بے ذہنی، بے دِلی اور بے حسی نے دل و دماغ جکڑ رکھے ہیں۔ حالات نے ہمیں اُس مقام تک پہنچادیا ہے جہاں تماشا بھی ہم ہیں اور تماشائی بھی ہمِیں ہیں۔ مجموعی کیفیت ایسی ہے کہ انسان کہیں کوئی راہ نہیں پاتا۔ بھری دو پہر میں بھی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا رہتا ہے۔ انسان کو ہر وقت امکانات تلاش کرتے رہنا ہے مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ ہر وقت محض پریشانی ذہن کو گھیرے رہتی ہے۔ ماحول پر شدید اضمحلال کے ساتھ ساتھ پژمردگی بھی چھائی ہوئی ہے۔ ذہن و دل گویا کام کرنے سے عاری و بیزار ہیں۔ بیزاری ماحول سے بھی ہے اور اپنے آپ سے بھی۔ زندگی کو سجانے سنوارنے کے حوالے جو دلچسپی ہونی چاہیے وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ جن کے پاس ضرورت سے کہیں زیادہ دولت ہے وہ زندگی کو سجانے کے نام پر اپنی دولت کو محض ٹھکانے لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ سب کیوں ہے؟ ہم اِس بند گلی میں کیسے پھنس گئے ہیں؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمیں زندگی جیسی نعمت کے بارے میں بھی سنجیدہ ہونے نہیں دے رہے؟ فکر و عمل سے یہ شدید بیزاری کیوں ہے؟ اِس بیزاری کی حدود کیا ہیں اور کیا اِس بیزاری کو ختم نہیں کیا جاسکتا؟ سوالوں کا ایک سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ ذہنوں میں گردش کرتے ہوئے سوال فکر و نظر کی راہوں کو مزید مسدود کیے دیتے ہیں کیونکہ سوالوں کی بہتات سے ذہن محض الجھتا ہے اور امکانات تلاش کرنے کا میلان دم توڑتا جاتا ہے۔ آج ہم جہاں کھڑے ہیں وہاں اگر فکر و عمل سے بیزاری نمایاں ہے تو حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ ایسے معاملات میں انسان سوچنے پر مائل ہوتا ہے نہ کچھ کرنے پر۔ یہ سب کچھ افسوسناک اور تشویش ناک ہے۔اگر تاسّف اور تشویش بھی لاحق نہ ہو تو یوں سمجھیے کہ احساس کی دولت بھی ہاتھ سے گئی۔
آج معاشرہ جس نہج پر ہے اُس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ زندگی بسر کرنے اور اُس میں معنویت و مقصدیت پیدا کرنے کا تصور ناپید ہے اور سب محض گزارے کی سطح پر جینے کو سب کچھ سمجھے ہوئے ہیں۔ کیا محض گزارے کی سطح پر جینے کو زندگی کہا جاسکتا ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ ہم محض حیوان نہیں بلکہ حیوانِ عاقل و ناطق ہیں۔ قدرت نے ہمیں اس لیے خلق نہیں کیا کہ کسی نہ کسی طور جئیں اور پھر چل بسیں۔ ہمیں بامقصد طریق سے جینا ہے۔ہمیں ایک خاص مقصد کے تحت خلق کیا گیا ہے۔ وہ مقصد ہے اپنے خالق و مالک کی رِضا کا حصول۔ اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق زندگی بسر کرنا ہی ہمارا مقصدِ تخلیق ہے۔ یہ کام ہم اُسی وقت کرسکتے ہیں جب محض گزارے کی سطح سے بلند ہوکر فکر و نظر کی بالیدگی کے ساتھ جئیں، عمل کو شعار بنائیں، اپنی اور دوسروں کی زندگی میں کچھ نہ کچھ بہتری کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔
جب انسان صرف دو وقت کی روٹی کمانے کے جال میں پھنس جائے تو زندگی جیسی نعمت دو ٹکے کی ہوکر رہ جاتی ہے۔ آج ہمارا ایک بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہر سطح کا انسان صرف جینے کے لیے جی رہا ہے۔ سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنا ہم سب کے لیے ناگزیر ہے اور ہم اِس کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں مگر کیا زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے؟ کیا محض زندہ رہنے سے سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے؟ ہم انسان ہیں اور سوچ سمجھ کر خود کو زندہ رکھنے کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ بے زبان مخلوقات کو دیکھیے۔ وہ بھی جی لیتی ہیں کیونکہ اُنہیں قدرت کی طرف سے زرق عطا ہو جاتا ہے۔ اُن کے لیے بس اِتنا ہی ہے۔ اُن سے کوئی حساب کتاب نہیں ہونا۔ وہ اپنے حصے کی سانسیں پوری ہونے پر دُنیا سے چل دیتی ہیں اور بس۔ اِس کے بعد اُن کے لیے کوئی بھی مرحلہ نہیں۔ جون ایلیا نے کہا تھا ؎
بے حسی! کیا یونہی دِن گزر جائیں گے؟
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے!
کیا برحق بات کہی ہے! ہم محض زندہ رہنے کے لیے تو خلق نہیں کیے گئے۔ ہمارے حصے کے دن اِس لیے نہیں ہیں کہ بس گزرتے جائیں یا ہم اُن میں سے گزرتے چلے جائیں۔ اِن دنوں کو ہمیں بروئے کار لانا ہے‘ کچھ سوچنا اور کرنا ہے۔ محض زندہ رہنے کے لیے تو بے عقل و بے نطق حیوان خلق کیے جاتے ہیں۔ ہمیں تو ایک خاص منصوبے اور نظم کے تحت خلق کیا گیا ہے۔ ہمیں اِس دنیا کی رونقوں سے محظوظ بھی ہونا ہے اور اِن رونقوں میں اضافہ بھی کرنا ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم دن کو رات اور رات کو دن کرنے کی مشقت سے نجات پائیں۔ یہاں تو معاملہ یہ ہوگیا ہے کہ ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا
حکومتی نظم ہی اِس نوعیت کا ہے کہ انسان سورج طلوع ہونے پر بیدار ہوتا ہے تو اُس کے ذہن کے مطلع پر تفکر کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ جوں جوں دن بڑھتا جاتا ہے، ذہن کے مطلع پر ابھرنے والا سورج بھی تپش بڑھاتا جاتا ہے اور شام تک انسان ویسا ہی مضمحل ہوچکا ہوتا ہے جیسا کہ غروبِ آفتاب کے وقت آسمان کے مغربی سرے کا حال ہوتا ہے۔ ایسے میں زندگی یوں گزر رہی ہے گویا:
لائی حیات آئے‘ قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
جب انسان صبح سے شام تک صرف پیٹ بھرنے کے لیے تگ و دَو کرتا ہے تو اُس کا وجود بہت سے اوصاف سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ انسان میں ذوقِ جمال کا پایا جانا لازم ہے کیونکہ اِس ذوق ہی کی بدولت وہ زندگی کو رنگینیوں سے ہم کنار کرنے کے بارے میں سوچتا ہے۔ ذوقِ جمال ہی انسان کو کچھ ایسا کرنے کی تحریک دیتا ہے جس سے زندگی کی رنگینی بڑھے اور اُس کی معنویت میں بھی اضافہ ہو۔ جب تک انسان محض پیٹ بھرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہتا ہے تب ذہن کے پردے پر صرف تین چیزیں نمودار رہتی ہیں: روٹی، کپڑا اور مکان۔ آج ہم ایسی نہج پر زندگی بسر کر رہے ہیں جس میں ذوقِ جمال ناپید ہے۔ کچھ نیا سوچنے اور نیا کرنے کا تصور تک مٹ چلا ہے۔ کیا یہ زندگی ہے؟ کیا زندگی ایسی ہونی چاہیے؟ محض گزارے کی سطح پر جینے کے نتیجے میں انسان مال و زر کا عادی اور غلام ہوتا جاتا ہے۔ اِس راہ پر چلتے رہیے تو ایک مقام ایسا بھی آتا ہے جب انسان صرف مال و زر کے حصول ہی کے بارے میں سوچنے کا عادی ہوکر رہ جاتا ہے۔ پھر اگر ضرورت سے دس گنا بھی مل جائے تو ہوس ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ایسے میں زندگی کی معنویت، مقصدیت اور زیبائش کا تصور مال و زر کے ڈھیر میں دب کر رہ جاتا ہے۔ ؎
اِسے حیات جو کہیے تو آپ کی مرضی
نہ کوئی خواب نہ کوئی خیال ہے صاحب
جب کسی بات کی جستجو نہ رہے اور کوئی امید بھی باقی نہ بچے تو قومیں تباہ ہو جایا کرتی ہیں۔ ہم اس وقت تباہی کے راستے پر ہیں۔ ہمارے تمام معاملات گھوم پھر کر صرف گزارے کی چوکھٹ پر آ جاتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک کیفیت ہے۔ اِس کیفیت کو ختم کرنے کہیں سے کوئی نہیں آئے گا۔ یہ ہمیں خود کرنا ہے۔ آج ہم خاصی شدت سے محسوس کر رہے ہیں ہم کہیں پھنس گئے ہیں، مقید سے ہیں ؎
بند ہیں موت کی راہیں بھی اسیروں کے لیے
جانے اِس قید سے اب کیسے نکلنا ہو گا؟
حقیقی تبدیلی ممکن بنانے کے لیے دین و دنیا کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ نئے یقین کے ساتھ، تازہ دم جذبوں کے ساتھ جینا ہے، زندگی کو معنویت و مقصدیت کی طرف لے جانا ہے۔ جذبے انسان کو تازہ دم کردیتے ہیں مگر اِس کے لیے پہلے مرحلے میں یہ لازم ہے کہ جذبے تازہ دم ہوں! جو وقت ہم پر آیا ہوا ہے وہ بہت سے معاشروں پر گزر چکا ہے۔ جو بھی ابھرا وہ اپنے بل پر ابھرا۔ امید جوان رہے اور حقیقت پسندی دم نہ توڑے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ع
ذرا سی ہمتِ پرواز کی ضرورت ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved