جو کچھ اس وقت ہے اُسے مکمل طور پر تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کیا انسان اپنے پورے ماحول کو اس طور بدل سکتا ہے کہ پہلے کی چیزیں یا اُن کے نقوش ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں؟ ان دونوں سوالوں کا جواب اثبات میں بھی ہوسکتا ہے اور نفی میں بھی۔کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کسی بند گلی میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ کہیں بھی کچھ بھی بدلتا دکھائی نہیں دیتا۔ کوشش کرنے پر بھی کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ تب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یکسانیت مقدر ہوکر رہ گئی ہے اور اب کچھ بھی نیا نہیں ہوگا۔ ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے؟ جب بھی کسی قوم یا گروہ کی سوچ کا دھارا رُک جاتا ہے تب ایسے ہی خیالات اور احساسات راہ پاتے ہیں۔ انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب خرابیاں بڑھ جاتی ہیں تب وہ کچھ کرنے کے بجائے محض انتظار کرتا رہتا ہے۔ کسی مسیحا کا انتظار! انسانوں کی غالب اکثریت کا یہ حال ہے کہ کسی بھی مشکل صورتِ حال میں تدارک کے حوالے سے سوچنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے غیبی مدد کا انتظار کیا جاتا ہے۔ پتا نہیں کیوں دل کو یقین سا ہوتا ہے کہ کہیں سے کوئی مشکل کُشا آئے گا اور سارے معاملات درست کردے گا۔ کبھی کبھی محض حسنِ اتفاق سے ایسا ہو بھی جاتا ہے یعنی کہیں سے کوئی آکر تھوڑی بہت مدد کردیتا ہے، معاملات کی درستی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ مگر محض اتفاق کو اصول کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ اپنے مسائل انسان کو خود حل کرنا پڑتے ہیں۔ یہی معقول ترین طریقہ اور رویہ ہے۔
انقلاب ایسی تبدیلی کو کہتے ہیں جو سبھی کچھ الٹ پلٹ دے۔ جب کہیں راتوں رات سب کچھ بدل جائے اور پُرانے ماحول کا نشان برائے نام رہ جائے تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب برپا ہوا ہے۔ انقلابی کیفیت انسان کو بہت کچھ دیتی ہے اور اُس سے بہت کچھ لے بھی لیتی ہے۔ انقلاب کبھی مکمل طور پر اپنی مرضی کا نہیں ہوتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انقلابی کیفیت کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اُسے مکمل طور پر منضبط نہیں کیا جا سکتا، اپنی مرضی کے سانچے میں نہیں ڈھالا جاسکتا۔ اب آئیے اِس سوال کی طرف کہ انقلاب کس طور برپا ہوتے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ جب کسی بھی معاملے میں خرابی کی انتہا کو چھونے لگتا ہے تب اُس پر انقلاب لازم ہو جاتا ہے۔ انقلاب کا بنیادی مقصد اصلاح ہوتا ہے یعنی ایک نظم کو ختم کرکے نیا نظم لانا۔ یہ نیا نظم گزرے ہوئے نظم کے زمانوں میں پیدا ہونے والی خامیوں اور خرابیوں کے اثرات کو زائل کرنے والا ہونا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو پھر یہ سمجھنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ پُرانا نظم ہی بہتر تھا۔
کیا کوئی بھی نظم از خود ختم ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب محض نفی میں ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی نظم جب فرسودہ ہوجائے اور اُس میں معاشرے کو ڈھنگ سے چلانے کی اہلیت برائے نام بھی نہ رہے تو منفی نتائج مرتب کرنے لگتا ہے۔ معاشرہ زوال کی طرف جاتا ہے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ اپنی افادیت سے محروم ہوجانے پر کوئی نظم خود بخود ختم ہوجائے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا! کسی بھی نظم کے فرسودہ و ناکارہ ہوجانے پر یہ سوچنا محض سادہ لوحی ہے کہ وہ کسی کی شعوری کوشش کے بغیر خود ہی رخصت ہوجائے گا۔ کوئی جاندار مر جائے تو ہم اُسے دفن کرتے ہیں۔ اگر دفن نہ کیا جائے تو...؟ وہ مردار سڑنے لگتا ہے۔ یہ عمل ماحول کے لیے خرابی پیدا کرتا ہے۔ اگر کوئی مردار جنگل میں پڑا سڑتا رہے تو کوئی بات نہیں۔ گِدھ اور کیڑے مکوڑے اُسے کھا جائیں گے۔ اور اگر وہ مردار انسانوں کے درمیان پڑا رہے تو؟ شدید تعفن پھیلے گا اور لوگوں کے لیے ڈھنگ سے سانس لینا بھی دشوار ہوجائے گا۔
کسی بھی معاشرے کے عمومی نظم کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب تک کوئی نظم کارگر رہتا ہے اُس سے لوگ مستفید ہوتے رہتے ہیں اور اُسے پروان چڑھانے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ حالات کی تبدیلی سے جب وہی نظم اپنی افادیت سے محروم ہونے لگتا ہے تب اُسے پروان چڑھانے میں لوگوں کی دلچسپی بھی گھٹنے لگتی ہے۔ پھر جب یہ نظم دم توڑنے لگتا ہے تب کسی کو بھی اس امر میں شبہ نہیں رہتا کہ اِس کی افادیت دم توڑ چکی ہے۔ کسی بھی معاشرے کو نئی زندگی خود بخود نہیں ملتی۔ جب لوگ طے کرتے ہیں کہ اُنہیں کچھ کرنا ہے تبھی کچھ ہو پاتا ہے۔ محض سوچنے یا چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ معاشرے کو بدلنے کے لیے عمل کی راہ پر گامزن ہونا پڑتا ہے۔ اس کے لیے پہلے مرحلے میں عزمِ محکم درکار ہوتا ہے۔ انقلاب کے نعرے بہت دلکش ہوتے ہیں۔ انسان جوش میں ہوش کھو بیٹھتا ہے مگر عمل کا وقت آتا ہے تو زمینی حقیقتیں کسی عفریت کی طرح منہ کھول کر سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ ایسے میں انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ محض جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے کہیں سے کہیں جا نکلنا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ معاشرے اِس طور بدلتے ہیں نہ ہی مضبوط ہوتے ہیں۔ انقلاب کا انتظار حماقت کی دلیل ہے۔ انقلاب یعنی مکمل تبدیلی! ایسی کوئی بھی تبدیلی از خود نوٹس کے تحت واقع نہیں ہوتی۔ انقلاب کبھی آیا نہیں کرتے‘ لائے جاتے ہیں۔ جب کچھ لوگ کسی بات کا تہیہ کرکے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سوچ لیتے ہیں کہ حقیقی تبدیلی یقینی بنائے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے تبھی کوئی حقیقی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔
ہر عہد میں بعض معاشرے بہت نمایاں ہوتے ہیں۔ آج مغربی معاشرے بہت نمایاں ہیں کیونکہ اُنہوں نے مادّی ترقی کی اتنی منازل طے کی ہیں کہ اب اُن کے مقابلے میں کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔ چین، جاپان اور دیگر خطوں کے چند اور ممالک بھی ترقی یافتہ ہیں مگر وہ بعض معاملات میں مغرب کے طے کردہ معیارات سے بہت پیچھے ہیں۔ مغربی معاشرے اِس قدر آگے کیسے نکل گئے؟ کیا یہ سب کچھ خود بخود ہوگیا؟ ایسا نہیں ہے۔ ہو ہی نہیں سکتا! کوئی بھی تبدیلی ایک خاص حد تک یعنی محدود پیمانے پر تو رونما ہوسکتی ہے مگر ایسا نہیں ہوسکتا کہ معاشرہ ہی بدل جائے اور وہ بھی مثبت اثرات کے ساتھ۔ اس کے لیے خالص شعوری کوشش درکار ہے۔ آج کا ہمارا معاشرہ ایک بند گلی میں کھڑا ہے۔ اس بند گلی سے کیسے نکلنا ہوگا؟ اس کے لیے ہم سب کو مل کر کچھ کرنا ہوگا۔ سب مل کر سوچیں گے اور کچھ کریں گے تو ہی کچھ ہو پائے گا۔ بصورتِ دیگر معاملات اٹکے رہیں گے۔ یہ اٹکاؤ اپنے دور کیے جانے کے لیے ہم سے فکر و عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ اِس کی پکار ہے کہ ہم اپنے معاملات درست کرنے کے لیے سوچ بچار کریں، تجزیہ کریں، اندازے لگائیں، لائحہ عمل ترتیب دیں، عمل کی راہ پر گامزن ہوں، اپنے عمل کا بھی احتساب کریں، کوتاہیوں سے بچنے کی کوشش کریں تاکہ معاشرے میں واقعتاً مطلوب حقیقی تبدیلیوں کی راہ ہموار ہو سکے اور ہم بند گلی سے نکلنے کے قابل ہوجائیں۔
ہر عہد انسان سے بہت کچھ چاہتا ہے۔ فکر و عمل کے محاذ پر بہت سی جنگیں لڑنا پڑتی ہیں۔ یہ مستقل نوعیت کا معاملہ ہے۔ معیاری زندگی ہمہ وقت مصروفِ جہد رہنے کا نام ہے۔ معاشرے انقلاب کے ذریعے بھی بہتری کی طرف جاتے ہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیاں اُس کی اچھائیوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ مرحلہ وار رونما ہونے والی تبدیلیاں زیادہ پائیدار اور مثبت ثابت ہوتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے کا ارتقائی مراحل سے گزرنا ہی اصلاح کا معقول ترین طریقہ ہے۔ آج کا معاشرہ ہم سے متقاضی ہے کہ ہم اصلاحِ احوال کے بارے میں سوچیں، سنجیدگی اختیار کریں اور عمل کی راہ پر گامزن ہوکر حقیقی تبدیلیوں کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔ اِس کے لیے عزمِ محکم ناگزیر ہے۔ خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔ خرابیوں کو دور کرنے کے لیے انقلابی سوچ اپنانے سے کہیں بہتر طریق یہ ہے کہ بہت چھوٹے پیمانے پر اصلاح کا عمل اپناکر اُسے پھیلاتے جائیے۔ ہر طرف فکر و عمل کا بازار گرم ہے۔ آج کا انسان یہ ساری گرم بازاری دیکھ کر بھی اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہو رہا۔ انقلابی سوچ ناگزیر تو ہوتی ہے مگر ہر بار یہ بارآور ثابت ہو‘ یہ ضروری نہیں۔ انقلاب آیا نہیں کرتے اور اُنہیں لانے کی کوشش سے کہیں بہتر ہے ارتقائی طرزِ فکر و عمل کے ذریعے معاملات کو درست کرنا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved