تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-06-2023

ایک تجزیاتی رپورٹ

بریگیڈیئر زیڈ اے خان اپنی کتاب The way it was میں لکھتے ہیں کہ اگست 1965ء میں وہ پاکستان کے چند فوجی افسران کے ہمراہ سٹاف کورس کے لیے امریکہ جا رہے تھے‘ امریکہ پہنچنے کے بعد ایک طیارے میں امریکی فوجی مرکز فورٹ ناکس (Fort knox) کے لیے جب جہاز نے ٹیک آف کیا تو کچھ ہی منٹ بعد ایک ایئر ہوسٹس نے ان افسران کو آ کر کہا کہ اس پرواز میں امریکہ کے ایک سینیٹر بھی سفر کر رہے ہیں اور انہوں نے درخواست کی ہے کہ اگر آپ ان کے ساتھ کافی پینے کیلئے ان کے سپیشل کیبن میں آ جائیں تو انہیں بہت خوشی ہو گی۔ یہ پیغام سننے کے بعد تمام آفیسرز (جن میں کرنل پیرزادہ اور بریگیڈیئر ظاہر عالم بھی شامل تھے) ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے اور پھر فیصلہ کیا گیا کہ سینیٹر صاحب سے ملنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کافی پیتے ہوئے امریکی سینیٹر نے ان افسران کو یہ بتا کر ششدر کر دیا کہ محض پانچ‘ سات سال میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر ایک الگ ملک بن جائے گا۔ جذبۂ حب الوطنی سے سرشار یہ افسران‘ جو اس وقت میجر رینک میں تھے‘ جوش و خروش سے دلائل دینا شروع ہو گئے کہ ایسا نہیں ہو سکتا، اگر کسی نے ایسی کوئی کوشش کی بھی تو اسے ناکام بنا دیا جائے گا۔
پاک فوج میں عالم خاندان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ نو بھائی تھے اور تمام کے تمام بھائی افواجِ پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ خاندان افواجِ پاکستان کے تینوں شعبوں‘ بری، بحری اور فضائی سے وابستہ رہا۔ ایک بھائی نے 1967ء کے ایک معرکے میں اور ایک بھائی نے 1971ء کی جنگ میں جامِ شہادت نوش کیا۔ سبھی بھائی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل شمیم عالم خان، وائس ایڈمرل شمعون عالم خان، لیفٹیننٹ جنرل جاوید عالم خان، بریگیڈیئر ظاہر عالم خان، کرنل فیروز عالم خان، سکواڈرن لیڈر شعیب عالم خان، ونگ کمانڈر آفتاب عالم خان، فلائٹ آفیسر مشتاق عالم خان اور کیپٹن اعجاز عالم خان۔ بریگیڈیئر زیڈ اے خان کی کتاب میں درج مندرجہ بالا واقعہ آج بھی حیران کر دیتا ہے کہ امریکہ کے ایک سینیٹر کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے کئی سال پہلے ہی کیسے پتا چل گیا تھا؟ واضح رہے کہ یہ واقعہ اگست 1965ء میں پیش آیا جبکہ پہلی باقاعدہ پاک بھارت جنگ ایک ماہ بعد ستمبر میں لڑی گئی تھی اور اس جنگ کے بعد 1968ء میں بھارت کی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی 'را‘ کی بنیاد رکھی گئی تھی جس سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
امریکی حکام اور فیصلہ ساز قوتوں کا ترجمان سمجھے جانے والے ہفت روزہ جریدے اکانومسٹ نے پاکستان سے متعلق جو رپورٹ شائع کی ہے‘ اس پرپھر کبھی بات کریں گے کیونکہ ان کی تان ہمیشہ کی طرح اب بھی پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر ہی آ کر ٹوٹی ہے لیکن اگر اسے یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے کہ وہ ایسا کہتے رہتے ہیں تو یہ بھی مناسب نہیں ہو گا۔ اکانومسٹ کے اس مضمون کا آج کل سوشل میڈیا پر بہت چرچا ہے لیکن اس سے پہلے چاہوں گا کہ ہم آج سے چوبیس برس پہلے جی اے آر (Global Assessment Report) کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ پر نظر ڈال لیں جس میں پاکستان سے متعلق یوگو سلاویہ جیسا نقشہ کھینچا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل اور سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کی مشترکہ طور پر تیار کی گئی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس کے بعد پنٹاگون نے بھی جنوبی ایشیا سے متعلق ایک ''نیا نقشہ‘‘ جاری کیا تھا۔ اس نقشے میں بھی امریکی عزائم کا بھرپور اظہار کیا گیا تھا۔ مذکورہ رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا تھا کہ2015ء تک پاکستان خانہ جنگی‘ خون ریزی‘ بین الصوبائی منافرت اور انتہا پسندی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ جب یہ گلوبل تجزیاتی رپورٹ سامنے آئی تو اس میں ناکام قرار دی جانے والی ریا ستوں کی ایک فہرست بھی جاری کی گئی۔ 146 ممالک کی اس فہرست میں دس ممالک؛ زمبابوے، چاڈ، سوڈان، کانگو، آئیوری کوسٹ، عراق، صومالیہ، ہیٹی، پاکستان اور افغانستان کو اولین ناکام ریاستوں میں شامل کیا گیا جبکہ بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور بھوٹان کو بالترتیب19ویں، 20ویں، 25ویں اور 39ویں پوزیشن پر رکھا گیا جبکہ بھارت کو 93واں نمبر دیا گیا ۔
اس رپورٹ میں ناکام ریا ستوں کی تشریح کرتے ہوئے بارہ امور کو سامنے رکھا گیا تھا۔ پہلا پوائنٹ یہ تھا کہ کون سا ملک کس قدر جغرافیائی دبائو کا شکار ہے؟ کس ملک میں مہاجرین کے علاوہ مقامی لوگ بھی دربدر ہو رہے ہیں؟ کسی بھی وجہ سے انتقام کے جذبے میں مبتلا گروپوں اور لوگوں کی کتنی باقیات موجود ہیں؟ کس ملک سے لوگ کتنے تسلسل سے باہر جا رہے ہیں؟ کس ملک میں کتنی زیا دہ غیر مساوی معاشی ترقی ہوئی؟ کون سا ملک کس قدر معاشی ابتری اور انحطاط کا شکار ہے؟ کون سے ملک کی حکومت کتنی مجرمانہ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے؟ عوام کو سہولت اور دیکھ بھال کرنے والے ادارے کس قدر زوال پذیر ہیں؟ انسانی حقوق کی کس قدر سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں؟ ریا ست کے اندر کتنی زیادہ ریاستیں قائم ہو رہی ہیں؟ تفرقہ پھیلانے والے گروہوں اور گروپوں کو کتنا عروج مل رہا ہے؟ اور بارہواں نکتہ یہ تھا کہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت کس قدر زیادہ اور مضبوط ہے؟ اگر آج ہم ایسی رپورٹس کو یہ کہہ کر رد کر دیں کہ یہ سازشی تھیوریوں کے تحت تیار کی جاتی ہیں تو اس منطق کو تسلیم کرنے سے پہلے مذکورہ فہرست میں پاکستان کے علاوہ شامل ٹاپ ممالک کی موجودہ صورتِ حال اور جغرافیہ سامنے رکھ لیں۔ اب پاکستان کی دس‘ پندرہ برس پہلے اور آج کی تصویر کو سامنے رکھ لیں‘ مذکورہ تجزیوں میں وہ کون سی بات ہے جو اس عرصے میں پاکستان میں نہ دیکھی جا رہی ہو؟
معاشی ابتری، برین ڈرین، عدم مساوات، ناپید انصاف، سیاسی تقسیم اور باہمی منافرت جیسے مسائل تو ایک طرف رکھ دیں‘ جن میں حالیہ عرصے میں شدید تیزی دیکھی گئی ہے۔ کیا یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ یہاں ریاست کے اندر کئی ریاستیں بنی ہوئی ہیں۔ جس کے پاس جتنا زیادہ اختیار ہے‘ وہ اتنا بڑا فرعون ہے۔ اپنے گلی‘ محلے کو ہی دیکھ لیں۔ بلوچستان‘ اندرونِ سندھ‘ جنوبی پنجاب‘ قبائلی علاقہ جات‘ کہاں پر یہ صورتحال نہیں؟ پورے ملک میں کہیں بھی جا کر دیکھ لیں‘ ہر کمزور کی گردن طاقتوروں کے ہاتھوں میں نظر آئے گی۔ عام آدمی کی حالت کسی بار برداری والے جانور سے کم نہیں۔ ہر شخص ناانصافی اور جبر کو ایک لعنت سمجھتا ہے لیکن اس کے اسباب کو رفع کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ملک کی 75 سالہ تاریخ سب کے سامنے ہے۔ ذمہ داروں کے خلاف جوش میں آ کر نعرے لگائیں گے لیکن کوئی بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھے گا۔ کوئی بھی اپنی تاریخ کے سیاہ باب کے مندرجات کو پڑھنے اور ایسے اسباب کو ختم کرنے کی بات نہیں کرتا۔ اگر ہم اپنی معیشت کی بات کریں تو سوائے جھوٹ‘ بے ایمانی‘ دھوکا دہی اور فریب کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ پوری قوم ملاوٹ بھی کرتی ہے اور ایسے افراد کو کوسنے بھی دیتی ہے‘ تجارت میں بھی فراڈ ہے‘ ناجائز منافع خوری ہے‘ سمگلنگ ہے اور ان سب کے ساتھ مہنگائی کی تلوار‘ جو ایک طرف غریب طبقے کو کچلتی جا رہی ہے تو دوسری جانب ایک مخصوص قلیل سا طبقہ نئے محلات اور نئی مارکیٹیں کھڑی کرتا جا رہا ہے۔ معاشرت کا تو یہ حال ہے کہ ہر کسی کی کوشش ہے کہ دوسرے کو کچل کر‘ جیسے بھی ہو‘ آگے کی جانب بڑھتا جائے۔ نظم و ضبط دیکھنا ہو تو ملک بھر میں ٹریفک کا حال دیکھ لیں۔ مجموعی زبوں حالی دیکھنی ہے تو عدل و انصاف کا نظام دیکھ لیں جہاں قانون صرف کمزور اور مخالفین کیلئے وقف ہو کر رہ گیا ہے۔ قومی وسائل کا جس بے دریغ طریقے سے ضیاع جاری ہے‘ شاید ہی کوئی اور معاشرہ اس کی مثال پیش کر سکتا ہو۔ لگتا ہے کہ کسی کو اجتماعیت سے کوئی سروکار نہیں۔ جو ریاست بار بار جھٹکے کھانے‘ ادھر سے ادھر پٹخیاں کھانے کے باوجود سوئی رہے‘ اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں، ارادوں اور فیصلوں سے لاتعلق ہو جائے‘ اپنی ہی قوم کے دلوں میں نفرت کے بیج بونے لگ جائے‘ اور سدھار کے لیے دور دور تک بھی کوئی کوشش نظر نہ آ رہی ہو‘ اس کے مستقبل کا نقشہ کھینچنے کے لیے کسی عالمی رپورٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved