تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-06-2023

کون اپنا، کون پرایا؟

ایک عمر گزر جاتی ہے یہ سوچتے سوچتے کہ اپنا کون ہے اور پرایا کون۔ کیا واقعی اپنے اور پرائے میں فرق کی تمیز ایسا ہی مشکل کام ہے؟ کسی بھی انسان کے لیے کوئی آسان طریقہ نہیں جس سے وہ اندازہ لگاسکے کہ کون اُس کے لیے واقعی اپنا ہے اور کون پرایا؟ مروّج معنوں میں تو اپنا وہ ہے جس سے خون کا یا نسبتی رشتہ ہو یا پھر گہرا قلبی تعلق ہو۔ کبھی کبھی اپنے یعنی انتہائی قریبی رشتہ دار بھی اپنے ہوکر اپنے نہیں رہتے اور کبھی کبھی کوئی بالکل غیر بھی ہمارا اپنا ثابت ہوتا ہے۔ کون کیا ثابت ہوتا ہے اس کا مدار اس بات پر ہے کہ کسی خاص کیفیت میں اس کی طرزِ فکر و عمل کیا ہوتی ہے۔ اگر آپ کسی بڑی مشکل سے دوچار ہوں اور خود کو بند گلی میں محسوس کر رہے ہوں تو آپ کو اس بند گلی سے نکلنے میں مدد دینے والا ہی اپنا دکھائی دیتا ہے۔ مشکل گھڑی میں مدد کے لیے آگے بڑھنے والے ہی کو اپنا گرداننا بالکل فطری ہے۔
کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں انسان جب کسی مددگار کو پالیتا ہے تو وہ مددگار ہی اُسے سب کچھ دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ بدیہی طور پر یہ بات حیرت انگیز ہے نہ قبیح۔ کوئی کیسے ہی کردار کا حامل ہو اور لوگوں میں اس کی شہرت چاہے جیسی بھی ہو، اگر وہ مشکل میں کام آئے تو انسان کے لیے اس سے اچھا کوئی نہیں ہوتا۔ بدیہی طور پر یہ معقول بات ہے مگر پوری دیانت سے تجزیہ کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کسی کو اپنا سمجھنے اور بنانے کا یہ حتمی اور قابلِ اعتبار معیار نہیں۔ خالص معروضی انداز سے سوچئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے اور پرائے کا حقیقی تصور مروّج تصور سے بہت مختلف ہے۔ عمومی سطح پر ہم کسی کو اس بنیاد پر دیکھتے اور پرکھتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کیا کرسکتا ہے۔ اگر کوئی مشکل وقت میں ہماری فوری مدد کردے تو وہ ہمارا ہوتا ہے۔ (ایسے میں دیگر تمام امور بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں۔) بصورتِ دیگر وہ اپنا ہوکر بھی اپنا نہیں ہوتا۔ کیا واقعی کسی کو اپنا سمجھنے یا نہ سمجھنے کا معیار یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے فوری طور پر کیا کرسکتا ہے یا کیا کر رہا ہے؟
کسی مشکل گھڑی میں انسان کی سوچ خاصی مختلف ہوتی ہے۔ جب وہ مشکل رفع ہو جاتی ہے تب سوچ بھی معمول پر آجاتی ہے۔ عمومی کیفیت میں انسان ہر معاملے کو ایک الگ ہی نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ہنگامی صورتِ حال میں ذہن کسی اور ڈھنگ سے کام کرتا ہے۔ تب ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں اور اہداف بھی۔ اسی بنیاد پر پسند و ناپسند کے تعین کا معیار بھی تبدیل ہوتا ہے۔ معیاری انداز سے جینا ہے تو ہمیں حقیقت پسندی اور معروضیت کے دائرے میں رہتے ہوئے طے کرنا ہوگا کہ حقیقی معنوں میں ہمارے لیے اپنا کون ہے اور پرایا کون۔ زندگی کو ایک بہت بڑی مہم یا تحریک کے طور پر قبول کرنے والے کتنے ہیں؟ خال خال! زندگی کے بارے میں مکمل یا معقول حد تک سنجیدگی اختیار کرنے پر آمادگی ظاہر کرنے والے کتنے ہیں؟ اِکّا دُکّا۔ کسی بھی معاشرے میں عمومی کیفیت یہی ہے۔ ہاں‘ ترقی یافتہ معاشروں میں چونکہ بہتر زندگی ممکن بنانے کے وسائل بہت زیادہ اور آسانی سے دستیاب ہیں اس لیے وہاں عام آدمی کی یعنی عمومی فکری سطح بھی خاصی بلند ہوتی ہے۔ وہاں کسی کو آگے بڑھنے کے لیے سہارے تلاش نہیں کرنا پڑتے۔ اگر مدد لینی بھی ہو تو بہت بعد کے مرحلے میں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ عمومی سطح پر تو سبھی کے لیے ریاست کی طرف سے پُرکشش مواقع کی آسانی سے فراہمی یقینی اور ممکن بنائی جاتی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں لوگ معیاری انداز سے جینے کا عزم کرلیں تو پہلے قدم ہی پر دانتوں پسینہ آجاتا ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ یہاں امکانات تلاش کرنا پڑتے ہیں اور پھر اُنہیں بروئے کار لانے کے لیے شدید جاں گُسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر شعبے میں کرپشن اِتنی زیادہ ہے کہ حقیقی اور بارآور مواقع ڈھونڈ نکالنا بجائے خود ایک مشق بلکہ مشقّت ہے! ایسے میں یہ طے کرنا لازم ہے کہ ہمارے لیے کون واقعی اپنا ہے اور کون پرایا۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ چند معاملات آپ کو فوری فائدہ پہنچاتے ہیں جو قدرے چھوٹا ہوتا ہے جبکہ بعض معاملات آپ کو کچھ مدت کے بعد فائدہ پہنچاتے ہیں؛ تاہم یہ فائدہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ اگر کسی کو فوری طور پر کچھ رقم درکار ہو تو اُس کی مدد کرنے والا اہم ہے مگر اصل اہمیت اس انسان کی ہے جو متعلقہ فرد کو معاشی طور پر اتنا مضبوط بننے میں مدد دے کہ وہ کسی سے مدد مانگنے والی کیفیت سے دوچار ہی نہ ہو۔
آپ کا حقیقی ہمدرد وہ ہے جو آپ کی تمام مشکلات اور کمزوریوں کے بارے میں جاننے کا خواہش مند ہو اور جب آپ کے بارے میں بہت کچھ جان لے تو آگے بڑھ کر تدارک کی بھی کوئی صورت نکالنے میں دلچسپی لے۔ آپ کی خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرکے آپ پر طعنہ زن ہونے والے تو بہت ہوں گے مگر ایسے لوگ خال خال ہی دکھائی دیں گے جو واقعی آپ کا بھلا چاہتے ہوں گے۔ جو بھی آپ کا بھلا چاہتا ہوگا وہ آپ کو آپ کی خامیوں اور کمزوریوں کے بارے میں ضرور بتائے گا؛ تاہم طعن و تشنیع سے گریز کرے گا۔ تنقید بھی کرے گا تو سوچ سمجھ کر اور تعمیری انداز سے تاکہ آپ اپنی اصلاح پر مائل ہوں نہ کہ محض بددل و بدگماں ہوکر رہ جائیں۔ ایسا ہر انسان آپ کے لیے خالصتاً اپنا ہے جو آپ کی زندگی میں معنویت پیدا کرنے پر یقین رکھتا ہو اور آپ کو زندگی کی مقصدیت کا قائل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہو۔ فی زمانہ اچھا دوست ملنا بہت مشکل ہے۔ اچھا دوست یا خیر خواہ محض وہ نہیں جو آپ کی کسی فوری ضرورت کو پورا کرے۔ مشکل گھڑی میں کسی کی طرف سے مدد کا ملنا اچھی بات ہے اور ایسے کسی بھی انسان کا احترام کیا ہی جانا چاہیے؛ تاہم زیادہ احترام اُن کا کیا جانا چاہیے جو آپ کی زندگی کا معیار بلند کرنے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہوں۔
نپولین ہل کا شمار شخصی ارتقا کے موضوع پر لکھنے والے صفِ اول کے مصنفین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مختلف شعبوں کی 500 نمائندہ (کامیاب) شخصیات کے انٹرویوز سے عملی دانش کشید کرکے ''The Law of Success‘‘ (کامیابیوں کے اصول یا آئین) کے نام سے شاندار کتاب مرتب کی تھی۔ بعد میں اس ضخیم کتاب کی بنیاد پر ایک چھوٹی کتاب مفادِ عامہ میں شائع کی گئی جس کا نام ''Think and Grow Rich‘‘ رکھا گیا۔ اس کتاب کا کم و بیش تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اِس ایک کتاب کو پڑھ کر اپنی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں یقینی بنانے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ نپولین ہل نے شاندار اور مثالی نوعیت کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے 16 اصول پیش کیے ہیں۔ یہ اصول انہوں نے 500 شخصیات کے انٹرویوز ہی سے کشید کیے ہیں۔ اِن میں ایک اصول ماسٹر مائنڈ گروپ بھی ہے۔ ہم خیال لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھانے ہی سے انسان اپنے شعبے میں تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ آپ بھی اپنے شعبے میں تیز رفتار پیش رفت یقینی بنانا چاہتے ہیں تو ایسے لوگ تلاش کرنا ہوں گے جن سے آپ کی ذہنی ہم آہنگی ہو۔ اگر آپ مثبت طرزِ فکر کے حامل ہیں تو مثبت طرزِ فکر کے حامل افراد تلاش کیجیے، اُن سے ربط بڑھائیے، اُن سے مل کر کام کرنے کی کوشش کیجیے، اُن سے مدد لیجیے یا اُن کی مدد کیجیے۔ یہی لوگ ہیں جو آپ کے لیے اپنے ہیں۔ اِن سے ربط بڑھاکر آپ عملی زندگی میں زیادہ دور تک جاسکتے ہیں۔ محض رشتے یا تعلق کی بنیاد پر ہر ایک کو اپنا سمجھ لینا نری سادہ لوحی ہے۔ اگر آپ اپنے شعبے میں نام کمانے کے واقعی خواہش مند ہیں اور اپنے نقوش چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں سے میل جول رکھنا ہوگا جو زندگی کا معیار بلند کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوں اور دوسروں کو بھی اپنے جیسا بنانا یا دیکھنا چاہتے ہوں۔
نئی نسل یاد رکھے کہ حلقۂ احباب سوچ سمجھ کر ترتیب دینا ہے۔ منفی سوچ رکھنے والوں سے دور رہنا ہے اور مثبت سوچ کے حامل افراد کو اپنانا ہے۔ ایسے لوگ ہی اپنے ہیں کیونکہ یہ اپنی طرزِ فکر سے آپ کی زندگی میں بھی معنویت پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved