ہم خوابوں کے باسی‘ ایسی ہی دنیا پسند کرتے ہیں۔ خواب خاکے ہوتے ہیں‘ جن میں رنگ بھرنے کے لیے رہنمائی میسر ہو‘ کچھ مثالیں سامنے ہوں‘ ماحول مہذب ہو تو پچپن سے ہی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ ہم دوسروں کی ترقی‘ خوشحالی‘ عزت و اکرام‘ حیثیت اور مقام سے اثر لیتے ہیں۔ گھر کے بڑے اور سکولوں کے اساتذہ مشاہیر اور کامیاب لوگوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ قصے کہانیاں اور کسی کی داستانِ حیات یا پھر کوئی افسانہ اور ناول کا کردارہمیں موجود سے اٹھا کر کسی انجانی کیفیت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ میں نے خود نویں یا دسویں جماعت میں ڈیل کارینگی کی کتاب ''پریشان ہونا چھوڑیئے‘ جینا شروع کیجیے‘‘ جو پروفیسر شاہد حمید صاحب نے ترجمہ کی تھی‘ سے بہت اثر لیا تھا۔ اپنے نصاب سے ہٹ کر کچھ کہانیوں کی کتابیں اور نسیم حجازی صاحب کے دو چار ناولوں کے بعد یہ تشکیلِ ذات کے بارے میں پہلی کتاب تھی۔ یہ اور بات ہے کہ تقریباً ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی نہ ہم نے پریشان ہونا موقوف کیا ہے‘ نہ جینا شروع کرسکے۔ جب تک طرزِ زندگی کو مکمل طور پر کسی خاص اسلوب اور قالب میں سیسے کی طرح ڈھال نہ لیں‘ کسی کا اثر اتنا دیر پا نہیں رہتا۔ اس لیے تو ہمارے خواب بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ کامیاب لوگ صرف وہی ہوتے ہیں جو کسی ایک خواب کو اپنی منزل بنا کر اس کے سفر کا پہلے دن سے ہی آغاز کر دیتے ہیں۔ خواب دیکھنے سے آپ کہیں خیالی پلائو پکانے کی طرف نہ نکل جائیں۔ خواب ایک اچھے مستقبل کی تمنا ہے‘ خود کے لیے اور دوسروں کے لیے شخصی طور پر تو یہ کسی کی ذات تک محدود ہے کہ ہم انفرادی صلاحیتوں کو اجلا کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ زندہ معاشروں میں سکولوں‘ کالجوں اوریونیورسٹیوں میں مسابقت کا عمل بہتر کارکردگی اور میلانِ طبع کے مطابق کچھ بننے کی تڑپ برقی قمقموں کی مانند تاباں کردیتا ہے۔
زندہ معاشروں کی ایک اور بات نے ہمیشہ میری روح کو مسحور رکھا‘ وہ سب کے لیے تعلیم اور ترقی کے دروازے کھلے رکھنے کی روایت ہے۔ کسبِ کمال کا اعتراف ا ور خود پرداختہ افراد کا مقام ہے۔ جس طبقے کے پاس وسائل ہوتے ہیں اور معاشرے میں اعلیٰ عزت اور مقام حاصل ہوتا ہے وہاں کامیابی حاصل کرنا اگرچہ ذاتی کاوشوں کے بغیر ناممکن ہے لیکن سفر آسان ہوتا ہے۔ غربت‘ ناداری‘ نسلی امتیاز‘ بکھرے خاندانوں اور پرتشدد محلوں سے اٹھ کر ہر کوئی آگے نکل جائے تو اس کا کریڈٹ معاشرے اور سیاسی نظام کو جاتا ہے۔ امریکہ کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہاں آپ اپنے خواب پورے کرسکتے ہیں۔ مطلب اوباشوں والی من مانی نہیں‘ اپنا کیریئر بنانا اور کچھ کردکھانا ہوتا ہے۔ یہ رجحان اس وقت شروع ہوا جب سولہویں صدی کے آخری عشرے میں امریکہ دریافت ہوا۔ خیر اس بر اعظم کو بسانے کی کہانی کوئی اتنی خوشگوار بھی نہیں کہ ظلم‘ بربریت اور نسل کُشی کی جو داستانیں یورپی آباد کاروں نے وہاں رقم کیں‘ وہ دل دہلا دینے والی ہیں۔ وہ نعرہ آج بھی دنیا کے ہر کونے میں لوگوں کے دلوں کو گرماتا ہے کہ وہاں کامیابی آپ کا انتظار کررہی ہے‘ بس وہاں پہنچنے کی دیر ہے۔ نیویارک‘ شکاگو یا کسی اور شہر میں اترتے ہی ڈالر جنگلی بیریوں کی طرح ہر درخت کے ساتھ لٹک رہے ہوں گے۔ آپ کو صرف یہ زحمت کرنی ہے کہ اُتار کر جیبوں کو بھرنا شروع کردیں۔ اس وقت بھی تقریباً ساٹھ ہزار افراد امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر پڑے اندر جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ افغانوں کو دیکھا تھا کہ امریکی جہازوں پر سوار ہونے کے لیے سب آداب اور حمیت بھول گئے۔ ہمارے اپنے ملک سے کتنے سو‘ ہو سکتا ہے کہ ہزاروں‘ مغربی دنیا کے خواب میں کسی دشت کی وسعت یا سمندر کی گہرائی میں کھو چکے ہوں۔
آپ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کا اپنے ساتھ کچھ موازنہ کریں تو بات سمجھنا مشکل نہیں۔ اعتراض بجاہے کہ مغرب کو اس مقام تک پہنچنے میں سینکڑوں سال لگے ہیں‘ مگر ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو ہمارے ساتھ آزاد ہوئے تھے ؟ 1990ء میں ہماری اور ہمارے ایک بڑے ہمسایہ ملک کی فی کس آمدنی برابر تھی۔ کئی میدانوں میں ہم مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے تھے‘ آج وہاں کی فی کس آمدنی ہم سے پچاس فیصد زیادہ ہے۔ ہماری کرنسی ان کے مقابلے میں اب ایک تہائی ہے۔ کوئی تو آخر ذمہ دار ہے ہمارے اجتماعی زوال کا۔ یا ہم اس کا تعین کیے بغیر ہی اسے قسمت سمجھ کر زندگی گزار رہے ہیں ؟تقدیر کے قاضی کا فیصلہ تو آپ کو معلوم ہے کہ جب تک ہم اپنی قسمت خود نہیں بدلیں گے‘ ہم نسل در نسل لوٹ مار کا شکارہوتے رہیں گے۔ مغرب اور اب مشرق نے بھی یہ راز پالیا ہے کہ عوام یعنی عام لوگ ہی بااختیار ہوں گے اور یہ ان کی صوابدید پر ہو گا کہ حکومت کون اورکتنے عرصے کے لیے قائم کرے گا۔ مدت کا تعین ضروری ہے تاکہ حکومت بنانے والوں کا احتساب ہوسکے‘ عوام اگر حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوں گے تو متبادل قیادت کو اقتدار سونپ دیں گے۔ زندہ معاشروں کی بات اس لیے کی ہے کہ وہ جمہوری اصولوں کو تسلیم کرکے نئی قیادت کی راہیں ہموار کرتے رہتے ہیں۔ چار یا پانچ سال کے عرصے کی حکومت کا حساب کتاب اگلے انتخابات میں ہوجاتا ہے۔ فطرت کا یہی اصول ہے۔ جدید انسانی معاشروں میں ظلِ سبحانیوں کی گنجائش نہیں۔ یہ سند نہ پہلے کسی کے پاس تھی نہ اب ہوسکتی ہے۔ یہ کھیل شخصی طاقت کے بل بوتے پر ہی کھیلا جاسکتا ہے جو اب جمہوری ممالک میں تو ایک مذاق سمجھا جاتا ہے۔
ہم نے ہر نوع کے نظاموں کو آزما لیا ہے۔ ایک کو تو چار دفعہ کھلے عام ا ورپردوں میں نہ جانے کب سے‘ کہ ہم گنتی میں بہت کمزور ہیں۔ آج کے مغربی دانشور صحافیوں کی رائے بھی ہمارے صاحبانِ ِعقل سے مختلف نہیں کہ ہم کئی کشمکشوں کا شکارہیں جو ہمیں بار بار بحرانوں میں دھکیل رہی ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ حقِ اقتدار کا تعین اور آئین کی بالادستی ہے۔ باتیں جو اس بارے میں سیاسی گماشتے کرتے رہتے ہیں‘ حقیقت اس کے برعکس ہیں۔ اور پھر جھوٹ کو پائوں مہیا کرنے والوں کی بھی اس ملک میں کمی نہیں۔ ہم تو اس ذمہ داری کا تعین کرنے کیلئے پردہ داری سے کام لیتے ہیں‘ اشارے سے بات تو آپ سمجھ ہی جاتے ہیں اور گر کوئی شک رہ جائے تو گزشتہ ہفتے کا برطانیہ سے شائع ہونے والا اکانومسٹ پڑھ کر دیکھ لیں۔
جمود‘ کرپشن‘ بدانتظامی اور سیاسی استحصال زدہ معاشروں میں کوئی خواب نہیں دیکھ سکتا۔ یہ حق غالب حکمران طبقوں کے لیے محفوظ ہے اور وہ نسل در نسل اسے قائم رکھنے کے لیے ہمارے قومی وسائل کا سہارا لیتے ہیں۔ دیکھا نہیں کہ تیسری ابھرنے والی قوت کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کون کررہا ہے یا کرا رہا ہے‘ مگر کوئی حیرانی نہیں۔ ہر محب ِوطن اور پُرخلوص اور بیرونی طاقتیں اور دانشور بیک زبان ہیں۔فطری جمہوری عمل کو آگے بڑھنے دیں‘ عوام کاخود غلطی کرنے کا حق تسلیم کریں‘ بجائے اس کے آپ کریں۔ وہ اپنا راستہ ٹھوکریں کھا کر خود بنا لیں گے۔ انہیں خواب دیکھنے دیں۔ وہ خود سیکھ لیں گے۔ بہت نسخے آزمائے جا چکے‘ مزید کی گنجائش نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved