تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     04-06-2023

ڈالر ایمنسٹی اور زرمبادلہ کے ذخائر

بالآخر سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔ اس وقت سیاسی میدان میں اسی خبر کی گونج سب سے زیادہ ہے مگر سیاست کے ان جھمیلوں میں ملکی معیشت کی سمت کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا۔ حکومت آئی ایم ایف سے ڈیل کرنے، ڈالر کو نیچے لانے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے نئے نئے طریقے استعمال کر رہی ہے لیکن ان کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔
آئی ایم ایف کے حوالے سے وزیراعظم، وزیر خزانہ اور وزیر مملکت برائے خزانہ مختلف بیانات دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک دن وزیراعظم آئی ایم ایف چیف سے سٹاف لیول معاہدہ کرنے کی درخواست کرتے ہیں اور دوسرے دن وزیر خزانہ صاحب اپنے انٹرویو میں کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان کو معیشت چلانے اور بجٹ پیش کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے بغیر بھی ملک چلایا جا سکتا ہے تو پھر وزیراعظم صاحب کو آئی ایم ایف چیف سے بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس باب کو فی الحال بند ہی رہنے دیا جاتا تو بہتر تھا۔ جب وزیر مملکت سے اس بارے پوچھا گیا تو پہلے انہوں نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہوا تو ہمارے پاس پلان بی ہے مگر اگلے دن ہی انہوں نے بیان دیا کہ آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی پلان بی نہیں ہے۔ دوسری جانب سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی کہا ہے کہ پلان بی کی باتیں کرنے والے غلط بیانی کر رہے ہیں‘ آئی ایم ایف کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومتی عہدیداروں کو بھی علم نہیں کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور بجٹ کس طرح کا ہو گا۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے جب وزیر مملکت سے بجٹ کا ڈرافٹ مانگا تو انہوں نے یہ کہہ کر ڈرافٹ دینے سے انکار کر دیا کہ وزیراعظم صاحب کی مختلف سٹیک ہولڈرز سے ابھی مشاورت چل رہی ہے جبکہ کمیٹی نے اعتراض اٹھایا کہ بجٹ اگر آئی ایم ایف کو بھیجا جا سکتا ہے تو قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں بھی پیش کیا جانا چاہیے۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وزارتِ خزانہ کا زیادہ زور ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کے بے دریغ استعمال کو روکنے پر ہے۔ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں فرق کو کم کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈز اور آن لائن ادائیگیوں کو منی ایکسچینجرز کے بجائے بینکوں کے حوالے کر دیا گیا۔ پہلے دن اس کے بہتر نتائج سامنے آئے۔ ڈالر کا ریٹ پہلے بیس روپے نیچے گرا اور یکم جون کے اختتام پر نو روپے بڑھ گیا۔ 2 جون کو اوپن مارکیٹ میں ریٹ تو کم بتایا جا رہا تھا لیکن ڈالر مل نہیں رہا تھا اور جہاں ڈالر مل رہا تھا وہاں ریٹ دوبارہ 310 روپے تک پہنچ چکا تھا۔ ابھی تک کے نتائج کے مطابق اس فیصلے سے مطلوبہ معاشی نتائج حاصل نہیں ہو سکے؛ البتہ منی ایکسچینجرز کا کاروبار تقریباً 80 فیصد تک بند ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ کریڈٹ کارڈز کی ادائیگیاں ہی ان کا سب سے بڑا کاروبار تھا جو 2006ء سے چل رہا ہے۔ البتہ اس فیصلے کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ وزیر خزانہ کو دھواں دار تقریرکرنے کا ایک موقع مل گیا، ساتھ ہی حکومت کو بھی کچھ سانس آیا کہ معیشت بحال ہو رہی ہے، حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔
اس وقت یہ بھی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ حکومت ڈالر ایمنسٹی سکیم لانے پر غور کر رہی ہے۔ گو کہ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اس کے حق میں نہیں ہے لیکن وزیر خزانہ اس پر بضد ہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ڈالر ایمنسٹی سکیم لائی گئی تو اس سے ڈالر ذخائر میں اضافہ ہو سکے گا یا نہیں اور کیا آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف اس کی اجازت دیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ادارے ڈالر ایمنسٹی سکیم کی اجازت نہیں دیں گے۔معلوم نہیں کہ ڈالر ایمنسٹی سکیم لانے کا حتمی فیصلہ کیا جا چکا ہے یا نہیں‘ لیکن اگر یہ سکیم لانے کا پختہ ارادہ کر لیا گیا ہے تو اس حوالے سے کچھ اہم معاملات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ عوام ڈالرز اسی صورت میں سرکار کو جمع کرائیں گے جب انہیں گرے مارکیٹ سے زیادہ ریٹ مل رہا ہو گا۔ اگر انٹربینک اور گرے مارکیٹ کے درمیان فرق زیادہ ہو گا تو عوام سرکار کو دینے کے بجائے ڈالرز گرے مارکیٹ میں بیچنے کو ترجیح دیں گے۔ اس کے علاوہ ڈالرز جمع کرانے والوں کو حکومت بانڈز بھی جاری کر سکتی ہے جس پر منافع کی شرح عام مارکیٹ سے زیادہ ہو اور وہ جب چاہیں ڈالرز کی جگہ کیش لے سکتے ہوں۔ میں ذاتی طور پر ایمنسٹی سکیموں کے خلاف ہوں کیونکہ یہ جائز اور قانونی طریقے سے کمائی کرنے والوں کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کی مظہر ہوتی ہیں لیکن موجودہ مشکل معاشی صورتحال میں ملک کو ڈالرز کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اس سے وقتی طور پر معیشت سنبھل سکتی ہے تو اس سکیم میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
سرکار کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 26 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے میں زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 9 ارب 51 کروڑ ڈالر تھے۔ سٹیٹ بینک کے پاس 4 ارب 9 کروڑ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 42 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ ذخائر تھے۔ زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو کم کرنے کے لیے حکومت نے ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ممالک سے پاکستان کی درآمدات برآمدات سے زیادہ ہیں لہٰذا اتنے ڈالرز آتے نہیں جتنے ملک سے نکل جاتے ہیں۔ اس میں تمام ٹیکسز اورڈیوٹیاں عام تجارت کی طرح لاگو ہوں گی۔ اگر یہ ماڈل کامیاب رہا تو دیگر ممالک سے بھی یہ ڈیل کی جا سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر تجارت غیر رسمی طریقے سے کافی عرصے سے ہو رہی تھی؛ تاہم اس کا حجم زیادہ نہیں تھا اور اب محض اسے ایک قانونی شکل دے دی گئی ہے۔اس منصوبے پر تین سال سے کام ہو رہا تھا اور اب جا کر اسے حتمی شکل دی گئی ہے۔ اس سے پہلے سٹیٹ بینک نے افغان سرحد پر چمن اور طورخم پر کاؤنٹر بنائے تھے تاکہ جو باہمی لین دین ہو رہا تھا اس کی مانیٹرنگ کرے تاہم بارٹر ٹریڈ کے بعد اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ اس میں روپے یا ڈالر کا لین دین نہیں ہے۔ اگر چین کے ساتھ اس طرح کا معاہدہ ہو جائے تو بہت بہتر ہو گا لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اپنی برآمدات بڑھائے۔ اس وقت حکومت برآمدات بڑھانے کے بجائے ڈالرز بچانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ شاید وہ سمجھتی ہے کہ برآمدات بڑھانا ابھی ممکن نہیں‘ اس لیے ڈالرز بچائے جائیں۔ شاید ہمارے پالیسی ساز درآمدات پر معیشت چلانے کے ماہر ہیں نہ کہ برآمدات پر۔
عالمی بینکوں کے رویے اور زرمبادلہ کی کمی کے پیش نظرایک نئی پالیسی تیار کی گئی ہے جس کے تحت اب زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ میں کمی ہو سکتی ہے اور اب ملکی کرنسی میں بھی پٹرولیم مصنوعات خریدی جاسکیں گی۔ غیر ملکی آئل سپلائرز شیڈولڈ بینکوں میں ایل سی کھلنے پر پٹرولیم مصنوعات ریلیز کر سکیں گے۔ عالمی مارکیٹ سے پٹرولیم مصنوعات خریدنے کے لیے ایل سیز کی غیرملکی بینکس کی کنفرمیشن کے بعد پروڈکٹ ریلیز ہوتی تھی۔ بانڈڈ سٹوریج کی سہولت سے پاکستان کی سٹریٹیجک آئل سٹوریج ممکن ہوجائے گی۔ اس سے پہلے پاکستان میں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سٹریٹیجک آئل سٹوریج موجود نہیں تھی۔ اس سے ریفائنریوں اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں سستے دام پر تیل مل سکے گا۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور ریفائنریاں پاکستانی پورٹس پر خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات خرید سکیں گی۔ یہ منصوبہ خوش آئند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ بچت ہو سکے گی یا نہیں اور کیا عوام کو اس کا فائدہ مل سکے گا یا دیگر بہت سی کارآمد سکیموں کی طرح اس سکیم سے بھی مخصوص مافیا ہی مستفید ہو گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved