پاکستان اس وقت‘ بالخصوص 9اور 10مئی کے واقعات کے بعد جس صورتحال سے دوچار ہے‘ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک عمیق نظر اور دور اندیشانہ سوچ رکھنے والے لکھاری نے چند روز پیشتر اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اس بحران میں سب سے زیادہ نقصان جمہوری اور سول قوتوں کو پہنچا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتی ہوئی لڑائی اور عدم اعتماد کی وسیع خلیج نے ملک کو سویلین بالا دستی کی منزل سے اور بھی دور کر دیا ہے۔ سیاسی قوتوں کی آپس کی لڑائی نے غیر سیاسی قوتوں کو اپنی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے کا موقع دیا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال اپوزیشن پارٹی کی حکومت کے بجائے مقتدرہ سے ہاتھ ملانے اور معاملات طے کرنے کی مسلسل پالیسی ہے۔
پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت کو کوئی پسند کرے یا نہ کرے‘ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ یہ ایک آئینی اور قانونی حکومت ہے جسے ملک سے باہر ریاستِ پاکستان کی نمائندگی کا اور ملک کے اندر سیاست کے تمام اختیارات کے استعمال کا حق حاصل ہے۔ بین الاقوامی برادری اور ادارے‘ جن میں قومی ادارے مثلاً عدلیہ‘ مقننہ اور انتظامیہ شامل ہیں‘ موجودہ حکومت کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ صرف پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم حکومت کے اس حق کو نہ صرف تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس حق کے استعمال کے راستے میں رکاوٹیں بھی ڈالتے ہیں۔ ان کے نزدیک انہیں ایک سازش کے تحت اقتدار سے ہٹایا گیا ہے اور موجودہ حکومت کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر عوام پر مسلط کیا گیا ہے اور یہ کہ موجودہ حکومت چوروں‘ ڈاکوئوں اور کرپٹ مافیا کے سوا کچھ نہیں‘ اس لیے اس کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا بالکل جائز نہیں۔
کسی بھی ملک میں اپوزیشن کا اگر یہ موقف ہو تو سیاسی استحکام کیسے لایا جا سکتا ہے؟ اور کیا یہ طرزِ عمل بغاوت کے مترادف نہیں؟ دوسری طرف حکمران اتحاد میں شامل گیارہ سیاسی پارٹیوں کی حکومت ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی قوم کو ایک واضح سمت دینے اور روشن مستقبل کی امید فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور ایک سال پہلے کے مقابلے میں عوام کو نہ صرف زیادہ مہنگائی اور بے روزگاری کا سامنا ہے بلکہ بعض اہم قومی مسائل پر دوٹوک فیصلہ کرنے میں ناکامی سے قوم میں موجودہ حالات سے بیزاری اور مستقبل سے مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔
ان اہم مسائل میں بلا شبہ قومی انتخابات کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کے لیے ہر حربہ استعمال کیا‘ مگر انہیں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ ان کی ناکامی کی ایک وجہ یہ تھی کہ وقت پر یعنی اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد انتخابات پر اصرار نہ صرف آئینی اور قانونی طور پر جائز تھا بلکہ اس موقف کی بنیاد پر حکومت ایک ہائی مورال گرائونڈ پر کھڑی تھی‘ لیکن قومی انتخابات کے بروقت انعقاد پرگومگو کی پالیسی سے یہ ہائی مورال گرائونڈ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کے پائوں کے نیچے سے کھسکتی جا رہی ہے۔ پی ڈی ایم کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمن نے اپنے حالیہ دورۂ لاہور کے دوران وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اکتوبر‘ نومبر میں آئین کے مطابق قومی انتخابات کے انعقاد پر سوال کا دوٹوک اور واضح جواب دینے سے احتراز کیا‘ بلکہ یہ کہہ کر کہ ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانا زیادہ ضروری ہے‘ اس سال قومی انتخابات کے انعقادکو مشکوک بنا دیا ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں الیکشن کمیشن کی طرف سے عدالتِ عظمیٰ کے 4 اپریل (پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے انتخابات) کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھی جناب چیف جسٹس کے سوال پر 8اکتوبر کو عام انتخابات کروانے کی یقین دہانی سے انکار کر دیا تھا‘ مگر مولانا فضل الرحمن کے بیان سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل کچھ جماعتیں انتخابات کو مؤخر کرنا چاہتی ہیں۔
اس صورتحال میں وزیراعظم شہباز شریف پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں مزید تاخیر کیے بغیر واضح اور دوٹوک بیان دینا چاہیے کہ انتخابات ہر حالت میں اپنے وقت پر ہوں گے۔ اس سے پاکستان کے سیاسی افق پر چھائی ہوئی غیریقینی کی دھند صاف ہونے میں مدد ملے گی۔ بصورتِ دیگر مختلف قسم کی قیاس آرائیاں جنم لیں گی اور حکومت مخالف عناصر کو الزام عائد کرنے کا موقع ملے گا کہ حکومت شکست کے خوف سے انتخابات سے بھاگ رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جہاں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کی شب و روز کی محنت سے پچھلی حکومت کے مقابلے میں کہیں زیادہ خیر سگالی‘ قبولیت اور ستائش حاصل ہوئی ہے‘ پر بھی حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وزیراعظم کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انتخابات کو مؤخر کرنے سے نہ صرف حکمران اتحاد میں دراڑ پڑ سکتی ہے کیونکہ اس میں شامل بعض پارٹیاں وقت پر انتخابات کے حق میں ہیں بلکہ پی ڈی ایم کی کئی رکن پارٹیوں میں دھڑے بندی بھی جنم لے سکتی ہے کیونکہ بعض پارٹیوں میں بھی انتخابات کے انعقاد کے مسئلے پر اختلافات ہیں۔ حکمران اتحاد میں شامل سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) کو اس ضمن میں بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ایک سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ایک بیان سامنے آیا ہے‘ جو انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کے بعد جاری کیا ہے۔ اس بیان میں انہوں نے صاف کہا ہے کہ اگر قومی انتخابات کا انعقاد بروقت عمل میں نہ آیا تو اس کے نہایت خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ مگر بعض رہنما ان کے برعکس انتخابات میں تاخیر کا اشارہ دے چکے ہیں۔ اس کے باوجود امید کی جا سکتی ہے کہ پی ڈی ایم کی سب سے بڑی رکن پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) حکمران اتحاد میں شامل دیگر تمام پارٹیوں کو راضی کرکے انتخابات کی طرف رخ کرنے پر آمادہ کرے گی کیونکہ مسلم لیگ (ن) دیگر تمام پارٹیوں میں واحد پارٹی ہے جس نے ماضی میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے ان سے سبق سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے سینئر رہنمائوں مثلاً خواجہ سعد رفیق‘ احسن اقبال‘ خرم دستگیر‘ شاہد خاقان عباسی اور سب سے بڑھ کر اس کے قائد میاں محمد نواز شریف کے بیانات کو سامنے رکھا جائے تو صاف معلوم ہو گا کہ پارٹی تاریخ کے دھارے کے مطابق اپنے آپ کو ایک نئے رول میں ڈھالنے پر تیار ہے۔ خود وزیراعظم شہباز شریف اپنے اس یقین کا بارہا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان کے مسائل اتنے پیچیدہ اور گمبھیر ہیں کہ انہیں حل کرنا ایک پارٹی کے بس کا کام نہیں اور سب کو مل کر ملک کی کشتی کو موجودہ خطرناک بھنور سے نکالنا ہو گا‘ لیکن ان کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ ایک تو پی ٹی آئی کی طرف سے ہٹ دھرمی اور محاذ آرائی پر مبنی موقف ہے اور دوسرے 9اور 10مئی کو ہونے والے واقعات کے بعد ان افراد کو قرار واقعی سزا دینے پر اصرار ہے جنہوں نے عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کریک ڈائون کا براہِ راست ہدف پی ٹی آئی ہے اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا کیونکہ آرمی تنصیبات‘ شہدا کی یادگاروں اور سینئر افسران کی رہائش گاہوں پر حملوں اور انہیں نقصان پہنچانے پر فوج میں بجا طور پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود سیاست دانوں کو مل کر اس بحران کو حل کرنا ہو گا اور اس کے لیے بروقت انتخابات ضروری ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved