اچھا! تو ایسا ہوتا ہے اوٹاوا۔ 19 جولائی 2022 ء کو برادرم سیف الرحمن عثمانی کے ساتھ گھر جاتے ہوئے‘ اوٹاوا‘کینیڈا کی سڑکوں پر شہر دیکھتے ہوئے میں نے سوچا۔ایک چھوٹا‘ خاموش‘پرسکون اور متمدن شہرجس میں بڑے شہروں والا شور شرابا نہیں تھا۔ویسے بھی شام ڈھل چکی تھی اور رات بتدریج سرمئی سے سیاہ رنگ اختیار کر رہی تھی۔ شفق کی سرخ دھاریاں اور روشنیاں اس منظر کی پراسراریت اور خوبصورتی میں اضافہ کرتی جاتی تھیں۔پہلی نظر میں اوٹاوا دیکھ کر آسٹریلیا کا دارلحکومت کینبرا یاد آیا۔کیا مماثلت ہے ان دونوں میں ؟ایک منظر دیکھ کر دوسرا یاد آئے تو وجہ؟ ایک نہیں‘کئی وجوہات تھیں۔دونوں اپنے ملکوں کے دارالحکومت‘ دونوں پر سکون‘خوبصورت‘ نسبتاًـچھوٹے میدانی شہر۔ اوٹاوا لگ بھگ دس لاکھ کی آبادی کا شہر ہے۔ کینبرا ساڑھے چار لاکھ کی آبادی کا۔ چنانچہ دونوں کا پرسکون ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ کینبرا یاد آیا تو ممکن نہیں تھا کہ ذیشان حیدر یاد نہ آتا اور اس کی مہمان نوازی یاد نہ آتی۔پیار ا دوست‘عمدہ غزل گو‘ اعلیٰ سخن فہم‘ محبت کرنے والا شخص۔ ذیشان ! تم سے ایک ملاقات بھی تمہیں جاننے کیلئے کافی تھی کہ روز ملنے پہ نہیں نسبت ِعشقی موقوف۔ہنستے بستے رہو کہ تم میرے دل میں ہو۔
اوٹاوا کا مقامی تلفظ اوٹوا ہے لیکن اگر ہم یہ تلفظ لکھیں تو پتہ نہیں کوئی سمجھے یا نہ سمجھے۔اگرچہ اوٹاوا‘ صوبہ اونٹاریو ہی میں واقع ہے لیکن اس کی سرحدیں فرانسیسی نژاد صوبہ کیوبک سے ملتی ہیں۔دریائے اوٹوااور ری دیو دریا کے سنگم پر بسا ہوا شہر۔جس کی دریا کی طرح کہیں بل کھاتی‘ کہیں سیدھی سڑکیں اپنے دل کی طرف کھینچتی تھیں۔اوٹاوا کا موسم اچھا تھا یعنی معتدل قدرے گرم۔رات پر سکوت اور خواب ناک تھی۔ ایک لمبی گہری نیند میں بھی کہیں یہ احساس تھا کہ اگلی صبح ہمیں جلد از جلد مونٹریال کیلئے روانہ ہونا ہے۔ یہ ایک ان دیکھی دنیا تھی اور اسے دکھانے کا انتظام سیف بھائی نے کیا تھا۔ناشتے کے ساتھ سیاہ کافی کے ایک بڑے مگ نے جسم میں ضروری توانائی بھر دی تھی۔اوٹاوا سے مونٹریال کا فاصلہ 200کلو میٹر ہے۔اگر آپ گاڑی میں تیز چلیں‘کہیں نہ رکیں تو ڈھائی گھنٹے میں پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن حضور!تیز چلنے کی ضرورت؟ اور کہیں نہ رکنے کی وجہ؟ ساری زندگی یہ دو کام نہیں کیے تو اب اس سڑک پر بھی اپنی روایت کیوں توڑیں؟چنانچہ ہم آرام سے تین ساڑھے تین گھنٹے میں مونٹریال پہنچ گئے۔ہم جدید مونٹریال میں داخل ہوئے تو یہ ایک الگ طرح کا شہر دکھائی دیا۔خوبصورت جدید تعمیرات کے ساتھ اچھے طریقے سے محفوظ تاریخی عمارتیں بھی نظر آتی تھیں۔ ہمیں قدیم شہر میں جانا تھا۔ سیف بھائی مونٹریا ل کی اہم چیزوں سے واقف تھے۔ہمیں ایک ہی دن رکنا تھا‘ اس لیے اسی لیے انہوں نے پرانے شہراور تاریخی جگہوں کے وسطی علاقے میں ایمبیسی سوئٹس‘ ہلٹن میں آرام دہ سوئٹ بک کرو ا رکھا تھا۔مجھے بھی شاپنگ مالز‘ جدید تعمیرات سے کوئی خاص دلچسپی کبھی نہیں رہی۔ فطرت اور تاریخ ہمیشہ مجھے مبہوت کرتی ہیں۔ اور یہ جگہ ان دونوں کا سنگم تھی۔
مونٹریال کا بھی مسئلہ وہی ہے۔ اگر مقامی تلفظ کے مطابق من ٹریال لکھوں تو کوئی خاک سمجھے گا۔ سینٹ لارنس دریا اور رائل پہاڑ کے بیچ بسا ہوا ایک فرانسیسی نژاد شہر۔صوبہ کیوبک کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے کینیڈا کا دوسرا بڑا شہر۔انسانی آبادی کے آثار تو یہاں 4000 سال پہلے سے چلے آتے ہیں۔ یورپی سیاح جیکوئیس کارٹر اکتوبر 1535ء میں یہاں آیا تو اس نے یہاں پہاڑ کے دامن میں ہوچی لاگا نامی گاؤں میں لگ بھگ ایک ہزار مقامی لوگوں پر مشتمل آبادی دیکھی۔یورپین آباد کاری 1611ء میں شروع ہوئی۔امریکی جنگ انقلاب نے 1775 ء میں یہاں قبضہ جمایا۔مونٹریال امریکی فوجوں کے ہاتھ میں جانے کے بعد جنگیں جاری رہیں حتی کہ نیا دور شروع ہوا اور 1832 ء میں مونٹریال نے ایک جدید شہر کی صورت اختیار کرنی شروع کی۔
سفر چاہے تین گھنٹے کا ہو اور آرام دہ بھی ہو‘کچھ نفسیاتی بات ہے کہ ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچنے کا خیال تھکا ہی دیتا ہے۔اس دن اچھی بات یہ تھی کہ ہمارے پاس تھوڑے سے آرام کے بعد بھی دن کا بڑا حصہ بچتا تھاجس میں ہم کچھ جگہیں دیکھ سکتے تھے۔سو ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد پیدل نکلے اور پہلے اس مشہور و معروف تاریخی عمارت کا رخ کیا جس کی پرشکوہ تعمیر کے بارے میں پڑھتا اور سنتا آیا تھا اور جسے دیکھنے کا شوق ایک مدت سے تھا۔نوٹرے ڈیم باسیلیکا(Notre-Dam Basilica)اپنے طرز تعمیر اور غیر معمولی شکوہ کے لیے دنیا بھر میں معروف ہے۔ باسیلیکاکا لفظ بہت سی عیسائی رومن عمارات کیلئے دنیا بھر میں استعمال ہوتا ہے۔ دراصل باسیلیکا مستطیل شکل کی اور دیگر خاص تعمیری انداز کی ایسی عمارت کو کہتے تھے جو عوامی اجتماعات‘ عبادت گاہ‘ درباراور فیصلہ ساز مجلسوں وغیرہ کیلئیاستعمال ہوتی ہو۔کلیسا کی حیثیت بنیادی تھی۔ گویا اس میں عوام کیلئے داخلہ ممنوع نہیں تھا ورنہ بہت سے کلیسا اور محل عوام کے لیے نہیں ہوا کرتے تھے۔ہم ایمبیسی سوئٹس سے پیدل نکلے‘دائیں طرف کا رُخ کیا‘ایک دو چوک عبور کیے تو دائیں ہاتھ ایک چھوٹی سڑک پر مڑتے ہی یہ عظیم الشان گرجا ایک فرلانگ دور ہمارے سامنے تھا۔ہم اونچائی پر تھے اور سامنے سڑک تھوڑے سے نشیب میں اترتی تھی۔آگے سڑک ہموار ہوکر ایک کھلے‘ بڑے احاطے کے پہلو سے گزررہی تھی۔احاطے کے وسط میں ایک گول فوارہ نماتعمیر میں ایک چھوٹا مینارتھا جس کی چوٹی پر اور نیچے دائیں بائیں آہنی یا شاید سنگی مجسمے تھے۔ اس کے عین سامنے نوٹرے ڈیم تھا۔ سرمئی خاکستری پتھروں سے بنی ہوئی ایک بڑی عمارت جس کے دائیں بائیں دو برج شطرنج کے فیل کی یاد دلاتے تھے۔ہمیں نوٹرے ڈیم دراصل اگلے دن آنا تھا۔اس وقت تو اس کے نزدیک ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم ایک جھلک دیکھنے کیلئے نکل آئے تھے اور یہ ایک جھلک بھی مبہوت کن تھی۔سوچا تھا کہ کل کوئی وجہ پیش آجائے اور نہ دیکھ سکیں تو یہ تشنگی تو نہیں رہے گی کہ نوٹرے ڈیم کی ایک جھلک بھی نہ دیکھ سکے۔
ہم مڑے‘گاڑی میں بیٹھے اور قدیم بندرگاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ بندرگاہ کے لفظ سے یہ مغالطہ نہ ہوجائے کہ یہ سمندری بندرگاہ ہے۔ یہ دراصل دریائے سینٹ لارنس کی بندرگاہ ہے‘جو ایک کھلا اور بڑا دریا ہے اور مونٹریال کیلئے اہم تجارتی رہ گزر بھی۔ہم اولڈپورٹ‘مونٹریال کے قریب پہنچے تو ہوا میں نمی اور پانی کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔یہ جگہ بھی سیاحوں کی دلچسپی کا بڑا مرکز ہے‘اور ہمیں بھی پارکنگ بندر گاہ سے کچھ فاصلے پر مل سکی۔رنگ رنگ سبزے اور تازہ ہوا کی سنگت میں مونٹریال اولڈ پورٹ ایک خواب جیسی لگتی ہے۔20 جولائی 22 کو میں بندرگاہ کی چوبی ریلنگ پر ہاتھ ٹیکے دریا کودیکھتا تھا۔ سامنے تا حدِ نظر دریا تھااور وہ بساند ہوا میں نہیں تھی جو بندرگاہوں میں سمندری پانی کے ساتھ مخصوص ہے۔دائیں طرف قدیم بندرگاہ کا آہنی پل تھا۔میری چشم تصور نے یہاں بڑی بادبانی کشتیاں لنگر انداز دیکھیں جوچین‘ ہندوستان اور سراندیپ سے گرم مصالحے‘ خوشبویات‘ریشم اوردار چینی لے کر آئی تھیں۔ ٹہنیوں اور بٹی ہوئی رسی کے بڑے بڑے ٹوکرے ماہی گیراپنی کشتیوں سے اتارتے تھے۔کچھ ملاحوں کے چہرے اترے ہوئے تھے کہ انہیں شکار نہیں مل سکا تھا۔مچھلیوں کے ساتھ اجناس کی بوریاں ڈھیر کی صورت میں چوبی پلیٹ فارم پر پڑی تھیں۔کوتوال شہر کے کچھ لوگ ٹیکس وصول کرنے بیٹھے تھے۔کچھ تھکے ماندے مسافر ڈولتی کشتیوں سے انہی لکڑی کے ہلتے تختوں پر قدم دھرتے تھے اوران کی آنکھیں اپنے عزیزوں کو ڈھونڈتی تھیں۔ میں ریلنگ پر ٹیک لگائے‘ صدیوں بعد کا ایک مسافر یہاں پہنچا تھاتو یہ کوئی اہم بات نہیں تھی۔مونٹریال کی قدیم بندرگاہ نے بہت سے مسافر دیکھے تھے۔میںزمانوں بعد کا وہ مسافر تھا جس کا استقبال کرنے والا دریا‘سبزے‘ تازہ ہوا اور خوشبو کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved