تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     03-06-2023

سیاسی اتحاد کی رسی

18فروری 2008ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کی صورت میں سب کو یقین تھا کہ سپریم کورٹ کے معزول ججز بحال کر دیے جائیں گے جبکہ صدرپرویز مشرف ایوان صدر سے رخصت ہوں گے۔ معزول ججز کی بحالی کیلئے مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والی ملاقات کو میڈیا نے اس طرح پیش کرنا شروع کیا گویا اس ملاقات کے فوری بعد معزول ججز فنکشنل ہو جائیں گے کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے نئی وفاقی حکومت کی تشکیل کے ایک ماہ کے اندر پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے عدلیہ کوگزشتہ دو نومبر 2007ء کی حالت میں بحال کرنے کا اعلان کیا۔اس مقصدکیلئے دونوں جماعتوں کے قائدین نے ''اعلان مری‘‘پر دستخط کئے۔اس موقع پر پریس کانفرنس میں میاں نواز شریف نے کہاکہ 18 فروری کے انتخابات میں عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ دیا کہ وہ مل کر کام کریں اور ملک کو بحران سے نکالیں۔ اس موقع پرمسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے درمیان وفود کی سطح پر بات چیت کے بعد ون آن ون ملاقات بھی ہوئی جس میں حکومت سازی کے حوالے سے مختلف امور پر تفصیلی مشاورت کی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ قومی اتفاق رائے کی حکومت کی تشکیل کیلئے تمام جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے گا۔اس موقع پر جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیے کے متن کے مطابق جمہوری قوتوں کو دیے گئے مینڈیٹ کو عملی صورت دینے کیلئے اور ایک جمہوری پاکستان کیلئے مخلوط حکومت تشکیل دینے کا وعدہ کرتی ہیں۔مری میں ہونے والی کانفرنس ہی میں یہ اہم اعلان بھی کیا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) مرکزی حکومت میں شامل ہوگی اور اسی طرح پیپلز پارٹی پنجاب حکومت کا حصہ بنے گی۔ اس دوران دو نوں پارٹیوں کے رہنمائوں نے ایک چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی جسے آئینی رکا وٹیں دور کرنے کا ٹاسک سونپا گیا۔
اس ملاقات سے قبل رائے ونڈ اور اسلام آباد میں دونوں جماعتوں کے لیڈروں کے درمیان ہونے و الی ملاقاتوں میں بھی میاں نواز شریف کی زرداری صاحب سے ذاتی بحالی کی تین آئینی ترامیم پر ہونے والی گفتگو بار بار تعطل کا شکار رہی‘ جب مری میں ہونے والی ملاقات میں بھی اس ایشو کو ایک مرتبہ پھر مؤخر کیا گیا تو (ن) لیگ کے رہنما اس پر افسردہ تھے۔جاننے والے جانتے ہیں کہ اعلانِ بھوربن میں میاں برادران کے چہروں پر وہ خوشی نہ تھی۔ میاں برادران کی طرف سے پیش کی گئی آئینی ترامیم میں تیسری دفعہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر پابندی اور آئین کے آرٹیکل45 کے تحت صدر مشرف سے عوامی نمائندگی کیلئے نا اہلیت کی شق کو ختم کرانا شامل تھا‘ تاہم زرداری صاحب کا کہنا تھا کہ جب تک 58 2(b)ختم نہیں ہوتی صدر مشرف پر کسی قسم کا دبائو ڈالنا منا سب نہیں۔ اس پر نواز شریف نے انہیں یقین دلایا کہ ان کا مواخذہ کرتے ہوئے انہیں بر طرف کیا جا سکتا ہے اور پیپلز پارٹی اگر اپنے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کو پابند کر دے تو دو تہائی اکثریت کیلئے (ن) لیگ بقیہ مطلوبہ اراکین فراہم کرنے کا یقین دلاتی ہے۔ میاں نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ دو تہائی اکثریت کیلئے ان کے پاس مطلوبہ تعداد موجود ہے لیکن زرداری صاحب نے اسے قبل از وقت کہہ کر بات چیت ختم کر دی۔ جب بھوربن میں مشترکہ پریس کانفرنس کیلئے تمام تیاریاں مکمل تھیں تو مسئلہ ذاتی بحالی کے معاملے پر اٹک سا گیا جبکہ خواجہ محمد آصف اور چوہدری نثار علی خان کا شکوہ تھا کہ این آر او کے تحت سہولتیں تو پیپلز پارٹی لے گئی ہمیں صرف انتظار کرنے کا کہا جا رہا ہے‘ کہا جاتا ہے کہ اس پر شیری رحمان نے کہا تھا کہ زرداری صاحب کو این آر او کے آہنی جنگلے میں تو آپ نے ہی بند کیا تھا۔
بھوربن کی کانفرنس میں میڈیا کافی دیر سے کیمرے فوکس کئے دونوں اتحادیوں کا منتظر رہا اوردونوں پارٹیوں کے لیڈرچہروں پر مسکراہٹیں سجائے نعروں کی گونج میں ہال میں داخل ہوئے جہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے ججز کی بحالی کے لیے تیس اپریل تک کی تاریخ کا اعلان کر دیا لیکن تیس اپریل کا دن بغیر کسی اعلان کے گزر گیا‘ آصف علی زرداری ملک سے باہر چلے گئے‘ شہباز شریف بھی اپنے قریبی ساتھیوں کے ہمراہ دبئی پہنچ گئے۔ ضمنی انتخابات میں نامزدگی کی تاریخیں اپنے آخری مراحل میں تھیں۔ دبئی کے ایک عالیشان ہوٹل میں دو نوں پارٹیوں کے رہنمائوں کی ملاقات ہو ئی‘ تین گھنٹوں کی گفتگو اور بحث و مبا حثہ کے بعد اسی شام مذاکرات کا ایک اور دور ہوا جس میں چوہدری نثار علی خان کی باڈی لینگوئج نے کشیدگی پیدا کر دی‘ جس سے دوسرے فریق کا موڈ خراب ہو گیا اور بات چیت کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ختم ہو گئی۔ اس موقع پر جناب نواز شریف کو مداخلت کرنا پڑی اور وہ بھی دبئی پہنچ گئے‘ لیکن دبئی جانے سے چند گھنٹے پہلے نواز شریف نے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد سے ایک اہم ملاقات کی جس سے پیپلز پارٹی کی قیا دت شکوک و شبہات کا شکار ہو گئی۔ میاں نواز شریف سے ملا قات کے بعدقاضی صاحب نے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لاہور بھر میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی کے نعروں پر مبنی اشتہار لگ گئے۔اس کی اطلاعات جب پیپلز پارٹی کی قیادت تک پہنچیں تو انہوں نے سوچنا شروع کر دیا کہ( ن) لیگ ججز کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر قدیر خان کے مسئلہ پر انہیں دبائو میں لانا چاہتی ہے۔ پریس کانفرنس میں چوہدری نثار علی خان نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی کیلئے تحریک چلانے کی دھمکی بھی دی۔
میاں نواز شریف نے ججز کی بحالی سمیت ضمنی انتخابات میں اپنے اور شہباز شریف صاحب کے کاغذات کی منظوری اور تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کی راہ میں آئینی رکاوٹیں دور کرنے پر فوری فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ابھی بات چیت ابتدائی مرحلے میں تھی کہ دونوں لیڈروں کے میزبانوں کی طرف سے زرداری صاحب کو ایک ہنگامی پیغام ملا جس پر وہ مذاکرات چھوڑ کر ہوٹل سے باہر چلے گئے لیکن تصفیہ طلب متنازع امور پر مزید بات کرنے کے لیے دبئی میں زرداری صاحب اور میاں نواز شریف نے اگلی ملاقات کا وقت طے کر لیا لیکن اسے میڈیا سے چھپائے رکھا۔ مبینہ طور پر دبئی روانگی سے ایک دن قبل امریکی سفیر نے زرداری صاحب اور میاں نواز شریف کو امریکہ کے نائب وزیر خارجہ رچرڈ بائوچر سے لندن میں ملاقات کا پیغام دیا۔لندن میں جناب نواز شریف اور زرادری کی اس ملاقات میں شریف برادران کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی اجا زت اور تیسری بار وزیر اعظم بننے کی شق کے خاتمہ کی یقین دہانی مانگی گئی جس پر انہیں کچھ شرائط کے ساتھ اجازت دینے کا فیصلہ ہوا۔ جب پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے ساتھ بات چیت شروع کی اور آصف علی زرداری ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر پہنچے تو( ن) لیگ کو اچھی طرح علم تھا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔اگر وہ ججز سے اتنے ہی مخلص تھے تو اسی وقت اپنے استعفے پیش کر دیتے جب ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی سے اتحاد ہوا۔کیا (ن )لیگ معزول ججز کے بارے میں ایم کیو ایم کے خیالات سے واقف نہ تھی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved