تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     09-06-2023

سات ناراض بہنیں

آپ کو کالم کی سرخی یقینا عجیب لگ رہی ہو گی لیکن جب اس کی تفصیل پتا لگے گی تو آپ کو یہ سمجھ آنے لگی گی۔ یہ قصہ بھارت کے اُس علاقے کا ہے جو جغرافیائی لحاظ سے اس سے تقریباً الگ تھلگ ہے۔ آپ نے ''Chicken Neck‘‘ یعنی 'مرغی کی گردن‘ کی اصطلاح سن رکھی ہو گی۔ یہ کسی کے کمزور پوائنٹ سے متعلق استعمال ہوتی ہے۔ بھارت میں بھی ایک علاقائی پٹی کو چکن نیک کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل بھارت میں تقریباً بیس کلومیٹر چوڑا وہ علاقہ ہے جس کے ذریعے اس کا رابطہ سات ریاستوں سے ہو پاتا ہے۔ آپ نقشے کو سامنے رکھے بغیر اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ نیپال اور بنگلہ دیش بھارت کے پڑوسی ہیں جو لگ بھگ آمنے سامنے ہیں اور ان کے مابین بھارت کا بیس کلو میٹرکا ایک کوریڈورنما راستہ حائل ہے‘ یہی راستہ باقی بھارت کا سات شمال مشرقی ریاستوں؛ آسام، میگھالیہ، منی پور،ناگالینڈ، میزورام، تری پورہ اور اروناچل پردیش سے رابطہ بحال رکھتا ہے۔ چین کیساتھ پائی جانیوالی بھارتی کشیدگی کی وجہ سے ماہرین یہ بات شدت سے کہتے ہیں کہ چین نیپال کے راستے جب چاہے اس بیس کلومیٹر راستے کو قابو کر کے ان سات ریاستوں کو بھارت سے علیحدہ کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کی ان سبھی ریاستوں میں مسلح علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سات ریاستوں کو ''سات ناراض بہنیں‘‘ کہا جاتا ہے جو زمین کے بٹوارے کے علاوہ بھارت سے علیحدگی بھی چاہتی ہیں۔ گزشتہ ماہ کی تین تاریخ سے منی پور ریاست فسادات کی آگ میں جھلس رہی ہے، اب تک سینکڑوں افراد ہلاک اور 35ہزار سے زائد بے گھر ہوچکے ہیں۔یہ فسادات دو بڑے گروہوں میں جاری لڑائی سے شروع ہوئے جبکہ اب ایک مزید گروہ ابھرا ہے جو اپنی علیحدہ ریاست او ر بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ اب یہ جھڑپیں ہندو‘ عیسائی فسادات میں ڈھل رہی ہیں۔
دہائیوں کی دُہائی
بھارت کے اس علاقے میں کشیدگی، خراب معیشت اور سیاسی عدم استحکام کی تاریخ اور شدت بہت پرانی ہے۔ بھارت نے اپنے قیام کے وقت جن ریاستوں، جیسے سکم، حیدرآباد(دکن)، جوناگڑھ، مناودر اور جموں و کشمیر کو بزور طاقت اپنے اندر ضم کیا تھا‘ ان میں سے ایک ریاست (سکم) اسی علاقے میں ہے۔ اس علاقے کی کشیدگی اور بیگانے پن کی ایک اور مثال اس علاقے کی انتہائی کمزور معیشت ہے جس کو بہتر کرنے کے لیے بھارت سرکار نے کبھی کوئی قابلِ ذکر کوشش نہیں کی۔ اس علاقے میں منشیات کا دھندہ ایک بڑا کاروبار ہے۔ اس کے علاوہ غیر قانونی اسلحہ اور ہمسایہ ریاستوں سے غیر قانونی مہاجرین کی نقل و حرکت جیسے مسائل بھی درپیش ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان تمام ریاستوں کی 95 فیصد بیرونی سرحد دیگر ممالک کے ساتھ ملتی ہے جن میں میانمار (برما)، بھوٹان، بنگلہ دیش اور چین شامل ہیں۔ ایک اور تاریخی با ت ذہن نشیں رکھنا ضروری ہے۔ 1962ء کی چین‘ بھارت جنگ کے بعد سے اس علاقے کی ایک بڑی ریاست اروناچل پردیش کی ملکیت کا جھگڑا چل رہا ہے۔ بظاہر زیادہ تر علاقے پر بھارت کا قبضہ ہے لیکن چین اپنے نقشے میں نہ صرف اس ریاست کو اپنا حصہ دکھاتا ہے بلکہ گزشتہ کئی سالوں سے اس ریاست کے علاقوں پر اپنا کنٹرول بڑھا تا چلا جا رہا ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جس سے متعلق چند روز پہلے انڈین نیشنل کانگریس کے مرکزی رہنما راہول گاندھی نے بیان دیا تھا کہ چین نے پندرہ سو مربع کلومیٹر کے بھارتی علاقے پر قبضہ کر لیا ہوا ہے لیکن مودی سرکار اس کا ذکر تک نہیں کرتی۔ادھر آسام کی سرحدبھوٹان سے ملتی ہے جو اروناچل پردیش کے معاملے میں سرکاری طور پر چین کے موقف کی تائید کرتا ہے۔ بھوٹان اور چین کے تعلقات اتنے زیادہ گہرے ہو چکے ہیں کہ بھوٹان میں موجود بھارتی فوج‘ جو بظاہر وہاں کی حکومت کی حفاظت کے لیے تھی‘ کو اب واپس بھیجا جا رہا ہے جس کے بعد عملی طور پر یہ ملک چین کے مکمل اتحادی ملک کا درجہ اختیار کر لے گا۔ واضح رہے کہ اروناچل پردیش میں چین نہ صرف باقاعدہ بستیاں آباد کر چکا ہے بلکہ دو رابطہ سڑکیں بھی تعمیر کر چکا ہے۔
اب اس خطے کی ایک ریاست منی پور میں ہونے والی خانہ جنگی اور کشیدگی کی بات کرتے ہیں مگر اس سے پہلے ایک حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔ گزشتہ سال اس خطے کی دو ریاستوں کی آپس میں ایک جنگ نما لڑائی بھی ہو چکی ہے۔ حالات اس نہج تک پہنچ گئے تھے کہ ایک ریاست کا باشندہ دوسری ریاست میں نہیں جا سکتا تھا۔ یہ لڑائی آسام اور میزورام کے مابین ہوئی تھی۔ اس حوالے سے راقم نے ایک کالم بھی لکھا تھا۔ یو ٹیوب پر مختلف وڈیوز میں آپ دیکھ سکتے کہ ایک ہی ملک کی دو ریاستوں کے عوام کے ساتھ ساتھ ان کی پولیس بھی دو دشمن ممالک کی طرح آمنے سامنے آگئی تھی۔ اروناچل پردیش، میزورام اور آسام کے کشیدہ حالات کے بعد اب چوتھی ریاست‘ منی پور میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود کرفیو کا سماں ہے۔ ان فسادات میں متعدد بھارتی فوجی بھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بہت سے زخمی ہوئے ہیں۔ کشیدگی یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ لوگوں نے پولیس سٹیشنوں سے اسلحہ لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ جیسے پہلے ذکر ہوا کہ دو گروپ آپس میں برسر پیکار ہیں‘ جو لڑائی میں اسی سرکاری اسلحے کو استعمال کر رہے ہیں۔ اب جتنا بھی نظام بچا ہے‘ وہ صرف کرفیو اور فوجی دستوں کی وجہ سے ہے۔ اس علاقے کی مشکلات میں یہاں کا پہاڑی علاقہ مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ علیحدگی پسند مسلح گروپ اپنی کارروائیاں کرنے کے بعد گھنے جنگلات والے پہاڑوں میں غائب ہو جاتے ہیں۔اب منی پور کے لوگوں کے لیے اپنی جان بچانے کا ایک ہی حل ہے‘ وہ یہ کہ پڑوسی ملک میانمار چلے جائیں۔ لیکن وہاں اس وقت ایک فوجی ڈکٹیٹر کی حکومت ہے، دوسری طرف میانمار بھی عملی طور پر چین کے بلاک کا حصہ ہے۔ چین نے سی پیک کی طرز پر ایک روڈ منصوبہ میانمار میں بھی شروع کیا ہوا ہے اس کا نام CMEC ہے، یعنی چین‘ میانمار اکنامک کوریڈور۔ اس اہم معاشی منصوبے کے بعد عملی طور پر میانمار چین کے بلاک کا حصہ بن چکا ہے۔ اس تناظر میں منی پور کے بد حال لوگ میانمار سے بھی زیادہ توقع نہیں رکھ سکتے۔
بھارت کا نیا بلیو سٹار
بھارتی میڈیا کے لوگ منی پور ریاست کی کشیدگی کی شدت اور دورانیے کی بنا پر یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ یہ سکھوں کے گولڈن ٹیمپل کے خلاف 1984ء میں ہونے والے فوجی آپریشن ''بلیو سٹار‘‘ جیسی صورتحال بن چکی ہے۔ لیکن امرتسر کی نسبت یہاں بھارتی فوج کیلئے بہت زیادہ مشکلات ہیں۔ پنجاب میں تو سکھ ایک جگہ یعنی اپنے گوردوارے تک ہی محدود تھے،دوسری طرف ہندو آبادی مکمل طور پر سکھ مخالف تھی، یا یوں کہہ لیں کہ بھارتی فوج کو صرف سکھوں کو نشانہ بنانا تھا۔ لیکن منی پور میں بھارتی فوج کی لڑائی تمام عوام کے خلاف ہے۔ یعنی جہاں دو مخالف گروہ آپس میں لڑ رہے ہیں‘ وہیں وہ سرکاری اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اگرچہ سرکاری لوگوں کے خلاف لڑنے والے زیادہ تر علیحدگی پسند ہیں، لیکن یہ جنگجو بھی اسی ریاست کے باشندے ہیں۔ اب ایک بہت بڑا امتحان یہ ہے کہ کب، کیسے اور کتنی تعداد میں بھارتی فوج اس علاقے میں آتی ہے، جو اس شر پسندی کو عارضی طور پر سہی‘ مگر کنٹرول کر سکے۔ جمعرات کی ایک خبر کے مطابق‘ منی پور میں ایک ایمبولینس کو بھی آگ لگا دی گئی جس سے ایک ہی خاندان کے تین افراد جل کر مر گئے۔ اب آپ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ بھارت سرکار اپنے سلگتے‘ بھڑکتے ہوئے مسائل کو پس پشت ڈال کر چین مخالف امریکی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ اس علاقے میں چین کی قیادت میں جو ترقی کا ایک راستہ کھل رہا ہے‘ اس میں بھارت ایک رکاوٹ بننے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔ پہلے بھی یہ کہا جا چکا ہے کہ یہ سارا انحصار اب چین پر ہے کہ وہ بھارت کو کس طرح اور کب 'کٹ ٹو سائز‘ کرتا ہے، کیونکہ امریکہ چین مخالف سرگرمیاں بھارت ہی کی شکل میں آگے بڑھا رہا ہے۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اب بھارت کے پاس وقت بہت کم بچاہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved