چند روز قبل ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی صدارتی انتخابات میں دوبارہ کامیابی اس بات کی علامت نظر آئی کہ ترکیہ مغرب کے نفسیاتی سحر سے نکل کر ایک بار پھر خود مختار مسلم ریاست کے طور پر ابھر رہا ہے۔ طیب اردوان کی انتخابی مہم پہ ایسی نظریاتی کشمکش چھائی رہی جس میں مسلم اقدار اور سیکولر قوم پرستی کے مابین مقابلے کی فضا ہویدا تھی۔ ان کے حریف کمال قلیچ دار اوغلو نے اپنی انتخابی مہم کی ابتدا روس سے قطع تعلق کرکے ترکیہ کو دوبارہ یورپ کی سیکولر اقدار سے جوڑنے کے روایتی نعروں سے کی جبکہ طیب اردوان نے الیکشن مہم کا آغاز ترکیہ کے پہلے جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم عدنان مندریس کے مزار پر حاضری دے کر کی۔ واضح رہے کہ عدنان مندریس کو مغربی قوتوں کی ایما پر 1961ء میں بغاوت کے بعد پھانسی دے دی گئی تھی۔
ان انتخابی مہمات کے دوران مغربی میڈیا نے ترکیہ کی دگرگوں معاشی صورت حال اور فروری میں آنے والے تباہ کن زلزلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو نمایاں کرکے تمام سرویز میں کمال اوغلو کی برتری دکھا کر انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی لیکن اس سب کے باوجود اردوان نے پہلے مرحلے میں 49.5 فیصد ووٹ لے کراپنے مخالفین پہ واضح برتری حاصل کر لی۔ ان کے سیاسی حریف اوغلو نے 45 فیصد اور ترک نیشنلسٹ پارٹی نے محض 5.7 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اس کے بعد رن آف الیکشن کا مرحلہ پیش آیا جس میں صرف دو ہی امیدوار ہوتے ہیں۔ اس مرحلے میں طیب اردوان نے 52 فیصد ووٹ لے کر اپنے ناقابلِ تسخیر ہونے کا تاثر برقرار رکھا۔ گویا انتخابات کے دوران مغربی ممالک کی ان کے خلاف میڈیا مہم نے ترکیہ کے قدامت پسند ووٹروں کو ان کی طرف مائل کر دیا۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ میری قوم اس سازش ناکام بنا دے گی۔ جمہوریت کے نام نہاد علمبردار مغربی ممالک نے مسلم دنیا میں ہمیشہ آمریتوں کی حوصلہ افزائی میں اپنا مفاد تلاش کیا ہے اور عوامی حمایت سے برسرِاقتدار آنے والے مقبول رہنمائوں کی ساکھ کو متنازع بنا کر مسلم معاشروں میں جمہوریت کی راہ میں کانٹے بچھانے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کیا۔
اردوان جب پہلی بار 2003ء میں ترکیہ کے وزیر اعظم کے طور پر برسراقتدار آئے تھے تو انہوں نے ترکی کو یورپ کے نفسیاتی تسلط سے نکال کر سلطنت عثمانیہ کی پُر شکوہ روایات سے جوڑنے کی خاطر آئینی تبدیلیوں کے ذریعے ریاستی ڈھانچے کو مستحکم، عدلیہ اور میڈیا سمیت ملک کے جمہوری اداروں کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اُن کی انہی کوششوں کی بدولت ترکیہ کو دنیا کے 10 خود مختار ممالک میں سے ایک ہونے کا اعزاز ملا۔ بلاشبہ اردوان کی فتح کے اثرات صرف ترکیہ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس کے بین الاقوامی اثرات ہوں گے، خاص طور پر نیٹو پر‘ جہاں اتحاد کے دیگر اراکین کے برعکس ترکیہ روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کے لیے یورپ سے دور ہو رہا ہے۔ 2017ء میں انقرہ نے ماسکو سے S-400 میزائل شکن دفاعی نظام خریدا تھا۔ ترکیہ نے اپنا پہلا جوہری ری ایکٹر بنانے کے لیے بھی روس کا انتخاب کیا تھا اورجب یوکرین پر حملے کے بعد نیٹو ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کیں تو ترکیہ نے ماسکو کے ساتھ باہمی تعلقات بڑھا دیے۔
مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق طیب اردوان نے ترکیہ کو قابلِ قدر سفارتی ثالث کے طور پر منوا کر روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات پر زور دیا، جیسے گزشتہ سال انہوں نے متحارب ممالک کے مابین اناج کی برآمد کے معاہدے میں مدد کی؛ تاہم صدر اردوان اپنی آخری مدت کی وضاحت کس طرح کرتے ہیں‘ یہ اور دیگر بہت سے معاملات اس امر پر منحصر ہوگا کہ مغرب ان کی فتح پر کس قسم کے ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ طیب اردوان اب ناقابلِ تسخیر سیاسی قوت بن کر ابھرے ہیں۔ انہوں نے جدید جمہوریہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے بعدکسی بھی رہنما سے زیادہ اپنے ملک کی تشکیلِ نو میں حصہ ڈالا ہے۔ کئی بحرانوں سے دوچار ہونے کے باوجود وہ 2023ء کی صدارتی دوڑ کے پہلے راؤنڈ میں بھی سرفہرست رہے اور پھر یہ معرکہ جیتنے میں بھی کامیاب ہوئے۔
طیب اردوان اپنی آزاد پالیسیوں کی وجہ سے برسوں سے مغرب کی نظروں میں معتوب ہیں۔ 2016ء میں بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے کے بعد انہوں نے اپنی صدارت کو پہلے سے زیادہ طاقتور ایگزیکٹو میں تبدیل کیا۔ 2003ء سے بطور وزیر اعظم اور پھر 2014ء سے براہ راست منتخب صدر کے طور پر، علاقائی طاقت کے طور پر ترکیہ کی فوجی و اقتصادی قوت کو مربوط بنانے اور مغرب کی تہذیبی بالادستی کے مقابلے میں اسلامی مقاصد کی حمایت کے علاوہ ترکیہ کی آزاد سفارت کاری جیسے ان کے اقدامات نے یورپ اور اس سے باہر کے مغربی اتحادیوں کو پریشان کر دیا۔ صدر اردوان نے اپنی انتخابی کامیابی کے بعد اعلان کیا کہ ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد افراد پہ مشتمل قوم کی حیثیت سے ہم اپنے ووٹ، اپنے راستے اور اپنے مستقبل کا تعین خود کریں گے۔
طیب اردوان فروری 1954ء میں بحیرۂ اسود کے ساحل پر ایک کوسٹ گارڈ کے گھر پیدا ہوئے‘ جب وہ 13 سال کے تھے تو ان کے والد نے اپنے پانچ بچوں کے بہترمستقبل کی خاطر استنبول منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ نوجوان اردوان نے اضافی رقم کمانے کے لیے لیموں کا رَس بیچنے کے ساتھ استنبول کی مارمارا یونیورسٹی سے مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کی، علاوہ ازیں ایک مدرسے میں دینی تعلیم بھی حاصل کی۔ اردوان کے حامی ان کی دلیرانہ روش اور روایتی مسلم اقدار کے دفاع کی عادت کو پسند کرتے ہیں۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں وہ اربکان کی حامی اسلامک ویلفیئر پارٹی میں شامل ہوئے۔ 1990ء کی دہائی میں جب پارٹی کو مقبولیت حاصل ہوئی تو طیب اردوان استنبول کے میئر منتخب ہوگئے؛ تاہم ان کی میئرشپ اس وقت چھن گئی جب ایک عوامی جلسے میں ایک نظم پڑھنے کے جرم میں انہیں سزا سنائی گئی جس میں یہ اشعار بھی شامل تھے ''مساجد ہماری بیرکیں، گنبد ہمارے ہیلمٹ، مینار ہمارے نیزے اور وفادار ہمارے سپاہی‘‘۔ بعد ازاں ترک ریاست کے سخت سیکولر اصولوں کی خلاف ورزی کے الزام میں ان کی جماعت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اگست 2001ء میں انہوں نے عبداللہ گل کے ساتھ مل کر نئی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 2002ء میں ان کی جماعت نے پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل کی تو طیب اردوان وزیر اعظم بن گئے۔ انہوں نے وزیراعظم کے طور پر تین مدتیں مکمل کیں اور مستحکم اقتصادی ترقی اور ریفارمر کے طور پر بین الاقوامی شہرت پائی۔ ان کے دور میں متوسط طبقہ پھلا پھولا اور لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے اوپر اٹھ آئے۔ طیب اردوان نے ترکیہ کو جدید بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں کو ترجیح دی لیکن امریکہ و یورپی ممالک انہیں جمہوریت پسند سے زیادہ سلطنت عثمانیہ کے سلطان کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اپنے ایک عشرے کے اقتدار کے بعد طیب اردوان نے سرکاری ڈیوٹی کے دوران خواتین کے سکارف پہننے پر عائد پابندی ختم کی جو 1980ء کی فوجی بغاوت کے بعد لگائی گئی تھی۔ جب انہوں نے پولیس، فوج اور عدلیہ میں خواتین کو سکارف پہننے کی اجازت دی تو یورپی ناقدین نے اس اقدام کو مصطفی کمال کی سیکولر جمہوریہ کے ستونوں کو گرانے سے تعبیر کیا؛ تاہم خود مذہبی ہونے کے باوجودطیب اردوان نے ہمیشہ اسلامی اقدار کو جبراً مسلط کرنے کی خواہش سے انکار کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ صرف ترکوں کے اپنے مذہب کے زیادہ کھلے اظہار کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ چار بچوں کے باپ کے طور پر انہوں نے کہا کہ کسی مسلم خاندان کو ضبطِ ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی پر غور نہیں کرنا چاہیے، ہم اپنی اولادوں کو بڑھائیں گے۔ آزادیٔ نسواں کے مغربی تصورکی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فطرت نے مردوں اور عورتوں کا دائرۂ کار مختلف بنایا ہے، اس لیے انہیں یکساں بنانا فطرت کے خلاف جنگ کے مترادف ہو گا۔ صدر اردوان مصر کی اخوان المسلمین تحریک کو بھی سراہتے ہیں۔ جولائی 2020ء میں انہوں نے استنبول کی تاریخی آیاصوفیہ مسجد کو بحال کیا جس سے یورپ کے عیسائی ناراض ہو گئے۔ 1500 سال قبل تعمیر کی گئی اس عبادت گاہ کو عثمانی دور میں مسجد بنایا گیا تھا لیکن اتاترک نے مغربی قوتوں کی خوشنودی کی خاطر اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا۔
اپنی صدارت کے اوائل میں ان کے اقتدار کو دو بڑے جھٹکے بھی لگے۔ ان کی پارٹی 2015ء کے الیکشن میں پارلیمنٹ میں اکثریت کھو بیٹھی تھی اور پھر چند مہینوں بعد 2016ء میں‘ ترکیہ نے پہلی پُرتشدد بغاوت کا مشاہدہ کیا گیا؛ تاہم اردوان کے حامیوں نے فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ بغاوت کی سازش کے الزام میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ سرکاری ملازمین کو برطرف اور پچاس ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ انہوں نے 2017ء کے ریفرنڈم میں بڑی آسانی سے کامیابی حاصل کرکے بڑے پیمانے پر اختیارات حاصل کرلیے جن میں ہنگامی حالت نافذ کرنے اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی تقرری کے ساتھ سیکولر نظام میں اصلاحات کا اختیار بھی شامل تھا۔ اب 2023ء کا صدارتی الیکشن جیت کر انہوں نے ایک بار پھر اپنی اکثریت اور مقبولیت ثابت کر دی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved