تحریر : ڈاکٹر صوفیہ یوسف تاریخ اشاعت     09-06-2023

حیدر علییف کا وژن اور ابھرتا ہوا آذربائیجان

آذربائیجان میں بابا کے نام سے یاد کیے جانے والے حیدر علییف (1923-2003ء) نے آدھی صدی سے زیادہ قومی سطح پر اپنے عوام اور اس کے معاشرتی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کی۔ 2023ء کو حکومتی سطح پر حیدر علییف کا سال قرار دیا گیا۔ 1969ء سے 1982ء تک سوویت آذربائیجان کی قیادت کرنے والے حیدر علییف 1987ء تک سوویت یونین کے پہلے نائب وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ انہوں نے آذربائیجان کی آزادی اور ترقی کے لیے ایسے دور رس فیصلے اور اقدامات کیے جن کی بدولت آذربائیجان نہ صرف ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن ہوا بلکہ اس وژنری لیڈر نے ایک ایسا روشن خیال معاشرہ تشکیل دیا جس کی بنیاد رواداری اور برداشت پر رکھی گئی ہے۔ آذربائیجان متنوع نسلی گروہوں کی ایک طویل اور بھرپور تاریخ رکھتا ہے۔ وہاں اس وقت 649 سے زیادہ مذہبی کمیونیٹز رجسٹرڈ ہیں اور ساٹھ سے زیادہ مختلف نسلی گروہوں کا یہ ملک ہے لیکن اس کے باوجود یہ ملک اپنے ہر شہری کو برابری کی حقوق دیتا ہے۔
حیدر علییف نے اپنے دورِ صدارت (1993-2003ء) کے دوران برداشت‘ احترام اور رواداری کے نظریے کو عملاً فروغ دیا۔ وہ ایک ایسے معاشرے کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوئے جہاں مختلف نسلی‘ مذہبی اور ثقافتی پس منظر کے لوگ ہم آہنگی و امن کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کا وژن ایک جامع معاشرہ تشکیل دینا تھا جہاں تنوع کی اہمیت کو سمجھا جائے اور عام افراد کی شراکت کو قدرکی نگاہ سے دیکھا جائے۔ علییف کا یہی نظریہ آذربائیجان کی سماجی ساخت کا ایک اہم پہلو ہے۔
1991ء میں سوویت یونین کے انہدام سے جہاں جنوبی قفقاز کے ممالک بشمول آذربائیجان کو آزادی ملی وہیں بہت سے اہم مسائل نے بھی سر اٹھایا۔ ان مسائل میں نسلی اور علاقائی تنازعات بھی شامل رہے۔ 1988ء میں سوویت یونین کے ایماء پر آرمینیا نے نگورنوکاراباخ پر مسلح حملہ کر دیا جس کی وجہ سے 10لاکھ سے زیادہ آذربائیجانی آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی اور ہزاروں بے گناہ لوگوں کو قتل کردیا گیا۔ آرمینیا کی اس جارحیت پر آذربائیجان کے لیڈر اور سوویت کمیونسٹ پارٹی کے فرسٹ سیکریٹری حیدر علییف نے شدید احتجاج کیا۔ اسی دوران جنوری 1990ء میں سوویت فوج نے باکو میں حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر کریک ڈاؤن کیا جس میں 147 سے زیادہ پُر امن مظاہرین ہلاک‘ 800 سے زیادہ زخمی ہوئے اور مظاہرے میں حصہ لینے والوں کی ایک بڑی تعداد لاپتہ ہوگئی جن کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ حیدر علییف نے اس واقعہ میں ملوث سوویت فوجیوں کو پھانسی کی سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجاً پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ماسکو سے اپنے آبائی شہر نخچوان (Nakhchivan) چلے گئے۔ ملکی حالات روز بروز خراب ہوتے جارہے تھے۔ ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا تھا اور لگتا یہ تھا کہ آذربائیجان نہ صرف اپنی آزادی کھودے گا بلکہ اس کے حصے بخرے کر دیے جائیں گے ایسے میں عوام کے پُرزور مطالبے پر حیدر علییف نے 1993ء میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ انہوں نے سیاسی اور معاشی بحران کے دور میں ملک کو مستحکم کرنے کے لیے ایک طرف اقتصادی اصلاحات نافذ کیں اور آذربائیجان کے تیل و گیس کے شعبہ میں غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف 1994ء میں انہوں نے آرمینیا کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے۔ جنگ بندی کے اس عمل کو ان کے ناقدین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ حیدر علییف کا وہ فیصلہ آذربائیجان کی سالمیت اور ترقی کے حق میں بہترین ثابت ہوا۔ وہ عالمی سطح پر ایک ایسے لیڈر کے طور پر ابھرے جس نے پُرامن بقائے باہمی پر زور دیا اور آذربائیجان کی شناخت ایک کثیر الثقافتی معاشرے کے طور پر تعمیر کی۔ ان کا ماننا تھا کہ دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے‘ ہر فرد کو خواہ اس کا پس منظر کوئی بھی ہو اسے اپنی ثقافت‘ مذہب اور زبان کے اظہار کی آزادی ہونی چاہیے۔ حیدر علییف تمام عمر مذہبی و نسلی امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے کوشاں رہے‘ یہ ان کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آذربائیجان کے آئین میں تمام شہریوں کو مساوات کے اصول پر یکساں حقوق حاصل ہیں۔ان کی قیادت میں آذربائیجان کے ثقافتی ورثے کے احیا کی کامیاب کو شش کی گئی اور قوم کی متنوع روایات‘ موسیقی‘ ادب اور فن کو عالمی سطح پر متعارف کروایا گیا۔ اس ثقافتی نشاۃ ثانیہ نے نہ صرف ملک کے اندر بندھنوں کو مضبوط کیا بلکہ عالمی سطح پر آذربائیجان کا مثبت امیج بھی پیش کیا۔ مزید برآں ان پالیسیوں نے اقتصادی ترقی اور استحکام کیلئے سازگار ماحول کو فروغ دیا جس سے ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ حیدر علییف نے چھ ممالک کی 11تیل کمپنیوں کے کنسورشیم کے ساتھ ستمبر 1994ء میں سو سال کا معاہدہ کیا۔ یہ پیداواری شراکت داری کا زمینی معاہدہ تھا۔ اس معاہدے سے ملک میں تین بڑی آئل فیلڈز کی تعمیر نو اور آئل ریفائنرز کی تعمیر شامل تھی۔ اس طرح قدرتی گیس اور تیل کے ملکی وسائل کو ترقی دینے کیلئے بڑے منصوبوں کا آغاز ہوا۔ ان منصوبوں میں باکو تبلیسی‘ سیہان تیل پائپ لائن منصوبہ اور باکو‘ تبلیسی‘ کارس ریلوے منصوبہ بھی شامل تھے جنہیں ان کے جانشین الہام علییف نے مکمل کیا۔ یہ منصوبے آذربائیجان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
خارجہ پالیسی کے لحاظ سے حیدر علییف نے بین الاقوامی سطح پر آذر بائیجان کی پوزیشن کو مضبوط کیا۔ انہوں نے پڑوسی ممالک بالخصوص ترکی کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے اور روس کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری برقرار رکھی۔ ان کے جا نشین الہام علییف نے 2003ء میں آذربائیجان کے صدر کا عہدہ سنبھالا اور اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملک کی ترقی و استحکام کے لیے رواداری کی پالیسی پرگامزن ہیں۔ نگورنو کاراباخ تنازع ایک بار پھر 2020ء میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان بڑے پیمانے پر جنگ کا باعث بنا۔ چھ ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ کے نتیجے میں آذربائیجانی افواج نے خطے کے ان اہم حصوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا جو آرمینیائی افواج کے قبضے میں تھے۔ اس میں نگورنو کاراباخ کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں سے باہر کے علاقے بھی شامل تھے۔ آذربائیجانی فوج کی اس کامیابی نے آرمینیا کو جنگ بندی پر مجبور کردیا اور 10نومبر 2020ء کو روسی ثالثی میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ برسوں بعد جب آذربائیجان کے موجودہ صدر اور حیدر علییف کے فرزند الہام علییف آزاد کرائے گئے کاراباخ کے مرکزی شہر ''شوشا‘‘ میں داخل ہوئے تو دنیا کو بتا دیا کہ یہ کامیابی حیدر علییف کے اس وژن کی فتح ہے کہ اس وقت جب ملک کمزور تھا تو انہوں نے جنگ بندی معاہدہ کیا‘ ملک کو معاشی اور فوجی طور پر اتنا مضبوط بنادیا کہ آرمینیا نے جب دوبارہ جارحیت کی کوشش کی تو نہ صرف اس شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ حیدر علییف کے جانشین نے ثابت کیا کہ ان کا ملک اب اتنا مضبوط ہے کہ وہ اپنی سرحدی سالمیت کی حفاظت اور اپنے مقبوضہ علاقے واپس لینے میں کامیاب رہا ہے۔ 2023ء کو حیدر علییف کا سال قرار دیتے ہوئے آذربائیجانی عوام اپنے ویژنری لیڈر کو مختلف پلیٹ فارمز سے زبردست خراج تحسین پیش کررہی ہے۔ آذر بائیجان پاکستان کا دوست ملک ہے ہم بطور پاکستانی اس موقع پر آذربائیجانی قوم کی خوشیوں میں نہ صرف برابر کے شریک ہیں بلکہ پُر امید ہیں کہ خصوصاً رواں سال دونوں ممالک پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان حکومتی سطح پر دوستی کے تابناک مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقتصادی تعاون کو مزید بڑھانے کے ساتھ ساتھ سائنسی و سماجی علوم‘ ثقافتی تبادلے خصوصاً ادب‘ فلم‘ موسیقی کے میدان میں تعاون بڑھانے کیلئے باثمر کوششیں کی جائیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved