دو دہائی قبل‘ نائن الیون واقعے کے بعد کراچی سے حراست میں لی گئی پاکستان کی ایک بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو افغانستان میں برسوں قیدِ تنہائی میں رکھنے کے بعد امریکہ پہنچا دیا گیا اور 2010ء میں ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے انہیں 86 برس قید کی سزا سنا دی گئی اور اب وہ گزشتہ 13 سال سے امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ کی فیڈرل میڈیکل سنٹر کارس ویل جیل میں یہ سزا کاٹ رہی ہیں۔ امریکی قید میں دخترِ پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی تقریباً بیس سال کے بعد جیل میں اپنی بہن بڑی بہن فوزیہ صدیقی، جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور وکیل کلائیو سمتھ سے ملاقات ہوئی‘ جس میں ڈاکٹر عافیہ کا کہنا تھا کہ خدا کے لیے مجھے اس جہنم سے نکالو۔ اس ملاقات کے بعد سینیٹر مشتاق احمد خان نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر سارے سفارتی ذرائع اختیار کرے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امریکی قید سے پاکستان کی اس اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی کی رہائی کے لیے کوششیں تیز تر کرے اور انہیں واپس پاکستان لائے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے بتایا کہ عافیہ صدیقی اور ان کی بڑی بہن فوزیہ صدیقی کی پہلی ملاقات کا دورانیہ ڈھائی گھنٹے تھا‘ عافیہ بار بار اپنی والدہ کا ذکر رہی تھیں‘ انہیں اپنی ماں کی وفات کا علم تک نہ تھا۔ اس ملاقات کے دوران ڈاکٹر فوزیہ کو عافیہ صدیقی سے گلے ملنے یا ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہیں تھی۔ انہیں اس بات کی اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کی تصاویر ہی دکھا سکیں۔ اگلے روز ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی دوسری اور سینیٹر مشتاق احمد خان کی پہلی ملاقات ہوئی، یہ ملاقات تین گھنٹے تک جاری رہی جو جیل کی آزمائشوں اور سختیوں، دو دہائیوں کے بعد ملاقات کی خوشی کے آنسوئوں، وطن اور پیاروں کی طویل جدائی کی آہوں اور اپنی ماں، خاندان، بہن، بھائیوں اور بچوں سے ملنے کی تڑپ کی دکھ بھری داستان تھی۔ شفاف شیشے کی اوٹ سے ہونے والی ملاقات میں فریقین صرف ایک دوسرے کو دیکھ سکتے اور فون کے توسط سے بات کر سکتے تھے۔ ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ کے آگے کے چاردانت ٹوٹے ہوئے تھے، وہ آف وائٹ سکارف اور جیل کے خاکی لباس میں بڑی نحیف و کمزور لگ رہی تھیں، دونوں بہنیں ایک دوسرے کو حسرت و یاس کے ساتھ دیکھتی جا رہی تھیں اور سب کی آنکھیں آنسوئوں سے تر تھیں۔
سر کی چوٹ سے ڈاکٹر عافیہ کی قوتِ سماعت کمزور ہو چکی ہے اور بات سننے میں بھی ان کو بڑی دشواری پیش آ تی ہے۔ انہیں جیل کی کوٹھڑی سے قیدیوں کی بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر لایا گیا تھا اور اسی حالت میں واپس لے جایا گیا۔ بیس سال سے امریکی مظالم برداشت کرنے والی قوم کی بیٹی خوف زدہ دکھائی دے رہی تھی،وہ بار بار ایک ہی بات دہرائے جا رہی تھیں کہ خدا کے لیے مجھے اس جہنم سے نکالو، خدا کے لیے مجھے اس جہنم سے نکالو۔ اس ملاقات کے دوران عافیہ صدیقی کا دھیان اور توجہ جیل کی برسوں پر محیط تنہائی، اس کی سختیوں اور کڑی اور ناقابلِ برداشت آزمائشوں سے ہٹانے کے لیے ادب پر گفتگو کی کوشش کی گئی لیکن وہ کچھ دیر کے لیے اس میں حصہ لیتیں اور اپنی مہارت اور قادر الکلامی کا مظاہرہ کرتیں لیکن پھر اچانک وہ چونک اٹھتیں اور اپنی والدہ، بچوں، خاندان اور جیل کی اذیتوں کا ذکر کرنے لگتیں اور زبان اور اشاروں سے ایک ہی التجا اور مطالبہ کرتیں کہ کسی بھی طرح مجھے یہاں سے باہر نکلوائو۔
مارچ 2003ء میں عافیہ صدیقی کی گمشدگی کا معاملہ سامنے آیا مگر کئی سال تک اس حوالے سے کوئی اطلاع نہ مل سکی۔ اسی دوران 2006-07ء میں افغانستان میں طالبان کی قید میں اسلام قبول کرنے والی معروف برطانوی صحافی ایوان رڈلی نے عافیہ صدیقی کا کھوج لگانے کی کوشش کی کہ وہ کہاں ہیں؟ وہ اس دوران چار عرب باشندوں سے ملیں جو بگرام جیل سے فرار ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بگرام جیل میں ایک خاتون بھی قید ہے جسے قیدی نمبر 650 کہا جاتا ہے، انہوں نے اس کا حلیہ بھی بتایا جو عافیہ صدیقی سے ملتا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اس پر اتنا تشدد ہوتا ہے کہ چیخوں کی وجہ سے دیگر قیدی بھی کئی کئی راتوں کو سو نہیں پاتے۔ تمام شواہد اکٹھے کرنے کے بعد یہ نو مسلم برطانوی صحافی سراپا احتجاج بن گئی اور فوراً پاکستان آئی کہ اس خوابیدہ قوم کی غیرت پر سوال کرے۔ اس نے بتایا کہ بگرام کی خاتون قیدی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں۔ اس دوران ڈاکٹر عافیہ پر مظالم کی وہ داستانیں سامنے آئیں کہ روح کانپ اٹھے۔ بدترین جسمانی اذیت کے علاوہ انہیں جنسی تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے کا بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ ایوان رڈلی نے کہا کہ میں خود بھی ایک نو مسلم ہوں‘ مجھے اسلام کی تعلیمات کا علم ہے‘ میں تو تصور بھی نہیں کر سکتی کہ کوئی مسلمان اپنی بہن کو غیر مسلموں کے حوالے کر دے کہ وہ اسے جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنائیں۔ پاکستانی قوم کے مقابلے میں اس ایک نومسلم برطانوی خاتون کی آواز زیادہ گرج دار، زیادہ جذباتی او رزیادہ ایمان افروز تھی۔ اس کے بعد بگرام جیل کے کرنل رولی نیلسن گرین نے جھوٹ بولا کہ بگرام جیل میں کوئی عورت نہیں ہے۔ مگر ایوان رڈلی شواہد کے ساتھ میدان میں اتری تھیں۔ اسی دوران 2008ء میں امریکہ کی جانب سے باضابطہ اعلان کیا گیا کہ عافیہ صدیقی نامی ایک ملزمہ کو غزنی میں افغان پولیس نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ امریکی سپاہیوں سے ان کی بندوق چھین کر ان پر حملہ کرنے کی کوشش میں زخمی ہو گئی تھی۔ یہ عجیب کیس تھا جس میں گن چھیننے والی حملہ آور زخمی ہو گئی اور امریکی سپاہیوں کو خراش تک نہ آئی۔ بہرکیف‘ امریکیوں کو قتل کرنے کی کوشش کے جرم میں ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ منتقل کر دیا گیا اور پھر نیویارک کے جنوبی ڈسٹرکٹ کی عدالت میں مقدمہ چلا اور انہیں 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ کی وکیل اور ترجمان ٹینا فوسٹر نے اس سزا پر صاف کہا کہ عافیہ کو سزا صرف اور صرف پاکستانی حکومت کی بے حسی، لاپروائی اور بے اعتنائی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ یہاں فلپائن کے ایک ڈرائیور اینجلووڈی لاکروز (Angelo dela Cruz) کا قصہ بیان کرنا ضروری ہے جسے 2004ء میں عراق جنگ کے دوران اغوا کیا گیا تھا اور اغوا کاروں نے مطالبہ کیا تھا کہ فلپائن فوری طور پر عراق سے اپنی فوجیں واپس بلائے۔ اس پر فلپائن نے‘ جو سو سال سے امریکہ کا دستِ نگر تھا‘ امریکہ کی دوستی کو پس پشت ڈالتے ہوئے فوراً اپنی فوجیں عراق سے واپس بلا لی تھیں۔ محض تیرہ دنوں میں فوجیں واپس بلا کر فلپائن نے اغواکاروں کے تسلط سے اپنے ورکر کو آزاد کرا لیا تھا۔ عین اُسی وقت ہمارے یہاں مختاراں مائی کے لیے تو سڑکیں اور شہر بند کر کے میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں‘ سب سراپا احتجاج تھے مگر عافیہ صدیقی کے نام پر ہی ساری تنظیموں کو چپ سی لگ گئی۔
اب بیس سال کے بعد ایک بہن کی جدوجہد صرف اس حد تک کامیاب ہو سکی ہے کہ غیروں کی قید میں ظلم و بربریت کی شکار اپنی بہن سے شیشے کی اوٹ سے چند گھنٹے کی ملاقات کر سکے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی مسلسل جدوجہد یقینا لائقِ تحسین ہے۔ اللہ پاک نے انہیں یہ پہلی کامیابی عطا کی ہے‘ اب یہ معاملہ ایک بار پھر پوری قوم کی آواز بن چکا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے‘ پوری پاکستانی قوم کو اپنی بہن اور بیٹی عافیہ صدیقی کی عافیت کیلئے اس طرح آواز بلند کرنی چاہئے کہ پوری امت مسلمہ امریکیوں کو مجبور کر دے کہ وہ اس بے گناہ و مظلوم خاتون کو رہا کر دیں۔ یہ کسی ایک خاندان یا کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ قومی غیرت کا سوال ہے، جس کے لیے قوم کا ہر فرد عموماً اور اربابِ اختیار و اقتدار خصوصاً کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب لوہا گرم ہوتا ہے تو ہی اس پر ضرب اچھی لگتی ہے۔ اب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی ایک بار پھر لائم لائٹ میں ہے لہٰذا قوم کی نظریں ملک کی سیاسی قیادت پر ہیں کہ وہ تمام سفارتی اور قانونی ذرائع استعمال کرتے ہوئے ہماری بہن کی آزادی کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ یقینا حکومتی اور سفارتی سطح پر اس حوالے سے کوششیں ہو رہی ہوں گی لیکن ان کوششوں کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved