تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     04-06-2023

وسیم اکرم پلس سیاست سے مائنس

کل کا اخبار دیکھا تو یہ شعر فوراً سے ذہن میں آیا کہ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔ اس کا پس منظر دو سابق وزرائے اعلیٰ کے بیانات تھے ، ایک وہ وزیر اعلیٰ پنجاب جس کی حمایت خان صاحب کو اس نہج پر لے گئی کہ ان کی سیاست اور پارٹی کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور وہ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔دوسرا وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب جسے کبھی خان صاحب سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتے تھے۔کہتے ہیں سیاست میں آج کا دوست کل دشمن اور دشمن دوست بن سکتا ہے۔ خیر میں بات کر رہا تھا دو اہم بیانات کے حوالے سے تو عثمان بزدار نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نو مئی کے واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ وہ فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ سیاست سے دستبرداری کا اعلان بھی کر دیا۔ دوسری جانب ایک کیس میں رہا ہوتے ہی دوسرے کیس میں گرفتار ہونے والے چوہدری پرویز الٰہی نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ وہ کوئی پریس کانفرنس نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کارکنوں کیلئے پیغام ہے کہ وہ تگڑے رہیں، گھبرانا نہیں اور ساتھ ہی انہوں نے پی ٹی آئی نہ چھوڑنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ تختِ لاہور کے وارث کیلئے جب سردار عثمان بزدار کا نام گھونجا تو ہر کوئی ششدر رہ گیا کیونکہ سوائے چند لوگوں کے کسی نے یہ نام نہیں سن رکھاتھا۔ اس انجانے نام والے کو عمران خان نے وسیم اکرم پلس قرار دیا۔ ویسے تو خان صاحب ہمیشہ سے ہی سیاست میں کرکٹ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔جب ہوا کا رخ ان کے حق میں تھا تو ان کی جماعت کو مضبوط بنانے کیلئے الیکٹ ایبلز کو توڑ توڑ اس جماعت میں شامل کیا گیا۔عمران خان ان الیکٹ ایبلز کو وکٹ کا نام دیتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے (ن) لیگ کی وکٹ گرادی‘لیکن آج صورتحال کافی مختلف ہے‘خان صاحب کی اپنی وکٹیں نہ صرف گر رہی ہیں بلکہ اب وہ لوگ بھی چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں جو شروع سے خان صاحب کے ساتھ کھڑے تھے۔ خان صاحب پارٹی میں اکیلے ہوتے جارہے ہیں۔جیسا کہ میں اپنی اکثر تحریروں اور ٹی وی ٹاک شوز میں یہ کہتا آیا ہوں کہ اب مائنس عمران فارمولے پر کام شروع ہوچکا ہے جو تیزی سے آخری مراحل میں داخل ہو رہا ہے۔آپ دیکھئے کہ ان کا وہ عظیم کھلاڑی جس کو وہ وسیم اکرم پلس کہتے تھے وہ بھی ساتھ چھوڑ گیا ہے۔یہ وہی وسیم اکرم پلس تھے جنہیں وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا گیا۔پنجاب کا تخت وہ تخت ہے جس کے ذریعے سے وزارت عظمیٰ کا راستہ بھی ہموار ہوتا ہے۔اتنے اہم صوبے پر ایک ایسے شخص کو بٹھایا گیا جو اس عہدے کیلئے اہل ہی نہیں تھا۔عثمان بزدار کو وزیر اعلی لگانے کی دو وجوہات تھیں‘ پہلی یہ کہ وہ پنجاب میں ایسا بندہ لگایا جائے جس کی ڈوریں خان صاحب کے ہاتھ میں ہوں جو اُن کے مقابلے میں آکر کھڑا نہ ہوجائے‘ دوسری وجہ روحانی تعلق بتایا جاتا ہے۔ کئی تجزیہ کاروں کے بقول خان صاحب کو کہا گیا کہ جب تک عثمان بزدار وزیر اعلیٰ ہیں تب تک خان صاحب وزیر اعظم رہیں گے۔ اتفاق دیکھئے کہ جب عثمان بزدار کو نا چاہتے ہوئے اور مجبوریوں میں ہٹایا گیا اور پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کی کرسی پر بٹھایا گیا تب سے خان صاحب کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ خیر وسیم اکرم پلس نے اب اپنے کپتان کو مشکل میں اکیلا دیکھتے ہوئے بھی ان سے تعلق توڑ دیا ہے اور سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرح اور بزدار پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ایسے میں شاید انہوں نے اپنے کیسز سے بچنے کیلئے خود ہی مائنس ہونے کا فیصلہ کیا ہو یاان کی کوئی ڈیل ہوگئی ہو۔خان صاحب نے ان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا‘پنجاب کے اہم صوبے پر انہوں نے کپتان کے سر پر حکمرانی کی۔تحریک انصاف کے کئی رہنما بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے کے حق میں نہیں تھے یہاں تک کہ اسٹیبلشمنٹ سے کپتان کی لڑائی کی بڑی اور بنیادی وجہ بھی بزدار ہی تھے۔خود خان صاحب کہہ چکے ہیں کہ جنرل باجوہ صاحب چاہتے تھے کہ یا علیم خان کو یا پھر پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب لگا یا جائے۔خان صاحب نہیں مانے اور بہت زیادہ سیاسی نقصان کروا بیٹھے‘لیکن بزدار نے پارٹی چھوڑتے ہوئے دیر نہیں لگائی۔یہ موسمی پرندے ثابت ہوئے۔خان صاحب جو اِن کو بہت بھولے سمجھ رہے تھے وہ دھوکے میں رہے۔ خان صاحب سمجھیں یا نہ سمجھیں بزدار انہیں لے ڈوبنے والے اہم فیکٹر تھے۔ہوسکتا ہے خان صاحب کو اب سمجھ آگئی ہواور وہ پچھتا رہے ہوں کہ انہوں نے کس بندے کو اتنے اہم عہدے پر بٹھادیا۔
اسی طرح پرویز خٹک صاحب جنہوں نے ابھی پارٹی تو نہیں چھوڑی لیکن انہوں نے پارٹی کے عہدے چھوڑ کر یوں سمجھ لیں آدھی تحریک انصاف چھوڑ دی ہے باقی وہ آنے والے وقت میں فیصلہ کرلیں گے کہ ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا‘لیکن ان کا پارٹی عہدہ چھوڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اب اپنے سیاسی مستقبل کیلئے سوچ رہے ہیں۔ خان صاحب نے انہیں وزیر اعلیٰ کے پی لگایا پھر وزیر دفاع بنایا‘یہ بھی خان صاحب کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں اسی لیے تو خان نے اپنے بعد پارٹی کو چلانے کیلئے جو کمیٹی بنائی اس میں پرویز خٹک بھی شامل تھے لیکن ہوسکتا ہے کہ پرویز خٹک بھی وہی کریں جو خان صاحب کے قابلِ بھروسا عثمان بزدار نے کیا ہے۔پرویز خٹک کے پی میں اپنا اثر رکھتے ہیں۔واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ 25 لوگوں کا ایک گروپ موجود ہے۔پرویز خٹک کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کے جہانگیر ترین سے بھی رابطے ہیں۔ان کے پاس دو آپشنز ہیں یا وہ اپنا ایک علیحدہ دھڑا بنالیں یا جہانگیر ترین گروپ کو جوائن کرلیں۔ اسد قیصر بھی اس وقت موجود تھے جب پرویز خٹک نے پارٹی عہدے چھوڑنے کا فیصلہ کیا‘ممکن ہے آنے والے وقت میں اسد قیصر بھی کوئی اہم فیصلہ کرلیں اورجب فواد چودھری ،عمران اسماعیل اور مولوی محمود نے گزشتہ دنوں جیل میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی تو میری خبر کے مطابق فواد صاحب نے شاہ صاحب کے سامنے دو آپشنز رکھے کہ یا تو جہانگیر ترین گروپ کو جوائن کرلیا جائے یا پھر ہم مائنس کپتان کے ساتھ اپنی جماعت بنالیں۔ واقفانِ حال کے بقول شاہ محمود قریشی نے اس پر سوچنے کیلئے وقت مانگا ہے۔اگر شاہ محمود قریشی خان صاحب کو چھوڑ دیتے ہیں تو سمجھ لیں کپتان کی تحریک انصاف ختم ہوجائے گی۔خبر یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کور کے 13 اہم رہنما ؤں کے حوالے سے فواد چودھری یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔ان میں سے کچھ نئے اور کچھ پرانے لوگ شامل ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ شاہ محمود قریشی بھی ڈوبتی کشتی کو دیکھتے ہوئے اس میں سے چھلانگ لگا لیں گے اور پرانی تحریک انصاف ختم ہوکر ایک نئی تحریک انصاف مائنس بانی پی ٹی آئی کے ساتھ رونما ہوگی۔اور میں پلس نواز شریف دیکھ رہا ہوں کیونکہ اب آرٹیکل 184(3) کے تحت جن کیسز کے فیصلے ہوئے ان پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کا قانون بن گیا ہے جس میں نواز شریف کو فائدہ ہوسکتا ہے۔اس لیے لگ رہا ہے کہ آنے والا وقت مائنس نواز شریف کو پلس نواز شریف اور پلس عمران خان کو مائنس کرسکتا ہے۔ ویسے پلس زرداری صاحب کی جماعت بھی ہورہی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے کئی لوگ پیپلزپارٹی میں بھی شامل ہو رہے ہیں اور جنوبی پنجاب کے کچھ رہنما پیپلزپارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ خان صاحب پرانی پی ٹی آئی کی کشتی میں اکیلے ہی رہ جائیں گے جو اَب ڈوب رہی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے چھوڑنے والے رہنماؤں نے ایک ایک کرکے اس کشتی میں سوراخ کرنا شروع کردیے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved