سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے پارٹی عہدہ چھوڑنے کے بعد یہ تاثر دم توڑ گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی تعداد کم ہے۔پرویز خٹک کو خیبرپختونخوا کے قافلے کی اس رہنما کونج سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جسے دیکھ کر باقی کونجیں اپنے راستے کا انتخاب کرتی ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ اسد قیصر بھی پارٹی چھوڑے چکے ہیں حالانکہ ایک روز قبل چند صحافیوں سے ملاقات کے دوران اسد قیصر عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑنے کی قسمیں کھارہے تھے۔ پرویز خٹک کی مختصر پریس کانفرنس کے بعد خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی چھوڑنے والے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے کوشاں ہوں گے کیونکہ پرویز خٹک کا شمار پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں میں ہوتا تھا جو چیئرمین تحریک انصاف کے نہایت قریب سمجھے جاتے تھے۔ خیبرپختونخوا کے باقی رہنماؤں میں سے بہت کم ایسے تھے جنہیں پارٹی چیئرمین تک براہ راست رسائی حاصل تھی‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پرویز خٹک کی خیبرپختونخوا میں کیا اہمیت تھی۔عثمان بزدار وہ شخص ہیں جن پر آخر تک خان صاحب کی نظر ِکرم رہی اور ان پر بے تحاشا احسانات تھے وہ بھی پی ٹی آئی چھوڑ چکے اسی طرح خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ محمود خان بھی خان صاحب کے منطور نظر تھے‘ پارٹی پر مشکل حالات آتے ہی یہ مکمل طور پر خاموش اور روپوش ہیں‘ سابق گورنر شاہ فرمان بھی راہیں جد کر چکے۔ ایسے رہنما ؤں کے پارٹی عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں اس خلا کو کون پُر کرے گا؟ معاملہ محض خیبرپختونخوا تک محدود نہیں ملک کے دوسرے صوبوں میں پی ٹی آئی کو اس سے بڑھ کر چیلنجز کا سامنا ہے مگر پی ٹی آئی حالات سے سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہے اب بھی مذاکرات میں شرائط پیش کی جا رہی ہیں حماد اظہر کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی مذاکرات کی پیشکش صرف حقیقی فیصلہ سازوں کیلئے تھی نہ کہ کٹھ پتلیوں کیلئے۔ 27 اپریل کو شروع ہونے والے مذاکرات میں بھی ہم نے لکھا تھا کہ اعلیٰ قیادت کی شمولیت کے بغیر مذاکرات سودمند ثابت نہیں ہوں گے‘ ویسے ہی ہوا‘ پی ٹی آئی قیادت آج بھی شارٹ کٹ کی تلاش میں ہے باوجود اس کے کہ اسٹیبلشمنٹ نو مئی کے پرتشدد واقعات کو بھلانے کیلئے تیار نہیں ہے جون کا مہینہ پی ٹی آئی کیلئے کافی مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ پھر بھی پی ٹی آئی والے انہی قوتوں سے بہتر سیاسی مستقبل کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
نو مئی کے پرتشدد واقعات کی بنا پر پی ٹی آئی سے راستے جدا کرنے والوں کی تعداد سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ پارٹی بکھر گئی ہے‘ بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا متبادل کیا ہو گا‘ پی ٹی آئی چھوڑنے والے الگ پارٹی بنائیں گے یا مختلف سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کریں گے؟ جہانگیر ترین سے پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں کی ملاقاتوں سے نئی پارٹی کا گمان ہوتا ہے۔ عمومی خیال یہ ہے کہ جہانگیر ترین ایک اچھے منتظم ہیں مگر ان کا ووٹ بینک ایک حلقے تک محدود ہے۔ جہانگیر ترین سیاسی میدان میں چوہدری شجاعت‘ سابق صدر آصف زرداری اور (ن) لیگی رہنماؤں کے ہم پلہ نہیں اس لئے اگر جہانگیر ترین موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی جماعت بناتے بھی ہیں تو اس کی سیاسی ساکھ نہیں ہو گی۔ ہاں (ق) لیگ متوقع طور پر پی ٹی آئی کا متبادل ہو سکتی ہے۔ پارٹی چیئرمین کی مایوسی نے بھی پی ٹی آئی کے متبادل کے خدشات کو تقویت دی ہے‘ کیونکہ وہ اب بخوبی جان چکے ہیں کہ ووٹ بینک کے باوجود پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہو گا۔
پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کا دوسری جماعتوں میں شمولیت کا اعلان نہ کرنا نئے سیاسی سیٹ اپ کے خدشات کو تقویت دیتا ہے۔ پرویز مشرف کی آمریت کے دور میں مسلم لیگ( ن) کے متبادل کے طور پر جس طرح (ق) لیگ تشکیل دی گئی تھی اسی طرز پر پی ٹی آئی کا متبادل تیار کیا جا سکتا ہے‘حقیقت یہ ہے کہ مارچ 2022ء کو سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے پہلے پی ٹی آئی حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے سیاسی رہنما اگلے انتخابات کیلئے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے متمنی تھے اب صورتحال یکسر مختلف ہے الیکٹ ایبلز پی ٹی آئی کو چھوڑ گئے مگر ان میں سے اکثر نے مسلم لیگ (ن) یا پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا۔ سابق صدر آصف زرداری لاہور میں قیام پذیر ہیں‘ انہوں نے( ق) لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی ہے۔اس موقع پر سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور بھی موجود تھے۔ جنوبی پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کا ہمیشہ ووٹ بینک رہا ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی میں جنوبی پنجاب سے سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود جیسے قدآور سیاستدان موجود ہیں حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک محفوظ رہا۔ جب اکتوبر 2022ء میں ملتان سے زین قریشی کی خالی نشست پر ضمنی انتخابات ہوئے تو یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے موسیٰ گیلانی نے شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہربانو کو بھاری مارجن سے شکست دی۔ پی ڈی ایم میں شامل سبھی جماعتیں بخوبی جانتی ہیں کہ پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے جس جماعت میں شمولیت کا اعلان کریں گے اگلے انتخابات میں اس کا پلڑا بھاری ہو گا۔ مسلم لیگ( ن) ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر خاموش ہے۔ کیا مسلم لیگ (ن) پنجاب کو اپنے ہاتھ سے جاتا ہوا دیکھ کر بھی خاموش رہے گی یا اندرون خانہ کوئی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے پارٹی قائد میاں نواز شریف کے بغیر الیکشن میں نہیں جانا چاہتی‘ سپریم کورٹ نظر ثانی ایکٹ اور نو برس بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی پانامہ پیپرز میں 436 افراد کے خلاف تحقیقات کے حوالے سے درخواست کا سماعت کیلئے مقرر ہونا بلاوجہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نظرثانی قانون کا اطلاق ماضی کے کیسز پر بھی ہو سکے گا‘ نئے قانون کے مطابق نظر ثانی درخواست پر بننے والا بینچ فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا ہو گا۔ اس قانون کے تحت اگر میان نواز شریف کی تاحیات نااہلی ختم ہو جاتی ہے تو وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے۔
پی ٹی آئی کی ساری محنت سوشل میڈیا پر سیاسی بیانیہ تشکیل دینے پر مرکوز رہی‘ مشکل حالات آتے ہی پورا بیانیہ ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ اب بھی من گھڑت ویڈیوز کے ذریعے کردار کشی کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جا رہا ہے‘ حتیٰ کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان بھی اس پروپیگنڈے سے محفوظ نہیں۔ سپریم کورٹ کے ججز کا چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے اصولی اختلاف پر یہ تاثر عام ہوا کہ معزز جج صاحبان میں اختلاف پایا جاتا ہے اس ضمن میں طرح طرح کی کہانیاں گھڑی گئیں حالانکہ ججز میں اختلاف رائے اور اصولی اختلاف معمول کی بات سمجھا جاتا ہے۔ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو وفاقی شرعی عدالت کے سابق جج سید انور کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا گیا‘ اس ویڈیو میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دوسرے مہمانوں سے ملتے ہوئے نظر آئے‘ ویڈیو کے ذریعے یہ تاثر قائم کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس سے ہاتھ نہیں ملایا جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا وہ چند منٹ پہلے چیف جسٹس سے مصافحہ کر چکے تھے‘ ویڈیو جاری کرنے والے نے مہارت سے ایڈٹ کرتے ہوئے وہ حصہ نہیں دکھایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وضاحتی بیان جاری کیا جس سے سوشل میڈیا پر جاری مفروضے دم توڑ گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس بات کی بھی تردید کی کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں کوئی الگ گروپ بنا رکھا ہے۔ اس کے بعد چیف جسٹس اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شجر کاری مہم میں حصہ لیتے ہوئے سپریم کورٹ میں اکٹھے پودا بھی لگایا‘ کیا ہی اچھا ہو کہ سیاستدان بھی اپنے اختلافات کو بھلا کر جمہوریت کا پودا جو بے ثمر ہے اور مرجھا چکا ہے اس کی مشترکہ طور پر آبیاری کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved