چوڑی سڑک ہے۔اس پر سفر کرتے ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ سارے مسائل تو پیچھے رہ گئے جوپہاڑوں کے سفر کو ایک بڑی آزمائش بناتے ہیں۔ پہاڑی راستوں کے خطرناک موڑ‘ تنگ گزرگاہیں‘تنگ سڑک کے کنارے پر چلتی گاڑیاں جنہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ اب کھائی میں گریں۔بڑے سیاحتی مقامات پر یہ مناظرپیچھے رہ جاتے ہیں۔ایبٹ آباد کی طرف سے بتدریج بلند ہوتی سڑک پرپہلے ذرا کم بلندی کی خوش رنگ جھاڑیاں اور پیڑ ساتھ چلتے ہیں‘ذرا اور بلند ی پر پہنچیں تو سڑک کے دونوں طرف چیڑ‘ دیودار اور پھلائی کے درخت آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔تناور درخت۔جتنی بلندی‘ اتنی درازیٔ قامت۔پہاڑوں کے ساتھ بلند ہوتے‘ اپنی مخصوص خوشبوئیں بکھیرتے‘ اپنے نیچے نم آلود زمین میں رنگ رنگ کے پھولوں کو سایہ دیتے یہ درخت دل اور آنکھیں ٹھنڈی کرتے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔اسی سڑک پر وہ چشمہ آتا ہے جواس علاقے میں صحت افزا تاثیر کے لیے مشہور ہے۔لوگ جہاں رک کر‘ چلو میں بھر کر پانی نہ پئیں تو لگتا ہے کہ کوئی فرض ادا ہونے سے رہ گیا۔میرااس چشمے سے تعارف ایبٹ آباد کے برادرم عامر سہیل نے کروایا تھا۔ہم سورج بلند ہونے کے بعد نکلے تھے لیکن ابھی دائیں بائیں گھاٹیوں پر زیتون‘ کائیں‘ کنڈ‘ہنگی‘گل ترنی‘ گل سرنجان‘ گل بنفشہ اور ڈیزی کے پھول ابھی شبنم میں بھیگے ہوئے تھے۔دو پہا ڑوں کے درمیان کھائیوں کو عبورکرنے کے لیے ڈولی لفٹ چلتی نظرہے۔ پہاڑی علاقوں کے درمیان جہاں بھی فاصلہ ہو اور ملانے والا پل نہ ہو تو مقامی لوگ اس قسم کی ڈولی لفٹ بنا لیتے ہیں۔لوہے کے رسوں پر چلنے والی یہ لفٹ دس افراد کی گنجائش رکھتی ہے۔سستا اوروقت بچانے والا یہ وسیلہ پہاڑی علاقوں کی ثقافت کی ایک خوبصورت علامت ہے۔کبھی کبھار کسی لفٹ کے حادثے کی خبر بھی آجاتی ہے لیکن زندگی مقامی آبادی کی سہولت کا یہ وسیلہ پھر رواں ہوجاتا ہے۔ویسے بھی حادثوں سے کہیں بھی مفر نہیں‘ آپ محفوظ ترین راستے پر ہی سفر کیوں نہ کر رہے ہوں۔
راستوں کے دائیں بائیں کھلی جگہوں پر وہ سب رنگ اور وہ سب لوگ نظر آجاتے ہیں جو اس منظر کا حصہ ہیں۔ہر کچھ دیر کے بعد راستے کے ایک طرف رنگ برنگی زنانہ چادروں کے پھول نہ کھلے ہوں تو گویا اس راستے پر سفر ہی نہیں کیا۔موسم ہو تو ہر کچھ دیر کے بعد انجیر کی ایک قسم کے خوانچے نظر آتے ہیں جسے ہندکو میں پھگوڑی کہتے ہیں اور یہ بہت ذائقے دار ہوتی ہے۔اسی طرح گلیات کا مخصوص سیب جو قدرے چھوٹے سائز کا ہوتا ہے‘ جابجابکتا نظر آتا ہے۔مکئی کے بھٹے کی ریڑھیوں اور اڈوں کی دو خصوصیات ہیں‘ ایک تو یہ کہ بھنی ہوئی مکئی کی رسیلی چھلیاں اس سفر کا لطف بڑھا دیتی ہیں۔ دوسرے ان کے قریب بہت سے بندر جمع ہوجاتے ہیں۔انہیں پتہ ہے کہ رکنے والے مسافرانہیں بھی یہ بھٹے پیش کریں گے۔یہ ان کے بھی رزق کا وسیلہ ہے اور ریڑھیوں والوں کے بھی۔ان کی فروخت دگنی ہوجاتی ہے۔ نتھیا گلی میں بچوں کو وہ میوزیم دیکھنے کا شوق تھاجہاں گلیا ت کی نمائندہ چیزیں اور حنوط شدہ جنگلی جانور رکھے ہیں اور جہاں وہ چیتا بھی منہ کھولے کھڑا ہے جس نے کئی عشرے پہلے اس علاقے میں قیامت مچا رکھی تھی۔کئی انسانی جانیں لے چکا تھا اور آخر اسے گولی مار کر ختم کرنا پڑا۔ نتھیا گلی پہنچے تو اس میوزیم کی جگہ ملبہ پڑا تھا۔پتہ چلا کہ مسمار کردیا گیا ہے اور اب نیا میوزیم بنایا جائے گا۔بچوں کی مایوسی دیدنی تھی لیکن زندگی ایسے غیر متوقع صبر کاامتحان بار بار لیا کرتی ہے۔ نتھیا گلی‘ باڑہ گلی‘ خیرا گلی‘ ڈونگہ گلی سے گزرتے‘ خنک فضا کا لطف لیتے چھانگلہ گلی پہنچے جو مجھے ہمیشہ ڈیزی کے پھولوں اور اس کے بنے ہوئے تاجوں کی وجہ سے یاد رہتی ہے۔ڈیزی کا موسم گزر چکا تھاورنہ اس کے تختوں کے تختے کھلے دیکھنا بھی ایک مسحور کن نظارہ ہوتا ہے۔
چھانگلہ گلی سے آگے سڑک خیبر پختونخوا سے نکل کر پنجاب کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم ادھر آگئے ہیں۔اچھی بھلی سڑک گڑھوں میں تبدیل ہوجائے‘ پہاڑی قصبوں کے کشادہ بازار تنگ ہوجائیں تو سمجھ لیں کہ یہ پنجاب کا علاقہ ہے۔معلوم نہیںیہ فرق کس وجہ سے ہے لیکن ہے بہرحال ہمیشہ سے۔اورشاید ایسا ہی رہے گا۔مری کا ہمسایہ کلڈنہ کا طویل قامت جنگل ایک زمانے سے میرا پسندیدہ مقام ہے۔ ہم نے آپس میں زندگی کے بہت سے موسموں میں باتیں کی ہیں۔ شاہ بلوط‘ اوک‘ سلور اوک‘ سلکی اوک‘ دیودار‘ پلندر‘ بائٹر‘ پڑتل‘ چیڑھ‘ کیل‘ چیل‘ پھلائی‘ رہن‘ بھرنگی‘ پالودار‘ شیشم‘ اخروٹ کے پیڑ ہمارے سامعین اور ناظرین ہوتے ہیں۔ جوتوں تلے چرمراتے پتے اور بلوط کے کھنگر اورکہیں کہیں بہتے چشمے کا پانی اس راستے کے نشان پا ہیں۔برف گری ہو تو اس پر جابجا جنگلی جانوروں اور کہیں کہیں چیتے کے نقش پا نظر آجاتے ہیں۔لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ مری صرف سرمائی مقام کا نام نہیں‘مری صرف بلندی کا نام نہیں‘مری صرف برفباری کا نام بھی نہیں‘مری اس حسین قدرتی جنگل کا نام ہے جس کا بدل عمارتوں کا جنگل کبھی نہیں ہوسکتا۔اصل مری ختم ہورہا ہے اوراسے فطرت نے نہیں انسانوں نے ضابطے توڑ کر ختم کیا ہے۔مری میں مسطّح جگہ کم ہے اور انگریز کے دور سے شہر میں خاص طور پر مال روڈ پر یہ ضابطہ بنا دیا گیا تھا کہ سڑک کے صرف ایک طرف تعمیر ہو سکتی ہے‘دوسری سمت کھلے منظر‘ سنہری دھوپ اورٹھنڈی ہواکے لیے مخصوص تھی۔اب دونوں اطراف میں عمارتیں اور دکانیں بنا کر جی پی او چوک سے تقریباً لنٹوٹ ریسٹورنٹ تک ایک گلی بنا دی گئی ہے۔اس گلی کو مری کی مال روڈ کا نام کیسے دیں۔مجھے یاد ہے کہ یہ دکانیں بننے سے پہلے مال روڈ کی خوبصورتی کیا تھی۔جن اہل کاروں کا کام ہی قاعدوں اور ضابطوں پر عمل کروانا تھا‘ وہ جیبیں سنبھالتے‘ آنکھیں بند کیے اس گلی سے گزرتے رہے‘جو لوگ مری کا وہ روپ دیکھ چکے ہیں ان کا اب مری جانے کو جی ہی نہیں چاہتا۔اگرچہ مری کی کشش لوگوں کے لیے اب بھی کم نہیں۔وجہ یہی ہے کہ میدانی علاقوں سے قریب ترین ٹھنڈا پہاڑی مقام یہی ہے۔ راستے اچھے ہیں اور کم وقت میںیہاں تک پہنچا جاسکتا ہے۔
یہ علاقہ‘ اس راہ میں پڑنے والی ساری بستیاں اور پہاڑی قصبے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ضرورت تھی کہ یہاں کے مقامی باشندوں کے مسائل کا ادراک کیا جاتا اور ان کاحل پیش کیا جاتا۔ یہ بستیاں بنیادی طور پر اپنے روزگار کے لیے سیاحوں کاانتظار کرتی ہیں۔ہم میدانی علاقوں کے باشندے چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے یہاں جاتے ہیں تو ہر چیز کی قیمت بہت زیادہ لگتی ہے۔ہم اپنے اپنے شہروں سے ان قیمتوں کا موازنہ کرتے ہیں۔لیکن مسائل کا موازنہ کرنا بھول جاتے ہیں۔ یہاں نہ عمارت بنانا آسان ہے‘ نہ ہموار زمین تلاش کرنا‘نہ پہاڑ کاٹنا۔چھ ماہ برف کے سناٹے میں وہ واحد معاشی سرگرمی بھی کم کم ہوتی ہے جسے سیاحت کہتے ہیں اور جس پر یہاں کے لوگوں کا دارومدار ہے۔سارا سال کمائی کے متعدد ذریعے رکھنے والے میدانی علاقوں کے لوگ بھول جاتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں چھ ماہ لوگ بے روزگار رہتے ہیں۔اس لیے ان بستیوں کے وسائل و مسائل کو حقیقی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved