اخبار پڑھ کر اور خبریں سُن کر آہ و فغاں کرنے کو دل چاہتا ہے۔ سیاسی حالات ہوں یا اقتصادی منظر نامہ‘ ہر طرف ویرانی ہے اور ڈراتے بھوتوں کا رقص! مگر آج اخبار پڑھ کر ہنسی آئی اور بہت دیر تک آتی رہی! یہ کوئی لطیفہ نہیں تھا جس پر ہنسنا پڑا۔ ہنسنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں اور سب خوش کرنے والی نہیں ہوتیں! ظفر اقبال نے کہا ہے ؎
مجھے کُبڑا نہ سمجھو‘ زندگی پر
میں ہنستے ہنستے دُہرا ہو گیا ہوں
خورشید رضوی کا مشہور شعر ہے ؎
مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل
جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں
غالب نے کہا ہے ؎
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گُل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
اور مجید امجد نے کہا ؎
ایک ایک جھروکا خندہ بلب ایک ایک گلی کہرام
ہم لب سے لگا کر جام ہوئے بدنام‘ بہت بدنام
ہنسی پر شعر سناتا گیا تو اسی میں کالم تمام ہو جائے گا۔ سبب کی طرف آتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی ایک معروف یونیورسٹی میں کسی استاد نے سٹوڈنٹس سے کوئی ایسا سوال پوچھا جو نامناسب تھا بلکہ ہمارے کلچر کے لحاظ سے غیراخلاقی بھی تھا۔ اس پر انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی نے اب یہ سفارش کی ہے کہ آئندہ یونیورسٹیوں کے لیے اساتذہ چنتے وقت انٹرویو لینے والے پینل میں ماہرِ نفسیات بھی بٹھایا جائے اور جس امیدوار کو ماہر نفسیات ناموزوں (اَن فِٹ) قرار دے اسے نہ رکھا جائے۔ کیا یہ ہنسنے کی بات نہیں کہ جس معاشرے میں ہر تیسرا یا چوتھا فرد نفسیاتی مریض ہے‘ اس معاشرے میں نفسیاتی فِٹنس کی شرط صرف یونیورسٹی اساتذہ پر عائدکی جا رہی ہے! اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جو ماہرِ نفسیات انٹرویو پینل میں بیٹھے گا اور امیدواروں کا نفسیاتی جائزہ لے گا‘ وہ خود نفسیاتی حوالے سے نارمل ہو گا یا نہیں؟ ہو سکتا ہے اس نے نفسیات میں کئی ڈگریاں لی ہوں‘ وہ بھی ہارورڈ‘ آکسفورڈ اور کیمبرج سے مگر وہ رہ تو یہیں رہا ہے! ہر صبح وہ اخبارات یہاں کے پڑھتا ہے۔ ٹی وی چینل یہاں کے دیکھتا ہے۔ ٹریفک یہاں کی جھیلتا ہے! بازار میں دکانداروں سے بے عزتی یہاں کرواتا ہے۔ گیس‘ بجلی اور پانی کے بِل یہاں بھگتتا ہے! لوڈ شیڈنگ کا عذاب یہاں برداشت کرتا ہے‘ یہ سب کچھ‘ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ دیکھتا‘ سنتا اور کمر پر لادتا ہے! پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ خود نفسیاتی مریض نہ ہو! اگر اس کے باوجود اس سے کام لینا ہے تو امیدواروں کا نفسیاتی جائزہ لینے کے بجائے اسے انٹرویو لینے والوں کی نفسیات چیک کرنی چاہیے!
نفسیات کا علم تو قدیم چینی‘ ہندی اور دیگر معاشروں میں بھی موجود تھا مگر حال کے منظر نامے پر نفسیات کے وہ نظریات چھائے ہوئے ہیں جو مغرب میں پروان چڑھے۔ تاہم مغرب کے جن علما نے یہ نظریات پیش کیے وہ پاکستان اور اہلِ پاکستان سے ناواقف تھے۔ کسی نے کہا تھا کہ ہم جو یہاں کا پانی پی کر زندہ ہیں‘ امریکہ اور یورپ کی بھینس بھی یہ پانی پی لے تو مر جائے! مغرب کے علمائے نفسیات ہمارے ہاں آکر کچھ دن رہتے تو سارا علم‘ ساری تھیوریاں‘ آتشدان میں جھونک کر‘ کپڑے پھاڑتے اور سینہ کوبی کرتے جنگل کا رُخ کر لیتے! استاد نے شاگرد سے پوچھا تمہارے پاس تین سیب ہوں اور اس میں سے ایک تمہاری بہن لے لے تو باقی کتنے بچیں گے اس نے جواب دیا کہ ایک بھی نہیں! استاد نے سرزنش کی کہ تم اتنا سا حساب بھی نہیں جانتے؟ شاگرد نے کہا کہ سر! میں تو حساب جانتا ہوں مگر آپ میری بہن کو نہیں جانتے! مغرب کے علما‘ نفسیات کے نظریات تو جانتے ہیں‘ پاکستان کو نہیں جانتے! جب آپ سڑک پر جارہے ہوں‘ پیدل یا سواری پر‘ اور ہر لمحے ٹکر کا ڈر ہو یا سڑک بند ہونے کا یا کسی جلوس کا یا کسی رُوٹ لگنے کا‘ جب آپ ریلوے سٹیشن یا ایئر پورٹ جا رہے ہوں اور معلوم نہ ہو کہ ٹرین اور جہاز جائے گا یا نہیں اور اگر گیا تو کس وقت جائے گا‘ جب آپ کسی دفتر میں جا رہے ہوں اور کوئی آئیڈیا ہی نہ ہو کہ متعلقہ اہلکار یا افسر موجود ہو گا یا نہیں اور موجود ہوا بھی تو کام کرے گا یا نہیں‘ آپ کسی سے کوئی بات بھی کریں اور دل میں یہ خوف ہو کہ توہین کا الزام نہ لگا دے‘ آپ جاں بلب مریض کو ہسپتال لے کر جائیں اور ڈاکٹر حضرات چائے کے ایک طویل وقفے سے لطف اندوز ہو رہے ہوں‘ آپ رات کو بیرونی دروازہ مقفل کرکے کئی بار چیک کرکے بستر پر لیٹیں اور اس کے باوجود یہ دہشت سوہانِ روح بنی ہوئی ہو کہ ڈاکو نہ آن گھسیں تو انصاف سے بتائیے کہ کیا آپ نفسیاتی مریض نہیں بن جائیں گے؟
ایک ہم وطن کی طبیعت خراب تھی۔ وہ سلوتری کے پاس چلا گیا! سلوتری حیران ہوا اور کہا کہ یہاں کیوں آگئے ہو؟ میں تو جانوروں کا علاج کرتا ہوں‘ مریض نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! صبح اٹھتا ہوں تو گھوڑے کی طرح چست اور توانا ہوتا ہوں! کام پر پہنچتا ہوں تو باس کے سامنے بکری کی طرح ممیاتا ہوں۔ ماتحت پر کتے کی طرح بھونکتا ہوں! سارا دن گدھے کی طرح کام کرتا ہوں۔ گھر آتا ہوں تو بیوی کے سامنے بھیگی بلی بن جاتا ہوں! اب آپ ہی بتائیے کہ جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس نہ جاؤں تو کیا کروں! یہ حال ہم سب کا ہے! ہر جگہ ٹھوکریں پڑتی ہیں! جانوروں کا سا سلوک ہوتا ہے۔ بازار جائیں تو مہنگائی کا خوف! مسجد جائیں تو فتوے کا ڈر! شاہراہ پر ہوں تو موت کی دہشت! رات کو ڈاکوؤں اور چوروں کا دھڑکا! ہمارے ایک دوست ہیں۔ نامی گرامی سکالر اور معیشت دان! ان سے پوچھا کہ ریٹائرڈ زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ کہنے لگے: خوب انجوائے کر رہا ہوں! ہم نے کہا کہ آپ تو سخت قانونی اور اصول پسند شخص ہیں! راہِ راست سے ایک انچ کیا‘ ایک سنٹی میٹر نہیں ہٹتے۔ تو یہاں جو حالات ہیں‘ بازار کے اور دفتروں کے اور اداروں کے اور ہر جگہ‘ تو اس مسلسل غدر میں آپ جیسا شخص انجوائے کیسے کر سکتا ہے! کہنے لگے: گھر سے نکلتے وقت اپنے آپ پر واضح کر دیتا ہوں کہ میاں! یاد رکھو! ہر جگہ تھپڑ پڑیں گے! پھر یا تو کسی دن تھپڑوں سے بچت ہو جاتی ہے یا تھپڑ توقع سے کم پڑتے ہیں! یوں خوش ہوتا ہوں اور زندگی سے لطف اندوز ہوتا ہوں! نفسیاتی مریض بنانے کے لیے تھانوں کچہریوں اور ٹریفک کی بھی ضرورت نہیں! صرف ہمارا پاسپورٹ ہمیں مریض بنانے کے لیے کافی ہے! جو عزت اس کی وجہ سے ہوتی ہے اس عزت کے کیا ہی کہنے! ساری دنیا میں دو یا تین ہی ملک ایسے ہیں جن کے پاسپورٹ باعزت پاسپورٹوں کی فہرست میں ہم سے نیچے ہیں! اور پھر کرنسی! بیرون ملک جا کر چائے کا ایک کپ پینے سے پہلے یا پانی کی چھوٹی بوتل خریدنے سے پہلے کیلکولیٹر پر حساب کرنے کے بعد کافی دیر سوچنا پڑتا ہے! رہا کھانا‘ تو کھانا کھانے سے پہلے کئی نفسیاتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے!
ویسے وائس چانسلر حضرات کا بھی نفسیاتی معائنہ ہونا چاہیے! کبھی داستانیں سنیں کہ جینوئین پی ایچ ڈی ڈگری رکھنے والوں پر کیا گزرتی ہے اور عقبی دروازے سے گزر کر آنے والے کس طرح اہلیت پر ڈاکا مارتے ہیں! ایک درد ناک‘ میرٹ کُش کیس کی ہوشربا تفصیلات ہمیں معلوم ہیں مگر ذرا انتظار مزید کر لیتے ہیں! کیا عجب انصاف راستہ بنانے میں کامیاب ہو جائے!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved