تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     06-06-2023

چٹھیاں

محترمہ صباحت رفیق صاحبہ اُن اوورسیز پاکستانیز میں سے ہیں جن کی دورانِ پرواز بھی نگاہ اپنے آشیانے پاکستان پر لگی رہتی ہے۔ صباحت ماشاء اللہ ایک خوش حال پاکستانی امریکن ہیں۔ وہ گزشتہ سات آٹھ برس سے لاہور میں مقیم ہیں اور اپنی ویلفیئر تنظیم کے ذریعے پاکستانی سکولوں کے تعلیمی معیار کو عالمی سطح پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لاہور کی ادبی‘ ثقافتی اور تہذیبی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ وہ خود بھی انگریزی زبان کی مستند شاعرہ ہیں۔ وہ جب کبھی ادبی تقریب میں شمولیت کی دعوت دیتی ہیں تو اتنی اپنائیت سے مدعو کرتی ہیں کہ مخاطب کے پاس سرِتسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن بچتا ہی نہیں۔ لاہور کے جون ایلیا ادبی فیسٹیول میں ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی کے لیے انہوں نے مجھے مدعو کیا۔ انہوں نے ایک دو روز میں کتاب پہنچانے کا وعدہ کیا۔ یہ شفق لاشاری کی کتاب ''چٹھیاں‘‘ کی تقریب تھی۔''چٹھیاں‘‘ یعنی خطوط کا ٹائٹل سنتے ہی میرے دل کا جلترنگ بجنے لگا۔ صباحت تو فون بند کر کے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی ہوں گی مگر میری شب تو یادِ ماضی کے ہمراہ گزری۔ جناب مجید امجد نے کہا تھا:
دل سے ہر گزری بات گزری ہے
کس قیامت کی رات گزری ہے
وہ چٹھیاں بھی یاد آئیں جن کے حسبِ منشا جواب آئے تھے اور وہ چٹھیاں بھی یاد آئیں جن کے جوابات کی وصولی کے لیے ہم کئی کئی روز ڈاکیے کا انتظار گھر کی چوکھٹ پر کیا کرتے تھے۔ وٹس ایپ‘ انسٹا گرام‘ سنیپ چیٹ اور نہ جانے کون کون سی برق رفتار ایپس استعمال کرنے والی آج کی جنریشن ڈاکیے کے انتظار کی حلاوت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتی۔ بہرحال ہم نے یادِ ماضی پر کوئی قدغن نہ لگائی۔ بقول استادِ گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی:
سیل ماضی کو نشیبِ جاں میں بھرنے دیجئے
آج پھر احساس کو ڈھلنے سنورنے دیجئے
ایک لمحے میں ہمیں خطوطِ غالب سے لے کر 26برس کی عمر میں جواں مرگ انگریزی شاعر کیٹس کے اپنی منگیتر فینی بران کے نام محبت نامے یاد آئے۔ مرزا اسد اللہ غالبؔ اگر اردو میں خطوط نہ لکھتے تو اردو ادب نہایت خوبصورت نثر سے محروم رہتا۔ غالبؔ کے خطوط میں اردو نثر کی شیرینی و اثر انگیزی ان کی شاعری سے کسی طرح کم نہیں۔ ان کے خطوط کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس زمانے کے مرصّع و مسجّع طرزِ تحریر کے بجائے غالبؔ نے بے تکلف خطوط نویسی کے لیے سادہ‘ عام فہم اور سلیس اسلوبِ تحریر ایجاد کیا جسے بہت پذیرائی ملی۔
کیٹس مرضِ سل کا شکار ہو گیا۔ اسے علاج کے لیے انگلینڈ سے اٹلی کے ایک صحت افزا مقام پر بھیج دیا گیا۔ وہاں سے اس نے 1819ء اور 1820ء کے درمیان بہت سے خطوط لکھے۔ یہ خطوط کتابی شکل میں شائع کر دیے گئے تھے۔ ایک خط میں کیٹس لکھتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے مجھے اچھی آب و ہوا کے لیے یہاں اٹلی بھیج دیا ہے مگر اُنہیں معلوم نہیں کہ"The air I breathe in a room empty of you is unhealthy."
پھر مجھے صفیہ جاں نثار اختر کے جاں نثار اختر کے نام ''زیر لب‘‘ کے ٹائٹل سے شائع ہونے والے مکاتیب کا مجموعہ بھی یاد آیا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر وزیر آغا کی خود نوشت ''شام کی منڈیر سے‘‘ میں کیے گئے اُن خطوط کا تذکرہ بھی آنکھوں کے سامنے آیا جو انہوں نے اپنی پرانی منگیتر یا اپنی بیگم کو لکھے تھے اور جواباً انہوں نے آغا صاحب کو تحریر کیے تھے۔یہ تو وہ عمومی تاثرات تھے جو کتاب کو دیکھے بغیر ''چٹھیاں‘‘ کا نام سن کر میرے حافظے کی دیواروں پر ابھر آئے تھے مگر جب میں نے ''چٹھیاں‘‘ دیکھی تو میرا سامنا ایک دلفریب اور خوش گوار حیرت سے ہوا۔ اس کتاب میں جو چٹھیاں ہیں‘ وہ بہت منفرد نوعیت کی ہیں۔ یہ چٹھیاں پہلے مصنفہ شفق لاشاری کے صفحۂ دل پر تحریر ہوئیں‘ پھر اُن کے لبوں سے ادا ہو کر اُن کے پیاروں کی سماعتوں میں رس گھولتی رہیں اور پھر صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوئیں۔
شفق لاشاری محترم کامران لاشاری کی اکلوتی ہمشیرہ ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی باتیں‘ مزنگ میں اپنی پیلی کوٹھی کی یادیں‘ 1960ء اور 1970ء کی دہائی کے صاف ستھرے اور پُرکشش‘ ٹریفک کے ازدحام اور فضائی و صوتی آلودگی سے پاک لاہور کی سچی کہانیاں خوبصورت اسلوب میں اپنے بچوں اور اپنی دوستوں کو سناتی تھیں تو سب کا یہ اصرار ہوا کہ آپ ان یادوں کو کتابی صورت میں محفوظ کر لیں تو یہ ہمارے بچوں کے ہی نہیں بلکہ لاہور سے عشق کرنے والوں کے لیے ایک ادبی و تہذیبی اثاثے سے کم نہ ہوں گی۔ شفق کی شادی 1972ء میں ہوئی تھی۔ انہوں نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے نہایت پُرکشش پیرائے میں اس دور کے شادی بیاہ کے رسوم و رواج کی ایک جھلک دکھائی ہے۔ اس جھلک سے معلوم ہوتا ہے تب زمانہ بڑا سادہ اور پُرخلوص تھا۔ اہلِ خانہ کی بے لوث محبتوں کا تذکرہ کتاب کے ہر صفحے پر ملتا ہے۔ اپنی ہر یاد کو انہوں نے چٹھی کی صورت میں محفوظ کیا ہے۔ کتاب میں کل 22چٹھیاں ہیں۔ چٹھی نمبر1کا عنوان ہے کوٹھی تب اور اب۔ چٹھی نمبر 8 میرا پرانا لاہور۔ چٹھی نمبر11 بسنت اور چٹھی نمبر 12 پھپھی رشیدہ و علیٰ ہٰذا القیاس۔
شفق نے جتنے شائستہ‘ شگفتہ‘ سلیس اور دل نشین انداز میں اپنی بیٹیوں اُفق اور فلک اور دیگر عزیزوں کے نام خطوط کی صورت میں اس دور کے لاہور کی عکس بندی کی ہے ویسی عکس بندی بلامبالغہ تاریخ کی کتابوں میں بھی نہیں ملتی۔ شفق لاہور کے بارے میں لکھتی ہیں ''لاہور سے میرا عشق ہے۔ اس کی سڑکیں‘ اس کے مکانات‘ اس کے باغات اور اس کے تانگے اور ریڑھیاں‘ اس کے میلے اور سینما گھر‘ بازار جو 60ء اور 70ء کی دہائی میں جتنے جاذبِ نظر اور صاف ستھرے تھے‘ میں انہیں نہیں بھولتی۔ وقت کہاں سے کہاں آ گیا لیکن لاہور میرے دل میں ویسا ہی ہے جیسا میں نے اسے ہوش سنبھالتے دیکھا۔ نئیں ریساں شہر لاہور دیاں‘‘۔اسے حسنِ اتفاق ہی کہیے کہ ہمیں بھی 1970ء کی دہائی سے لاہور کے ساتھ عشق ہو گیا تھا جو اب تک جاری ہے۔ قارئین کا توسنِ خیال شاید کسی اور طرف نہ نکل جائے اس لیے یہ وضاحت بقول شاعر ضروری ہے۔
محبت کب کسی اور سے ہے
یہ سر پھری بھی لاہور سے ہے
چٹھی نمبر 2 بعنوان ''محبوب سلطانہ کا گھر‘‘ میں مصنفہ لکھتی ہیں کہ کوٹھی کے اندر والے صحن میں برآمدے کے آگے والی جگہ پر پانچ چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ جن پر دھاری دار کھیس بچھ جاتے اور سفید چادریں پائنتی کی طرف رکھ دی جاتی تھیں۔ دونوں اطراف پنکھے ہوتے تھے۔ پرچی سسٹم تھا بھئی لیٹنے کا کہ بچوں میں سے پنکھے کے سامنے کس کی باری ہوگی۔یہ سن کر مجھے اپنا تاریخی شہر بھیرہ یاد آ گیا جس کے قدیم آبائی گھر میں ہمارا بچپن گزرا تھا۔ وہاں ہمارے گھر میں بھی بچوں کے لیے ایسی ہی قرعہ اندازی کئی معاملات میں کی جاتی تھی تاکہ امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔
''چٹھیاں‘‘ میں لاہور کی تہذیبی و مجلسی زندگی بھی ہے‘ اس دور کے رسوم و رواج کی جھلک بھی ہے‘ خاندانی محبت و چاہت کی چاشنی بھی ہے‘ تعلیمی زندگی کی چہلیں اور اٹھکیلیاں بھی ہیں اور بے لوث دوستیوں اور اپنے پیاروں کے خلوص و چاہت اور جاں نثاری کی حکایتیں بھی ہیں۔ہم محترمہ شفق کو اُن کی تصنیفِ اوّل پر ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ بلاشبہ چٹھیاں کے نام سے لاہور کے پُرکشش دور کی یہ دلچسپ کہانی صرف لاہوریوں کو ہی نہیں بلکہ لاہور سے محبت کرنے والے کسی بھی جنریشن اور کسی بھی علاقے سے تعلق رکھنے والے شخص کو اپنی طرف متوجہ کر لے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved