''رحمن ‘‘کی مدھر دھنوں سے آراستہ فلم ''روجا‘‘ کی موسیقی نے سب کو چونکا دیا تھا۔ یہ ایک مختلف اور منفرد موسیقی تھی جس نے لوگوں کو مسحور کر دیا تھا لیکن شمالی ہندوستان کے لیے رحمن ابھی تک ایک معمہ تھا کیونکہ اس نے کسی اُردو فلم کے لیے موسیقی نہیں دی۔ لیکن لوگوں کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ رام گوپال ورما جو اپنی مار دھاڑ کی فلموں کی وجہ سے جانا جاتا تھا‘ نے ایک رومانوی فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہی دنوں رام گوپال مالی رتنم سے ملنے چنائی گیا تو وہاں ''روجا‘‘ کے گانوں کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی۔ رحمن کی مدھر موسیقی نے اسے روک لیا۔ اسے رحمن کی موسیقی کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی بھا گئی تھی۔ وقفے کے دوران سٹوڈیو کے باہر باتوں باتوں میں رحمن نے رام گوپال سے کہا کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ اس سٹوڈیو سے جو چیز باہر جائے وہ معیاری ہو۔ یہ ایک سادہ سی بات تھی جو رام گوپال کے دل میں اُتر گئی۔ رام گوپال نے اے آر رحمن کو اپنی فلم ''رنگیلا‘‘ کا میوزک ڈائریکٹر بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ فلم پر رام گوپال نے گیت لکھنے کے لیے محبوب کا انتخاب کیا جس نے اس سے پہلے کبھی فلم کے لیے گانے نہیں لکھے تھے۔ محبوب نے بعد میں اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب رحمن نے رام گوپال سے پوچھا کہ فلم کے لیے گیت کون لکھ رہا ہے تو رام گوپال نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا ‘اس فلم کے لیے محبوب گیت لکھے گا‘اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ محبوب نے اس سے پہلے کسی فلم کے لیے گیت نہیں لکھے ۔ محبوب کے دل میں خوف نے سراٹھایا کہ معلوم نہیں یہ سن کر اے آر رحمن کیا کہے گا‘ لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب رحمن نے کہا ''کوئی بات نہیں یہ نیا ہے تو کچھ نیا ہی لکھے گا‘‘۔ رام گوپال نے ایک مختلف کام کیا‘ وہ اے آر رحمن اور محبوب کو گوا لے گیا جو اپنے فطرتی حسن اور خوبصورت ساحلوں کیساتھ ساتھ شہرکے ہنگاموں سے دور ایک خوبصورت مقام تھا۔ رام گوپال چاہتا تھا کہ اس پُرسکون جگہ پر فلم کے گیت لکھے جائیں اور ان کی دھنیں بنائی جائیں۔ یہ تجربہ کامیاب رہا۔ کام کے دوران رام گوپال نے رحمن کو قریب سے دیکھا اور اس کی شخصیت اور اس کے کام کے سحر میں گرفتار ہو گیا۔ ''رنگیلا‘‘ اردو فلموں میں رحمن کا پہلا تعارف تھی۔ فلم ریلیز ہوئی تو اس نے باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ فلم کی اس کامیابی میں بڑا ہاتھ رحمن کی دلکش دھنوں کا تھا ۔فلم کو سات ایوارڈ ملے اور بہترین میوزک پر اے آر رحمن کو نیشنل ایوارڈ ملا۔ اب رحمن کی شہرت سارے ہندوستان میں پھیل گئی تھی۔ رام گوپال کا کہنا ہے کہ رحمن ایک مجسمہ ساز کی طرح کام کرتا ہے۔ جس طرح ایک مجسمہ ساز ایک چٹان میں سے مجسمہ تراش لیتا ہے اسی طرح رحمن آوازوں کے رنگوں سے گیت دریافت کرتا ہے۔رام گوپال کا کہنا ہے کہ دھنیں تو دوسرے موسیقار بھی بناتے ہیں لیکن جو شدت (intensity) رحمن کی دھنوں میں ہوتی ہے وہ دوسرے موسیقاروں میں کہاں۔ 1992ء میں ''روجا‘‘ فلم سے اپنے سفر کا آغاز کرنے کے بعد رحمن نے پے در پے تامل فلموں میں شاندار موسیقی دی لیکن 1995ء میں ریلیز ہونے والی ''رنگیلا‘‘ اس کی اردو میں پہلی فلم تھی جس کے گیتوں نے موسیقی کے پرستاروں کو اپنا دیوانہ بنا لیا تھا۔ اسی سال رحمن نے موسیقی کی شاہراہ پر ایک اور سنگِ میل عبور کیا ‘ یہ ڈائریکٹر منی رتنم کی نئی فلم ''بمبئی‘‘ تھی وہی منی رتنم جس نے رحمن کو فلم ''روجا‘‘ میں موسیقی کا موقع دیا تھا۔ رحمن اپنے انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اگر منی رتنم کی جگہ کوئی اور ڈائریکٹر ہوتا تو شاید اس کے موسیقی میں نت نئے تجربات کو قبول نہ کرتا لیکن منی رتنم نے نہ صرف رحمن کو تخلیقی آزادی دی بلکہ اس کی صلاحیتوں میں نکھارلے کر آیا۔ رحمن کے بقول منی رتنم اس کا گُرو ہے جس نے اسے اس کی صلاحیتوں سے متعارف کرایا۔ ''روجا‘‘ میں کام کرنے والی یہ جوڑی اب نئی فلم ''بمبئی‘‘ میں اکٹھی ہو گئی تھی۔ جب ''بمبئی‘‘ ریلیز ہوئی تو اس کی موسیقی نے نئے ریکارڈ قائم کئے۔'' بمبئی‘‘ کے گیتوں کی ڈیڑھ کروڑ کیسٹیں فروخت ہوئیں۔ اس فلم نے ثابت کر دیا کہ'' روجا‘‘ اور'' رنگیلا ‘‘میں کامیابی محض اتفاق نہیں تھی۔ ''روجا‘‘ کی موسیقی فلمی دنیا میں اس کا پہلا قدم تھا‘ ''رنگیلا‘‘ اردو فلموں میں اس کا پہلا تعارف تھا،''بمبئی‘‘ کی موسیقی اسے ہندوستان کی سرحدوں سے باہر لے گئی تھی ۔ایک بار منی رتنم سے پوچھا گیا کہ رحمن میں ایسی کیا خاص بات ہے جو دوسروں میں نہیں؟ منی رتنم نے جواب دیا کہ رحمن کا میوزک انٹرنیشنل ہے۔ رحمن کے میوزک میں یہ انٹرنیشنل پہلو ''بمبئی‘‘ فلم کی موسیقی میں نمایاں ہو کر سامنے آیا۔ گارڈین اخبار نے اپنے ایک تبصرے میں فلم'' بمبئی‘‘ کے میوزک کو ان ایک ہزار میوزک ٹریکس میں شمار کیا جو مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں سب کو ضرور سننے چاہئیں۔ فلم کے ڈائریکٹر منی رتنم کا خیال ہے کہ رحمن کی موسیقی Slow poisonکی طرح ہے جو دھیرے دھیرے غیر محسوس طریقے سے آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ یوں تو اس فلم کے سارے ہی گیت مشہور ہوئے لیکن چترا کی آواز میں ''کہنا ہی کیا‘‘ رحمن کی مدھر دھنوں کے ساتھ لافانی ہو گیا۔ منی رتنم اور رحمن کی اگلی فلم ''دل سے‘‘ تھی جو باکس آفس پر کامیاب رہی۔ جس کے گیتوں کی ساٹھ لاکھ کیسٹس فروخت ہوئیں۔ اس فلم پر بھی رحمن کو بہترین میوزک ڈائریکٹر کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ فلم کے ایک گیت ''دل سے رے‘‘ کو MTV ویڈیو میوزک ایوارڈ دیا گیا۔ اسی فلم میں ''چھیاں چھیاں‘‘ گیت کو بی بی سی ورلڈ سروس دنیا کے دس بہترین گیتوں میں شمار کیا گیا۔ ''چھیاں چھیاں‘‘ کے گیت نگار گلزار تھے۔ رحمن کو سچوایشن بتائی گئی کہ گانا ایک چلتی ٹرین پر پکچرائز ہو گا۔رحمن نے پٹڑی پر چلتی ٹرین کی آواز کا تاثر دے کر سچوایشن کو عمدگی سے اپنی موسیقی میں سمو دیا ۔ اس گانے میں رحمن کے صوفیانہ رنگ کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس رنگ کی چھاپ آنے والے دنوں میں اور گہری ہو گئی۔ ''بمبئی‘‘ ہی وہ پہلی فلم تھی جس میں رحمن نے بیک گراؤنڈ میوزک کو انتہائی مہارت اور چابکدستی سے استعمال کیا ۔ یہ بیک گراونڈ کہانی کے معانی کو اور وسعت دیتا ہے۔
رحمن نے اپنے jinglesبنانے کے تجربے کو فلموں میں نہایت خوبصورتی سے استعمال کیا۔ jinglesمیں مختصر وقت میں لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرانا ہوتی ہے۔ اس کے لیے پرکشش الفاظ (catchy words) استعمال کیے جاتے ہیں‘رحمن نے اپنے گیتوں میں یہ تجربہ کیا مثلاً ''چھیاں چھیاں‘‘ ''رنگا رنگا‘‘ ''میا میا‘‘ اور ''مقابلہ مقابلہ‘‘۔ اب رحمن بالی وڈ میں اپنے قدم جما چکا تھا‘ اب اس کا ایک فلم کا معاوضہ ہزاروں‘ لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں تھا ۔ اس کے سٹوڈیو کے باہر بھیڑ لگی رہتی تھی۔انہی مصروف دنوں میں ایک دن وہ سٹوڈیو میں تھا کہ اسے بتایاگیا کہ اس کا پرانا دوست بھرت بالا اسے ملنے آیا ہے۔وہ رحمن کے jinglesکے دنوں کا دوست تھا۔ بھرت بالا نے رحمن کو دیکھتے ہی کہا: رحمن میں تمہارے لیے ایک پراجیکٹ لے کر آیا ہوں۔ رحمن کی بڑی بڑی آنکھوں میں حیرت جاگ اُٹھی۔اس نے مسکراتے ہوئے بے یقینی سے بھرت بالا سے سوال کیا:کیسا پراجیکٹ؟ اس وقت رحمن کو کیا معلوم تھا کہ بھرت بالا کا یہ پراجیکٹ اسے شہرت کی نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved