جب میں رپورٹنگ کے شعبے سے وابستہ تھی تو خبر کے حصول کے لیے سب سے ملنا پڑتا تھا لیکن جب کالم نویسی کی طرف آئی تو زیادہ سوشل نہیں رہی‘ ویسے بھی مجھے اپنا گھر سب سے زیادہ عزیز تھا۔ میں نے اپنے گھر‘ اپنے شوہر کو ہر چیز پر فوقیت دی اور اپنے کیریئر کے عروج پر الیکٹرانک میڈیا کو خیرباد کہہ دیا۔ یہ سب کے لیے حیران کن تھا کیونکہ ارشد شریف بہت روشن خیال تھے اور وہ میری نوکری کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہ تو خود مجھے کہتے تھے کہ تم میں ٹیلنٹ ہے‘ چینل جوائن کرو‘ اینکرنگ کرو۔ میں کہتی تھی کہ گھر میں ایک ہی سٹار ہوتا ہے اور وہ آپ ہیں۔ مگر وہ ستارہ بجھا دیا گیا تو اب میرے گھر اور زندگی میں مکمل اندھیرا ہے۔ ارشد کے جانے کے بعد گھر ایک کھنڈر لگتا ہے اور میں نے جو کام بھی کرنا ہو‘اب نہیں ہوتا ۔ ملازمین ہونے کے باوجود اُن کے کام میں خود کیا کرتی تھی مگر اب ایسے لگتا ہے کہ جیسے کچھ بھی کرنے کو نہیں ہے۔ ان کی ہوتے ہوئے گھر میں بہت رونق ہوتی تھی‘ ان کو اور مجھے دعوتیں کرنے کا بہت شوق تھا مگر ان کے جانے کے بعد دل بجھ سا گیا ہے۔ میں نے اب آرٹیکلز لکھنا بھی خاصا کم کردیا ہے اور فوٹوگرافی کیے بھی ایک مدت ہوگئی ہے، شاید چاند کی دو‘ تین تصاویر کے علاوہ اس پورے عرصے میں مَیں نے کیمرہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ میرا حلقۂ احباب پہلے بھی محدود تھا کیونکہ میں زیادہ سوشل نہیں، اب تو بہت ہی کم کسی سے ملنا ہوتا ہے۔ البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے لوگ رابطے میں آجاتے ہیں، یا جن سے ویسے ملاقات نہ بھی ہو تو ان سب سے سوشل میڈیا پر ملاقات ہو جاتی ہے۔
چند روز قبل خبر سنی کہ ندیم افضل چن کے والد افضل چن کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ ندیم افضل چن سے شاید میں دس سال پہلے آخری بار ملی تھی، یا اس وقت ہی ان کا آخری انٹرویو کیا ہوگا، اس کے بعد ہماری کبھی بات یا ملاقات نہیں ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوا کہ ایک دوسرے کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کر دیا۔ وہ ایک وضع دار انسان اور ایسے سیاست دان ہیں جن کی عزت ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ایک سوشل میڈیا صارف نے مجھ پر بہتان تراشی کی تو ندیم افضل چن نے اس کو کہا کہ یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دو، اس پر اُس صارف نے وہ جھوٹ کا پلندہ ڈیلیٹ کر دیاتھا۔ اس دن میرے دل میں ان کا احترام مزید بڑھ گیا مگر تب بھی ہماری کوئی بات یا رابطہ نہیں ہوا تھا لیکن ان کے لیے احترام میں اضافہ ہی ہوا۔ وہ اپنے سیاسی افکار میں آزاد ہیں‘ یہ ان کی مرضی ہے وہ جس بھی جماعت میں رہیں۔ گزشتہ دنوں جس وقت وہ کربلا اور نجف کی مقدس سرزمین پر تھے تو ان کے والد کو گرفتار کرلیا گیا۔ پتا نہیں پنجاب پولیس کو کیا ہوگیا ہے۔ لوگوں کو تھانے بلایا جا سکتا ہے‘ دن کی روشنی میں بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے مگر ایسے نہیں ہو رہا۔ رات کے کسی پہر پولیس اہلکار گھروں کی دیواریں پھلانگتے ہیں‘ دروازوں کو ٹھوکریں مارتے ہیں‘ توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور پھر مطلوبہ شخص کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ پہلے ایسی فوٹیجز پڑوسی ملک سے آیا کرتی تھیں مگر اب ہمارے شہروں میں بھی یہ منظر دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاسی انتقام اُتنا ہی ہونا چاہیے جتنا کل کو خود بھی برداشت کرسکیں۔ ویسے تو سیاست میں نفرت اور انتقام ہونا ہی نہیں چاہیے‘ اس میں صرف عوامی خدمات ہی کو فوقیت دینی چاہیے۔
چیئرمین تحریک انصاف کہتے تھے کہ عثمان بزدار ''وسیم اکرم پلس‘‘ ہیں لیکن مجھے تو پنجاب پولیس میں ذرہ بھر بھی ریفارمز نظر نہیں آتیں۔ انہوں نے اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں پولیس کو عوام دوست بنانے کے لیے کیا کیا؟ چھاپہ کلچر یا لوگوں کے گھروں میں کود کر گرفتاریوں کی روایت کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا ؟ مجھے نہیں لگتا کہ اس فورس کی بہتری کے لیے کوئی ایک ہی قدم اٹھایا گیا ہو۔ جو طاقتور ہوتا ہے وہ اداروں کو اپنے ماتحت کر لیتا ہے۔ پولیس اہلکار بھی کیا کریں‘ ان سے اٹھارہ بیس گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے مگر کوئی سہولتیں نہیں ملتیں۔ وہ بس اُن احکامات کو بجالاتے ہیں جو ان کو دیے جاتے ہیں۔ پنجاب گزشتہ سوا برس سے محلاتی سازشوں کا شکار ہے۔ اس ساری صورتحال میں معیشت کا جو حال ہوا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ ڈالر ہو یا پٹرول، اشیائے خور و نوش کی مہنگائی ہو یا انتشار‘ حکومت سے کچھ نہیں سنبھل رہا۔ اسی طرح آدھی آدھی رات کو لوگوں کے گھروں میں جانا‘ انہیں بلا وارنٹ گرفتار کرنا مزید مسائل کو جنم دے گا۔
ابھی میں ندیم افضل چن کے والد کے لیے ہی افسردہ تھی کہ حماد اظہر نے بھی ٹویٹ کردیا ان کے والد کو پولیس والے لے گئے ہیں۔اس سے قبل خدیجہ شاہ کے والد، بھائی اور شوہر کوجب پولیس نے اٹھا لیا تھا تو انہوں نے خود ہی گرفتاری دے دی تھی۔انہوں نے ایک وڈیو پیغام بھی جاری کیا کہ وہ اس لیے خود کو قانون کے حوالے کررہی ہیں تاکہ ان کے خاندان والوں کو تنگ نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا‘ وہ اسی لیے گرفتاری دے رہی ہیں تاکہ اپنی بے گناہی ثابت کرسکیں۔ وہ تین چھوٹے بچوں کی ماں‘ ایک سابق وزیر کی بیٹی اور ایک سابق آرمی چیف کی نواسی ہیں۔ یہ بات دل نہیں مانتا کہ وہ کسی ایسی مہم کا حصہ بن سکتی ہیں جو ملک کے خلاف ہو۔ جمہوریتوں میں لوگ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے رہتے ہیں‘ سیاست میں گرما گرمی بھی ہو جاتی ہے لیکن مخالفین کو غدار یا دہشت گرد کہنا درست نہیں۔ بلاشبہ نو مئی جیسے واقعات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر کسی پر کسی تخریب کاری یا ملک دشمن کارروائی کا الزام ہے تو اسے ضرور پکڑیں مگر اس کے گھر والوں یا اہلِ خانہ کو کیوں سزا دی جارہی ہے؟ اسی طرح اس کی آڑ میں مخالفین کو پکڑنے کا کیا جواز ہے؟ ویسے بھی قانونی طور پر جب تک کسی انسان پر جرم ثابت نہ ہو جائے‘ وہ ملزم ہی رہتا ہے لیکن ہمارے یہاں اس کو میڈیا‘ سوشل میڈیا پر مجرم بناکر پیش کیا جا رہا ہے جو سراسر غلط رویہ ہے۔ سزا اور جزاکا فیصلہ عدالتوں پر چھوڑ دیں۔ آپ حکومت کریں‘ سیاست کریں‘ مخالفین سے انتقام نہ لیں اور محض سیاسی مخالفت کی بنا پر خواتین کو نشانہ مت بنائیں۔ پہلے تو یہ معاملہ صرف سوشل میڈیا کی حد تک تھا لیکن اب تو بات گرفتاریوں تک آگئی ہے، جواس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا۔ میں نے اپنی عشروں پہ محیط صحافتی زندگی میں کبھی خواتین سیاسی کارکنان کو قیدی وینز میں بند نہیں دیکھا۔ سیاست دان پہلے بھی سیاسی مقدمات اور کرپشن کیسز میں جیل جاتے رہے ہیں لیکن غداری اور بغاوت جیسے سنگین الزامات کے تحت خواتین کو گرفتار کرنا بہت حیران کن بلکہ افسوسناک ہے۔ آج جو اقتدار میں ہیں‘ کل جب ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو گا تو ان کی خواتین کے ساتھ بھی یہ ہوسکتا ہے۔ پھر یہ گلہ بھی نہیں کر سکیں گے کیونکہ یہ روایت انہی کی ڈالی ہوئی ہے۔ پہلے تو خواتین کو کچھ رعایت مل جاتی تھی لیکن شاید اب ایسا نہیں ہوگا اور یقینا یہ بہت افسوسناک ہو گا۔
پہلے سیاست میں وضعدار لوگ نمایا ں تھے جو سب کا احترام کیا کرتے تھے مگر اب والے تو ایک دوسرے سے بھی لڑرہے ہیں اورخواتین کی کردار کشی میں بھی ملوث ہیں۔ پہلے زبانی‘ کلامی حملے ہوتے تھے لیکن اب تو باقاعدہ ٹرینڈز چلتے ہیں۔ میرا دل ہی نہیں کرتا کہ کسی ٹرینڈ کی طرف دیکھوں۔ جب دیکھو آڈیو‘ وڈیو لیکس کی آڑ میں ایک دوسرے کی کردار کشی کی جارہی ہوتی ہے۔ میں ایک عام شہری ہوں اور مڈ کیریئر میں ہوں‘ میں نے آج تک کسی کی آڈیو‘ وڈیو شیئر نہیں کی۔ میں اسے صحافت ہی نہیں سمجھتی۔ نجی زندگی اور عملی زندگی میں فرق ہونا چاہیے۔ کسی کی کمزوری یا عیب کو نشر نہیں کرنا چاہیے‘ اس کی پردہ پوشی کرنی چاہیے مگریہاں ایسا کچھ نہیں ہورہا۔ لوگ آڈیو ‘وڈیو لیکس کو بریکنگ کے نام پر شیئر کرتے ہیں۔ وہ یہ تک تصدیق نہیں کرتے کہ یہ لیکس اصلی ہیں یا جعلی‘ بس شیئر کردیتے ہیں۔ اب تو دل کرتا ہے کہ انسان کسی دوسرے کو سمجھانے کے بجائے خود ہی چپ کر کے بیٹھ جائے۔ سیاست شاید اب صرف آڈیو‘ وڈیو لیکس اور ایک دوسرے کی کردار کشی تک محدود ہوگئی ہے۔ صحافت ہو یا سیاست‘ اخلاقیات کو اولیت دیں۔ کاش کہ سیاستدان کچھ ہوش کے ناخن لیں اور ایک دوسرے سے لڑنا بند کر دیں۔ کھوئی ہوئی اخلاقیات اور وضعداری واپس آجائیں۔ کراچی میں حافظ نعیم الرحمن سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ پڑھے لکھے اور دیندار لوگ سیاست میں آئیں گے تو ضرور تبدیلی آئے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved