تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     23-09-2013

حکومت طالبان مذاکرات کا مستقبل

9ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس کے پلیٹ فارم سے طالبان(بغیر نام لیے)کو غیر مشروط بات چیت کی پیش کش کے بعدکچھ ایسے سنگین واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی روشنی میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوں گے؟اور اگر یہ مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو ان کا کیا انجام ہو گا؟ان واقعات میں سب سے زیادہ سنگین واقعہ پاکستانی فوج کے دو سینئر افسروں اور ان کے ساتھ ایک جوان کی شہادت ہے۔قوم کو اس سانحے سے جو صدمہ پہنچا وہ فطری تھا لیکن اس سے زیادہ دکھ کی یہ بات ہے کہ کوئی بھی کھل کر اس بہیمانہ قتل کی مذمت کرنے کیلئے تیار نہ تھا‘ حالانکہ قاتل کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔انہوں نے تو اس کی ذمہ داری قبول کرنے میں لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں کی اور ساتھ یہ بھی اعلان کر دیا کہ وہ اس طرح کے حملے جاری رکھیں گے۔آل پارٹیزکانفرنس کے انعقاد کے بعد چند دن کے اندر طالبان کی طرف سے ہماری سکیورٹی فورسز پر حملے کا یہ واحد واقعہ نہیں تھا بلکہ مذاکرات کی پیش کش کے اعلان کے صرف چند گھنٹے بعد تحریکِ طالبان پاکستان کی طرف سے کوہاٹ ڈسٹرکٹ پولیس آفس پر خود کش حملہ کیا گیا۔اس حملے میں پولیس کا ایک سپاہی شہید اور 13 افراد زخمی ہوئے۔حملہ آور دراصل ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی جان لینے کیلئے آئے تھے ۔ان واقعات نے پورے ملک میں غم وغصہ کے ساتھ ساتھ مایوسی اور سراسیمگی کی بھی لہر دوڑا دی ہے اور لوگ حکومت کی خاموشی اور بظاہر بے حسی پر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہماری ریاست نے تمام تر وسائل کے باوجود مٹھی بھر دہشت گردوںکے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں؟اس سوال کا کسی حد تک حوصلہ افزا جواب چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بیان میں ملتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ رہے کہ وہ بزورِ طاقت اپنی شرائط منوا سکتا ہے اور یہ کہ پاکستان کی فوج کے پاس دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے قوت بھی ہے اور جذبہ بھی۔ اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا مذاکرات ہوں گے؟ اور اگر ان کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے تو کیا یہ نتیجہ خیز ہوں گے؟ اس سوال کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ ہاں مذاکرات ضرور ہوں گے۔ایک جنرل اور ایک کرنل کی شہادت پر بھی حکومت کی طرف سے سخت ردِ عمل نہ آنے کا مطلب یہی ہے کہ حکومت ہر قیمت پر مذاکرات چاہتی ہے کیوں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختون خوا میں برسرِاقتدار پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات ان کے قومی سیاسی موقف (Narrative) کی اساس ہیں۔اگران پارٹیوں کی یہ کوشش ناکام رہتی ہے اور طالبان کے حملے جاری رہے تو قومی ترقی کے دیگر شعبوں خصوصاََ معیشت میں ایک قدم بھی آگے بڑھانا دشوار ہو گا‘ کیونکہ دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم تحفظ کے احساس نے نہ صرف ملک کے اندر کاروباری سرگرمیوں کو ٹھپ کر دیا ہے بلکہ بیرونی سرمایہ کار بھی پاکستان میں سرمایہ کاری سے ڈرتے ہیں۔اب حالت اگر یہ ہو کہ ملکی سرمایہ دار بھی سرمایہ کاری سے ہچکچا رہے ہوں اور باہر سے سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہو،تو معیشت کیسے ترقی کر سکتی ہے۔حکمران پاکستان مسلم لیگ(ن) کے لیے یہ صورتِ حال انتہائی پریشان کن اور تقریباً ناقابلِ قبول ہے‘ کیونکہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران میں قوم سے مہنگائی اور بیروزگاری ختم کرنے،بجلی اور گیس کے بحران پر قابوپانے اور ملک میں پیداواری شرح بڑھانے کے وعدے کررکھے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آل پارٹیزکانفرنس کے اگلے روز یعنی10ستمبر کو وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں وفاقی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کو موجودہ حالات سے باہر نکالنے کا واحد راستہ معاشی ترقی کا ہے لیکن دہشت گردی اور انتہا پسندی ملک میں معاشی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ طالبان کے ساتھ جنگ بندی اور مذاکرات مسلم لیگ(ن)کی مجبوری (Compulsion)بن چکے ہیں کیوں کہ حکومت کراچی اور بلوچستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظرطالبان کے خلاف ملٹری آپریشن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)سے زیادہ پاکستان تحریکِ انصاف کیلئے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اور ان کی کامیابی ضروری ہے‘ کیونکہ اس پارٹی کی سیاست کا کلی دارومدار طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ان کو قیامِ امن پر راضی کرنے پر ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ انتخابات خصوصاََ خیبر پختون خوا میں ان کی کامیابی دراصل عوام کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں مینڈیٹ کے مترادف ہے۔حالانکہ خیبر پختون خوا کے عوام نے حقیقت میں امن اور تحفظ کیلئے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ہے۔اس سے قبل اس مقصد کے لیے انہوں نے اے این پی کو ووٹ دیا تھا کیوں کہ متحدہ مجلس عمل کے پانچ سالہ دورِ حکومت (2007ء2002-ء) کے دوران میں صوبے کا کوئی علاقہ یا حکومت کا کوئی شعبہ ایسا نہیںتھا جہاں جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ق)کی اعانت سے طالبان اور جہادی تنظیموں نے اپنے جھنڈے نہ گاڑے ہوں۔اس صورتِ حال سے گھبراکر عوام نے اے این پی کو ووٹ دیا لیکن اے این پی طالبان او ر دہشت گردوں کی یلغار کے آگے بند باندھنے میں کامیاب نہ ہوسکی اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے خود عدمِ تحفظ کا شکار ہو گئی۔600سے زائد کارکنوں‘ جن میں بشیر احمد بلور جیسے سینئر رہنما بھی شامل ہیں،کی جانوں کی قربانی کے بعد اے این پی کی صفوں میں خوف کا یہ عالم تھا کہ اس کے امیدوار اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے باہر نکلنے کی جرأت نہ کر سکے اور اس کا رہنما اسفند یار ولی خاں اپنا حلقہ چھوڑ کر اسلام آباد میں ایوانِ صدر میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔ان حالات میں خیبرپختون خواہ کے عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا‘ کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ عمران خان کو مقتدر حلقوں کی آشیرِباد حاصل ہے اور طالبان بھی اس پر اپنے اعتماد کا اظہار کر چکے تھے۔خیبر پختون خوا بلکہ پورے ملک کے عوام امن،تحفظ اور دہشت گردی سے نجات چاہتے ہیں،خواہ یہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حاصل ہو یا ان کے خلاف طاقت کے بھر پور استعمال سے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ یہ مقصد بات چیت سے حاصل ہو سکتا ہے اور اس ایک دعوے پر اس نے اپنا سیاسی مستقبل دائو پر لگا رکھا ہے۔اسے معلوم ہے کہ اگر یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا تو خیبر پختون خوا میں اس کا وہی حشر ہو گا جو اے این پی کا ہوا تھا۔ دوسری طرف طالبان میں بھی مذاکرات اور جنگ بندی کے حق میں رائے کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ گزشتہ تقریباً ایک برس کے عرصہ میں طالبان کی طرف سے تین مرتبہ مذاکرات کی پیش کش ہو چکی ہے‘ لیکن سابق حکومت کے ساتھ ان کے مذاکرات اس لیے شروع نہ ہو سکے کیونکہ یہ پیش کش مشروط تھی اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان شرائط کو مسترد کر دیا تھا۔اب جوں جوں سال2014ء نزدیک آرہا ہے، طالبان اپنی صفوں کی ازسرِ نو ترتیب ہی نہیں بلکہ ان میں اضافہ کے بھی خواہشمند ہیں۔اس لیے انہوں نے اپنے چار ہزار سے زائد قیدی ساتھیوں کی رہائی کا اور پاکستانی فوج کے ہاتھوں اٹھنے والے نقصانات کی تلافی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔طالبان کو یقین ہے کہ ان کے ساتھ مذاکرات اور صلح حکومت کی سیاسی مجبوری ہے اس لیے وہ اپنے مطالبات منوانے کیلئے حکومت پر اپنے دبائو میں مزید اضافہ کریں گے‘ جن میں سکیورٹی فورسز اور چیک پوسٹوں پر حملے بھی شامل ہیں۔آل پارٹیز کانفرنس کی متفقہ قراردادکی وجہ سے حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور اس کے سامنے سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ ’’امن مذاکرات‘‘ کی خاطر دہشت گردوں کے ہر مطالبے کو تسلیم کرتے جائیں جنہیں وہ ’’اپنے آدمی‘‘ کہہ چکے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved