منصور حلاج کو جب بازاروں میں گھسیٹا جارہا تھا تو حکم تھا کہ ہرکوئی اس زندیق پر پتھر برسائے۔ منصور خاموشی سے یہ رسمِ ستم برداشت کررہا تھا کہ شہر میں اس کا واقف حال دوست شبلی بھی ہجوم میں آنکلا۔ بادشاہ کا حکم بھی موجود اور منصور کی تکلیف کا بھی خیال۔ شبلی نے ایک پھول اٹھایا اور منصور کو مارا۔ پھول کالگنا تھا کہ منصور چیخ اٹھا‘ دردسے بلبلانے لگا۔ لوگوں نے پوچھا‘ پتھروں کی بارش میں تم خاموش رہے لیکن پھول کی چوٹ سے کیوں بلبلائے؟ کہنے لگا: شبلی تو جانتا ہے کہ میں کس حال اور کس مقام پر ہوں۔ میرے محترم صحافی اور کالم نگار جو منٹو کے عشق ِمسلسل کا شکار ہیں ان کا کالم بھی شبلی کا پھول ہے۔ موصوف کی عزت میرے دل میں دو وجہ سے ہے‘ ایک ان کی ایمانداری اور دوسری یہ کہ ان میں منافقت نہیں۔ اپنی ایک رائے رکھتے ہیں اور اس رائے کی بنیاد پر ایک دلیل بھی۔ لیکن دلیل ایسی چیز ہے جو عشق کے سامنے ہمیشہ شکست کھا جاتی ہے۔ اسی لیے موصوف نے میرے پورے کالم کے سیاق و سباق کے باوجود اپنے عنفوان شباب سے اب تک کے مستقل ممدوح منٹو کے بارے میں میرے صرف ایک فقرے پر کالم کی عمارت مسمار کردی۔ میری ان سے ملاقاتیں بہت کم رہی ہیں اس لیے ہوسکتا ہے وہ مجھے ایک کالم نگار اور بگڑے ہوئے بیوروکریٹ سے زیادہ نہ جانتے ہوں۔ لیکن اس کالم کے پس منظر میں میری عمر کے پچاس برسوں کا مختلف النوع تجربہ اور مشاہدہ شامل تھا۔ میں نے سات سال کی عمر میں شاعری شروع کی، بارہ سال کی عمر میں میری غزل ایک مؤقر ادبی جریدے میں چھپی، سولہ سال کی عمر میں پہلا افسانہ میں نے حلقۂ ارباب ذوق لاہور میں پڑھا۔ 1988ء میں میرا شعری مجموعہ ’’قامت‘‘ شائع ہوا۔ اس کے بعد میں نے بیس سال ٹیلی ویژن پرڈرامے لکھے جن میں پانچ سیریل اور پچاس سے زیادہ انفرادی ڈرامے شامل ہیں۔ میری بنیادی تعلیم نفسیاتی امراض کے علاج سے متعلق ہے ۔میں یہ مضمون پانچ سال بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا ہوں اور فائونٹین ہائوس جیسے ادارے کے ابتدائی کارکنوں میں شامل ہوں۔ لاہور مینٹل ہسپتال جہاں سعادت حسن منٹو علاج کے لیے داخل رہے‘ میں نے وہاں دو سال تربیت حاصل کی ہے۔ ایک افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے مجھے اتنا علم ضرور ہے کہ کردار کیسے تخلیق کیے جاتے ہیں۔ کیسے ایک مولوی کے اندر شیطان صفت بھیڑیے کو ڈال کر ہرنیک صفت تہجد گزار شخص کو بدنام کیا جاسکتا ہے اور کیسے ایک قاتل، چور، ڈاکو اور طوائف کے سینے میں ایک رحم دل کردار تخلیق کرکے اس قماش کے ہرفرد کو عظمت کی بلندیوں پر سرفراز کیا جاسکتا ہے۔ اس ساری شعبدہ بازی کو حقیقت نگاری کہا جاتا ہے اور ’’حقیقت نگار‘‘ کو معاشرے میں کبھی کوئی سراپا نیک اور پارسا شخص نظر نہیں آتا اور نہ ہی کوئی سراپا بدمعاش نظر آتا ہے۔ نفسیات کا علم اس کے برعکس ہے۔ مجرمانہ ذہنیت ایک مرض ہے اور سیریل کلر، جنسی تشدد کرنے والے اور پیشہ ور قاتلوں کی شخصیت میں رحم‘ ترس اور انسانیت جیسی اقدار مفقود ہو جاتی ہیں۔ چھوٹے بچوں یا بچیوں سے زیادتی کرنے والوں کو میڈیکل سائنس کی تحقیقات نے بھی انسانی جذبوں سے عاری قرار دیا ہے۔ ایسے قاتلوں کے ذہنوں کے خصوصی ٹیسٹ کیے گئے اور پتا چلا کہ ذہن کے سامنے والے حصے (Frontal Lobe)میں وہ علاقے جورحم اور ہمدردی سے متعلق ہوتے ہیں ان کی ترقی (Growth)ہی نہیں ہوئی ہوتی‘ یعنی وہ مجسم قاتل ، چور، بدمعاش ، جسم فروش ہوتے ہیں۔ یوں تو ایسی تھیوری لمبروسو(Lombroso)نے پچاس سال قبل پیش کی تھی لیکن اب تو ایک سائنسی حقیقت بن گئی ہے۔ یہی ماہرین نفسیات فحش نگاری اور فحش مواد کا جنسی جرائم کے ساتھ ایک گہرا تعلق ثابت کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی بڑے ادیب کے نفسیاتی نقش ونگار (Profile)کا مطالعہ کرلیں، آپ کو اس میں جنسی ہیجان کی سرپرستی ضرور نظر آئے گی خوا وہ آسکر وائلڈ، موپساں یا ڈی ایچ لارنس ہی کیوں نہ ہو۔ میں نے مینٹل ہسپتال میں ڈاکٹر عزیز مرحوم کے پاس منٹو کی فائل میں مشہور Inkblock ٹیسٹ کا رزلٹ بھی دیکھا ہے۔ آپ کے ممدوح کو ان تصویروں میں صرف جنسی افعال اور جنسی اعضا ہی نظر آئے تھے۔ یہ کوئی ایسی بری بات بھی نہیں۔ ہمارے جیسے کچلے ہوئے ماحول میں بہت سے کامیاب لوگوں میں بھی یہ علامات ہوتی ہیں لیکن جب ایک مصنف ایسے نفسیاتی رجحان کا مالک ہوتا ہے پھر وہ ’’بلائوز‘‘ ’’پھاہا‘‘ ’’بُو‘‘ ’’برمی لڑکی‘‘ اور ’’شاداں‘‘ جیسے افسانے تحریر کرتا ہے۔ مجھے ایسے افسانے تحریر کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ یہ ایک ادیب کا بنیادی حق ہے کہ وہ جیسے کردار چاہے منتخب کرے اور جیسے چاہے تخلیق کرے۔ میرا تو سارا مدعا یہ تھا کہ فحاشی کی لت ہمیشہ ایسے ہی افسانوں سے آغاز کرتی ہے۔ کچھ آپ جیسے مضبوط کردار کے لوگ ہوتے ہیں جو بعد میں اور مزید کی خواہش نہیں کرتے لیکن بہت کمزور نفسیاتی میلان کے حامل بھی ہوتے ہیں جو منٹو کے بہت سے بے ضرر فقروں سے بھی ہیجان میں مبتلا ہوجاتے ہیں، خود لذتی کی منزلوں سے گزرتے ہوئے مستقل فحش مواد کے قاری اور پھر ان فلموں کے رسیا بن جاتے ہیں۔ ان سارے تجربوں سے وہ رجحان جنم لیتا ہے جو انہیں پاگل پن کی اس حد تک لے جاتا ہے جہاں نہ انہیں معصوم بچی کی چیخیں سنائی دیتی ہیں اور نہ قتل کرتے ہوئے انہیں رحم آتا ہے۔ میں یہاں منٹو کی ہزاروں ایسی لائنیں لکھ سکتا ہوں جو فحاشی سے تعلق کا پہلا زینہ بنتی ہیں اور پڑھنے والوں کی نظر میں‘ عورت صرف اور صرف ایک جسم بن کر رہ جاتی ہے۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے‘ کیا ’’بلائوز‘‘ افسانہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں عورت کی کونسی محترم تصویر ابھرتی ہے۔ مصنف فحش لکھے یا اخلاق سے آراستہ کہانی یہ اس کا مسئلہ ہے لیکن میرا اور اس دنیا کے ہر اس شخص کا جو دنیا کو جنسی زیادتیوں اور بیماریوں سے پاک دیکھنا چاہتا ہے اس کا مسئلہ یہ ہے کہ ایسا لٹریچر اور مواد کب اور کس عمر میں پڑھنا چاہیے اور کون سا مواد ہے جو مکمل فحش ہے۔ میرے والد کی لائبریری میں تین کتابیں ایسی تھیں جو ہم بچوں کی دسترس سے اوجھل رکھی گئی تھیں۔ ایک مولانا روم کی مثنوی کا ’’دفتر پنجم‘‘ دوسری غوث علی شاہ قلندر کی ’’تذکرۂ غوثیہ‘‘ اور تیسری شیخ سعدی کی ’’گلستان‘‘۔ یہ تینوں کتابیں انتہائی معزز اور محترم صوفیائے کرام کی تحریریں ہیں لیکن چند حصوں میں فحش نگاری کی وجہ سے میرے والد نے ان پر پابندی عائد کردی تھی۔ یہ ہے وہ احتیاط جو ہر نفسیات دان اور انسانوں کا خیرخواہ ہر معاشرے، فرد اور خاندان سے چاہتا ہے۔ آپ منٹو سے عشق کریں کہ وہ ایک جاندار ادیب ہے اور آپ کا کردار بھی مضبوط ہے کہ آپ منٹو پڑھنے سے آگے کی منزلیں طے کرنے سے رک گئے لیکن اس معاشرے میں بہت سے کمزور، مجبور اور بے کس لوگ بھی ہوتے ہیں جو اگر اس راہ پر چل پڑیں تو ان کا انجام جنسی تشدد‘ جنسی قتل اور آبرو ریزی کی تاریک منزل ہوتی ہے۔ اصل مسئلہ فحاشی کو روکنا ہے اور اس پر اس وقت دنیا کا ہر ماہرِ جرمیات‘ نفسیات اور سماجیات اس امر پر متفق ہے۔ مٹھائی کتنی بھی مزیدار سہی‘ شوگر کے مریض کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ فحش نگاری کس قدر دلچسپ اور رنگین سہی ہیجان زدہ معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved