پاکستانی سیاست میں وہ ہو رہا ہے‘ جس کا چند ماہ پہلے تک تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ تحریک انصاف کا کوئی بڑے سے بڑا مخالف بھی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ اس پر یہ افتاد پڑنے والی ہے۔ عمران خان زوروں پر تھے اور اپنے مخالفین کو زچ کئے ہوئے تھے۔ ان کے حریف اقتدار سنبھالے ہوئے تھے‘ لیکن ان سے کچھ سنبھل نہیں رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ان کی طاقت کو اقتدار کا گھُن اسی طرح کھاتا جا رہا ہے جس طرح عمران خان کی توانائی کو نگل رہا تھا۔ خان اقتدار میں تھے‘ اختیارات سے مالا مال تھے‘ جس کے ساتھ جو سلوک چاہے کر گزرتے تھے‘ اُنہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا‘جیلوں کے دروازے کھلے ہوئے تھے‘ مقدمات کی بھرمار تھی‘ جو ایک بار حوالۂ زنداں ہو جاتا‘ ہفتوں کیا مہینوں اُسے آسمان دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔نیب کے اسیروں کو قانون کے تحت ضمانت مل سکتی تھی‘ نہ ہی ان کے مقدمات تیز رفتاری سے چل پاتے تھے۔ عدالتیں رٹ جورسڈکشن کے تحت ضمانت کی درخواست نبٹاتیں اور دنوں کاسفر ہفتوں کیا‘ مہینوں اور بعض اوقات برسوں میں طے ہوتا۔ تحریک انصاف کے بڑے بڑوں ہی نہیں چھوٹوں تک کا خیال تھا کہ آئندہ انتخاب بھی خان کا ہے۔ طاقت کے مراکز پر ان کا تسلط بھرپور ہے‘ اس لئے وہ آئندہ انتخابات بآسانی جیت جائیں گے۔ سادہ کیا دوتہائی اکثریت کا خواب دیکھا جا رہا تھا‘ اس کے ذریعے نظام کو تبدیل کرنے کے منصوبے بھی بن رہے تھے۔ پارلیمان کی جگہ صدارتی نظام لایا جائے گا اور پورے ملک میں ڈنکا بجایا جائے گا... ہرچند کہ ضمنی انتخابات میں شکست پر شکست ہو رہی تھی‘ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی اپنے حلقوں میں جانے سے گھبرانے لگے تھے‘ لیکن خان صاحب اپنی دھن میں مگن تھے‘ ان کا خیال تھا کہ وہ جلد کمزوری پر قابو پا لیں گے۔ ادارہ جاتی طاقت کے فیض سے عوامی طاقت کا دریا بھی راستہ بدل لے گا اور وہی ہوگا جو خان چاہے گا۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ گئی۔ وزیراعظم عمران خان کا اقتدار جن کا مرہونِ منت تھا‘ انہی نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ وہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی جو ان کی طاقت بنی ہوئی تھیں‘ اُنہوں نے آنکھیں پھیر لیں اور خان صاحب سابق وزیراعظم بن گئے۔ ان کی جگہ شہبازشریف نے لے لی‘ جس قومی اسمبلی نے عمران خان کو وزیراعظم چنا تھا‘ اسی نے انہیں نکال باہر کیا۔ تحریکِ انصاف کو تنہا اکثریت حاصل تھی‘ نہ مسلم لیگ (ن) کو... دونوں اکثریت حاصل کرنے کیلئے دوسروں کے محتاج تھے۔ جنہوں نے عمران خان کو سر پر اٹھا رکھا تھا‘ انہی نے زمین پر دے مارا‘ خان صاحب کے سامنے ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ قائد ِحزب اختلاف کا کردار ادا کرتے‘ قومی اسمبلی میں بیٹھ کر آئندہ انتخابات کا انتظار کرتے اور اقتدار سے محرومی کے بعد ان کی مقبولیت میں جو اضافہ ہو رہا تھا‘ اس کے بل پر دوبارہ وزیراعظم بننے کی کوشش کر گزرتے۔ جس اقتدار نے ان کی مقبولیت کوگھن لگا دیا تھا‘ اُسی نے ان کے حریفوں کی طاقت کو بھی چاٹنا شروع کر دیا کہ پاکستانی معیشت جن مسائل سے دوچار تھی‘ انہیں چٹکیاں بجا کر حل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کیلئے منصوبہ بندی اور مسلسل محنت درکار تھی۔ عمران خان کے مخالف تمام مسائل کی جڑ اُنہیں قرار دیتے تھے اور یہ تاثر دینے میں کامیاب تھے کہ جونہی عمرانی اقتدار ختم ہوگا‘ لوگوں کی مشکلات کا بھی خاتمہ ہونے لگے گا۔ ڈالر کی اُڑان رک جائے گی‘ مہنگائی کا طوفان تھم جائے گا‘ آئی ایم ایف سے معاملہ آسان ہو جائے گا‘ سیاسی استحکام نصیب ہوگا اور نتیجتاً معاشی استحکام سے بھی مالا مال ہوتے جائیں گے۔صنعتوں کا پہیہ چلنے لگے گا‘ روزگارکے مواقع پیدا ہوں گے اور لوگ اطمینان کا سانس لے کر خان صاحب کو کوسنے دینے میں لگ جائیں گے... لیکن یہ خواب چکنا چور ہو گئے۔ عمران خان کی اقتدار سے محرومی کے بعد بھی عام آدمی کی محرومیاں سمٹ نہ سکیں تو خان کی سیاست میں جان پڑتی گئی‘ اس نے اقتدار کی دولت سے مالا مال حریفوں کی سیاست کو بے چارگی اور بے بسی سے دوچار کر دیا۔
عمران خان اگر نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی طرح اقتدار کا غم برداشت کر لیتے تو انہی کی طرح دوبارہ بھی اقتدار کا منہ دیکھ سکتے تھے‘ لیکن انہوں نے اپنی طاقت کو انتخابات کیلئے مختص کرنے کے بجائے‘ سڑکوں اور میدانوں میں جوہر دکھانے پر لگا دیا۔ طاقت کے ہر مرکز کو زیر کرنا ہدف بنا لیا‘نئے محاذ کھلتے گئے اور نئے الجھائو پیدا ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ 9 مئی کا سانحہ ہو گیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد ان کے منہ زور حامیوں نے جو پر تشدد احتجاج کیا‘ فوجی تنصیبات اور قومی اداروں کو جس طرح نقصان پہنچایا‘ اُس نے ہر شے بدل ڈالی... عمران خان بروقت معاملے کی نزاکت کا احساس نہ کر سکے‘ اگرچہ‘ مگرچہ‘ چونکہ‘ چنانچہ میں لگ گئے اور غم و غصہ ان کے خلاف بڑھتا چلا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا رہے ہیں۔ جماعت سے لاتعلقی کے اعلان ہو رہے ہیں‘ مناصب چھوڑے جا رہے ہیں۔ عثمان بزدار اور کئی دوسرے رہنما تو سیاست ہی سے دستبردار ہو گئے ہیں۔
حریفانِ سیاست کا کہنا ہے کہ جس طرح عمران خان کی طاقت میں اضافہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح اسے واپس لیا جا رہا ہے... عمران خان اور ان کے کٹر حامیوں کا خیال ہے کہ وٹامن کی گولی معدہ سے واپس بلائی نہیں جا سکتی۔ خان صاحب کو توانائی سے یکسر محروم کر دینا ممکن نہیں ہوگا‘ وہ دادِ شجاعت دیتے رہیں گے اور حریفوں کی نیندیں حرام کئے رکھیں گے۔ آنے والے وقت کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا آسان نہیں ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی جدوجہد ہی کے ذریعے زندہ اور توانا رہتی ہیں... اس راستے سے ہٹنے والوں کے راستے کشادہ نہیں رہتے... اسباب جو بھی ہوں‘ حالات جو بھی ہوں‘ نادان دوستوں نے نقصان پہنچا دیا ہے۔ کئی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ خان کا نادان دوست کوئی اور نہیں ہے‘ وہ خود ہیں۔ وہ اپنی طاقت بھی آپ ہیں اور کمزوری بھی آپ ہیں... وہی اپنی غلطیوں کو درست کر سکتے ہیں اور ان میں اضافہ بھی کر کے دکھا سکتے ہیں... وہ جو بھی فیصلہ کریں‘ پاکستانی جمہوریت کو اپنے راستے پر گامزن رہنا چاہئے... انتخابات مقررہ وقت پر ہوں‘ آزادا نہ ہوں اور منصفانہ ہوں‘ مقتدر حلقے اس نکتے کو آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیں ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ
پاکستان کے انتہائی ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں تو عمر اور صحت کے ہاتھوں محدود ہو چکی ہیں‘ وہ گھر سے قدم باہر نہیں نکال پاتے‘ لیکن ان کی تحقیقی اور تصنیفی مصروفیات ماشاء اللہ برقرار ہیں۔ چند ہی روز پہلے ان کی نئی کتاب ''پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام آئی ہے۔ قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کے علامہ عبدالستار عاصم نے اسے بڑی چاہت اور محنت سے آرٹ پیپر پر شائع کیا ہے۔ ظفر صاحب کے بقول یہ کتاب پارلیمانی اداروں کے ارکان کیلئے ایک ''ٹورسٹ گائیڈ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جناب وسیم سجاد کا کہنا ہے کہ یہ کتاب حکومتی امور اور اداروں کے مکمل فہم کیلئے بھی معاون ہے‘ اس کا مطالعہ پارلیمانی سیاست کے ہر طالب علم پر لازم ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved