سیاست دو طرح کی ہوتی ہے: اقتدار کی سیاست اور اصول و نظریے کی سیاست۔
اصولی یا نظریاتی سیاست کی منزل بھی اقتدار ہی ہے لیکن اس میں کسی فرد‘ خاندان یا جماعت کے بجائے‘ ایک نظریے یا اصول کو اقتدار تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ سیاسی جدوجہد میں کوئی ایسا مرحلہ نہ آئے جب نظریے یا اصول ہی کو قربان کرنا پڑ جائے۔ نظریاتی سیاست کی پہچان یہ ہے کہ ایسے موقع پر نظریے کی حفاظت کی جاتی ہے اور اقتدار سمیت ہر چیز کو قربان کر دیا جاتا ہے۔
نظریاتی سیاست‘ اس پہلو سے ناکام رہی ہے کہ اسے اقتدار تک رسائی کم ہی مل سکی ہے۔ تاہم جن لوگوں نے نظریے اور اصول کے ساتھ وفاداری نبھائی‘ انہیں تاریخ نے ہمیشہ اچھے لفظوں سے یاد کیا۔ جیسے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ جیسے نواب زادہ نصراللہ خان۔ اقتدار کی دیوی ان پر کبھی مہربان نہیں ہوئی۔ تاریخ میں مگر ان کا شمار نیک نام افراد میں کیا گیا۔ ان کی زندگی میں ان کا احترام کیا جاتا تھا اور مرنے کے بعد بھی ان کی عزت کی جاتی ہے۔
اقتدار کی سیاست سے کچھ ایسے لوگ بھی متعلق رہے جن کا کوئی نظریہ تھا۔ ایک نظریے کے ساتھ‘ ان کی مخلصانہ وابستگی کے شواہد موجود ہیں۔ تاہم ان کا اصل میدان 'اقتدار کی سیاست‘ تھی۔ انہوں نے سیاست میں نظریے کا پرچار بھی کیا لیکن جب انتخاب کا موقع آیا تو انہوں نے اقتدار کو نظریے پر ترجیح دی۔ ذوالفقار علی بھٹو اس کی ایک مثال ہیں۔ وہ سیاست میں ایک نظریے کے قائل تھے۔ انہوں نے اسلامی سوشلزم کی بات کی۔ مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کا علم اٹھایا۔ لیکن جب انتخابات کا موقع آیا تو انہوں نے پارٹی ٹکٹ جاگیرداروں ہی کو دیے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی مدد کے بغیر اقتدار تک پہنچنا مشکل ہے۔
اس میں بھٹو صاحب کا کوئی استثنا نہیں۔ عالمِ اسلام میں‘ ان کے معاصر بہت سے حکمران نظریاتی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ان کا طرزِ عمل بھی یہی تھا۔ اقتدار کی سیاست‘ ہمیشہ زمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھتی ہے۔ وہ جو حکمتِ عملی بناتی ہے‘ اس میں سیاسی و سماجی حقائق کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے لیے کبھی 'اسلامی ٹچ‘ دیا جاتا ہے۔ کبھی مسائل کے رومانوی حل پیش کیے جاتے ہیں‘ یہ جانتے ہوئے کہ ان پر عمل در آمد ممکن نہیں۔ حسبِ ضرورت جھوٹ بھی بولا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہی اقتدار کی دیوی کسی پر مہربان ہوتی ہے۔
تاریخ میں یہی ہوا ہے اور آج بھی یہی ہوتا ہے۔ امریکہ یا برطانیہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں سیاسی نظام بڑا شفاف ہے۔ یہ بات خلافِ واقعہ ہے۔ امریکہ میں بھی وہی آدمی سینیٹر بن سکتا ہے جو زمینی حقائق سے مطابقت پیدا کرتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ میں مختلف گروہ متحرک ہوتے ہیں جو ان سینیٹر کی معرفت سے اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیلی لابی ہے۔ یہ اسی امیدوار کو وسائل اور حمایت فراہم کرتے ہیں جو سینیٹ میں اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کا وعدہ کرے۔ سینیٹ میں جاکر ایسے لوگوں کو فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کبھی یاد نہیں آتے۔ ہاں‘ اسرائیلی فوجیوں پر کوئی کنکر پھینک دے تو وہ سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ پیسے کے لیے ضمیر بیچنا ہی کرپشن ہے اور یہ لوگ اپنا ضمیر ان لابیوں کے ہاتھوں گروی رکھ دیتے ہیں جو ان کی مدد کرتی ہیں۔ فلسطینیوں کی حمایت کرکے کوئی آدمی سینیٹر نہیں بن سکتا۔ جس دن فلسطینیوں کے پاس اتنے پیسے آگئے کہ وہ سینیٹ کے امیدواروں پر سرمایہ کاری کر سکیں تو اس دن کایا پلٹ سکتی ہے۔
مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کا ریاستی جبر بھارت میں ہوتا ہے‘ اطمینان کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ یہی نہیں‘ بھارت شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کی معاشرت میں آج بھی طبقاتی تقسیم کو مذہبی تقدس حاصل ہے۔ طبقاتی تقسیم دنیا میں ہر جگہ موجود ہے لیکن بھارت کے سوا کوئی ایک ایسا ملک نہیں جہاں اس کے لیے کوئی مذہبی یا عقلی جواز پیش کیا جاتا ہو۔ دنیا لیکن اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوصف بھارت کو عالمی برادری کا باعزت رکن مانتی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتی ہے۔ وجہ صرف دنیاوی مفادات ہیں۔ ہمارا معاملہ بھی یہی ہے کہ جہاں ہمارے مفادات کا تقاضا ہو وہاں ہمیں بھی مسلمانوں کے حقوق یاد نہیں رہتے۔
داخلی اور عالمی سطح پر اقتدار کی سیاست اسی طرح ہوتی ہے اور اسی طرح ہوتی آئی ہے۔ آئندہ بھی اسی طرح ہو گی۔ اس لیے جو آدمی اقتدار کی سیاست کرتا ہے اور کامیاب رہتا ہے‘ وہ اصول پرستی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ جو اس دعویٰ کو درست مان لیتا ہے‘ اس کے غبی ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں اگر حسنِ ظن سے کام لوں تو اس امکان کو مانا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ بادلِ نخواستہ اصولوں سے انحراف کرتے ہیں۔ میں لیکن یہ نہیں مان سکتا کہ وہ اصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے‘ اقتدار تک پہنچے ہیں۔
اس لیے یہ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اقتدار کی سیاست‘ ایک مصلح کا میدانِ عمل نہیں ہے۔ جو اصلاح چاہتا ہے اسے سماج کو مخاطب بنانا ہوگا۔ سیاستدان موجود سماجی حقائق کو جمع کرتا اور ان کی مدد سے اقتدار تک پہنچتا ہے۔ وہ کسی نئی حقیقت کو جنم نہیں دیتا۔ مثال کے طور پر کسی معاشرے میں اگر کرپشن غالب ہے اور عوام اس سے تنگ ہیں تو سیاستدان کرپشن کے خلاف ان جذبات کی آواز بن جائے گا اور اسے ایک مؤثر سیاسی قوت بنا دے گا۔ یا عوام اگر مذہب سے محبت کرتے ہیں تو وہ ان مذہبی جذبات کو سیاسی رنگ دے کر انہیں مجتمع کر دے گا اور ان کی مدد سے اقتدار تک رسائی چاہے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ معاشرہ مذہبی نہ ہو اور ایک سیاستدان اس کو مذہبی بنا دے۔
سماجی سطح پر کسی معاملے میں حساسیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب عوام میں کسی بات کا پہلے سے شعور موجود ہے۔ اگر معاشرہ انسانی جان کی حرمت کے بارے میں باشعور ہوگا تو قتل کا ایک واقعہ اسے مضطرب کر دے گا۔ جہاں یہ حرمت قائم نہیں ہے‘ وہاں قتل معمول کا واقعہ بن جاتا ہے جو سماج پر کوئی تاثر قائم کیے بغیر طاقِ نسیاں کی نذر ہو جاتا ہے۔ شعور سماجی تنظیمیں اور ادارے پیدا کرتے ہیں۔ جیسے مسجد‘ جیسے تعلیمی ادارے یا میڈیا۔ معاشرہ جب کسی معاملے میں باشعور ہوتا ہے تو پھر سیاستدان بھی اس کے خلاف نہیں جا سکتے۔ یوں سماجی شعور سیاست پر اثر انداز ہوتا ہے۔
اگر ہم کسی معاملے میں یہ چاہتے ہیں کہ اہلِ سیاست حساس ہوں تو اس کے لیے صحیح ترتیب یہ ہے کہ عوام کو اس کے لیے باشعور بنایا جائے۔ یہ کام سماجی مصلحین کرتے ہیں۔ ان کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ وہ اس خدمت کے صلے میں عوام سے ووٹ چاہتے ہیں نہ کوئی دوسرا مفاد۔ اس کے بعد ہی ان کی بات میں وہ وزن پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اس کو توجہ سے سنتے اور اس پر غور کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ مسلم معاشرے میں صوفیا یا علما کا احترام اسی لیے تھا کہ وہ لوگوں سے کوئی غرض وابستہ نہیں کرتے تھے۔ جب سے انہوں نے ووٹ یا چندے کا کشکول اٹھایا ہے‘ ان کی بات میں تاثیر ختم ہو گئی ہے۔
عوام جب تک اقتدار کی سیاست کی حقیقت کو نہیں جانیں گے‘ وہ سیاست میں مسیحا کو تلاش کرتے رہیں گے اور وہ لوگ بھی آتے رہیں گے جو عوامی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔ شعورکا در کھلے گا تو جعلی مسیحاؤں کی آمد کا دروازہ بند ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved