اپنے مہربان ایاز امیر کا کالم پڑھا کہ پارٹی چھوڑنے والے عمران خان کے منہ پر وہ باتیں کیوں نہیں کرتے تھے جب پارٹی میں تھے۔
یاد آیا کچھ برس پہلے عون چوہدری کا فون آیا کہ خان صاحب ملنا چاہ رہے ہیں۔ان دنوں خان صاحب الیکشن کی تیاری کررہے تھے۔انہیں لگ رہا تھا کہ بس چند دنوں کی بات ہے وہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی مدد سے ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ روز صحافیوں اور اینکرز سے ملیں۔ روزانہ تین تین‘ چار چار انٹرویوز دے رہے تھے۔ ٹی وی چینلز اور اینکرز کو فون کر کر کے بلایا جاتا کہ خان صاحب کا انٹرویو کریں۔ مقصد یہ تھا کہ آپ ہر وقت سکرین پر رہیں‘ اخبارات کی سرخیوں میں رہیں۔ آپ کی بات اور بیانیہ ہر طرف چھایا رہے۔ مخالفین کہیں نظر نہ آئیں۔ یہ حکمت عملی کام کررہی تھی‘ لیکن پھر بھی دو تین ایسے اینکرز یا کالم نگار تھے جو سوالات اٹھا رہے تھے۔ مجھے یاد ہے اُس وقت بھی میرے جیسے چند صحافیوں کو نواز لیگ حکومت کے میڈیا سیل سے شدید تنقید‘ تضحیک اور گالی گلوچ کا سامنا تھا کہ خان پرتنقید نہیں ہوتی‘ سب توپوں کا رُخ نواز شریف کی طرف ہے۔ میں اُس وقت بھی ان دوستوں سے کہتا تھا کہ عمران خان وہ سیاسی گھوڑا ہے جس نے ابھی ڈربی ریس دوڑنی ہے۔ وہ کبھی وزیراعظم نہیں بنا۔ وہ اپوزیشن میں ہے۔ اس کا جو دل چاہے کہہ دے‘ لوگ اس کی بات سنیں گے کیونکہ ابھی وہ ٹیسٹ نہیں ہوا۔ جب وہ ٹیسٹ ہوگا تو اس کی صلاحیتوں کا پتا چلے گا کہ کتنے بیس کا سو بنتا ہے یا ان تلوں میں کتنا تیل ہے‘ جبکہ نواز شریف دو دفعہ وزیراعظم رہ چکے تھے اور لوگ ان کی گورننس دیکھ چکے تھے۔ وہ تیسری دفعہ بھی وزیراعظم بنے مگر خان ابھی تک ایک دفعہ بھی نہیں بنا تھا تو کیسے کوئی اخبار نویس نواز شریف حکومت چھوڑ کر پی ٹی آئی کے پیچھے پڑ جائے کہ ملک میں جو کچھ غلط ہورہا ہے یا بیڈ گورننس ہے اس کا ذمہ دار نواز شریف نہیں بلکہ عمران خان ہے۔ نواز شریف دنیا کے ایک سو سے زائد دورے کریں جن میں بائیس دورے صرف لندن کے ہوں جہاں ان کے بچے رہتے ہیں لیکن ہم تبرا عمران خان پر شروع کر دیں؟ پٹرول‘ پانی‘ بجلی کے ریٹس بڑھیں تو ہم عمران خان کی طرف توپوں کا رُخ کر لیں؟ لوگ ہمیں پاگل سمجھیں گے۔
خیر عمران خان سے بنی گالہ ملاقات ہوئی۔اُن دنوں پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم بہت ایکٹو تھی۔ جو صحافی خان صاحب سے ملتا اس کی تصویر لے کر فیس بک پیج اور ٹوئٹر پر شیئر کی جاتی تھی۔ میری تصویر لینے لگے تو میرے تاثرات دیکھ کر خان صاحب نے کہا: تصویریں لے لو لیکن سوشل میڈیا پر نہ ڈالنا رئوف کی نیوٹریلٹی متاثر ہوگی کہ کل کو میرے حق میں کچھ بولے یا لکھے گا تو لگے گا اس ملاقات کا اثر ہے۔ میں نے گہرا سانس لے کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ فیصل جاوید خان اور افتخار درانی بھی موجود تھے جن سے پہلی دفعہ ملاقات ہورہی تھی۔کچھ دیر گپ شپ ہوئی۔ میں چلنے لگا تو پتا نہیں انہیں کیا خیال آیا‘مجھے کہا: میرا نمبر لکھ لو‘ کوئی مشورہ یا بات ہو تو مجھے واٹس ایپ کرتے رہنا۔اُن دنوں شہر میں جو بھی صحافی ملتا اس کے پاس خان صاحب کا نمبر ہوتا۔بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ آج خان صاحب کو یہ مشورہ لکھ کر بھیجا‘ انہیں یہ بات سمجھائی‘ وہ بات سمجھائی۔ انہوں نے بڑا appreciate کیا۔ تھمب اَپ کا نشان بھیجا کہ کیا عالی شان مشورہ دیا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جب وہ وزیراعظم بنے تو وہی دوست بتاتے پائے گئے کہ خان صاحب کو فلاں مشورہ لکھ کر بھیجا تھا‘ انہیں پسند نہیں آیا اور مجھے بلاک کر دیا۔
یہ کئی اینکرز کے ساتھ ہوا جو اپوزیشن میں مشورے دیتے تھے وہ خان کی حکومت میں ''مشورے‘‘ دینے پر اسی واٹس ایپ پر بلاک ہوئے۔کسی محفل میں دوست بیٹھے تھے تو کسی نے مجھ سے پوچھا تو جواباً میں نے کہا کہ اپنی عزت اپنے میں ہاتھ ہوتی ہے۔ ان برسوں میں ایک دفعہ بھی میسج نہیں کیا کہ خان صاحب ایسا کر لیں ویسا کر لیں۔میں نے کبھی عمران خان کو واٹس ایپ پر نہ میسج کیا نہ مشورہ دے کر خود کو ان سے سیانا سمجھنے کا قصور کیا۔وہ حیران ہوئے تو میں نے کہا کہ زندگی میں کامیاب اور پاپولر لوگ نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں۔ بھلا اپنے سے کم یا غیر اہم انسان کی باتیں سن کر وہ غیر اہم مشورے اپنی زندگی پر کیوں لاگو کریں۔ اگر یہ مشورے دینے والے اتنے سیانے تھے تو نواز شریف اور عمران خان کی کرسی پر کیوں نہیں بیٹھے؟ہم صحافیوں نے جو مشورے دینے ہوں تو اپنے کالم یا پروگرامز میں دے سکتے ہیں‘کوئی سیاستدان پڑھنا یا سننا چاہے تو سن لے۔ اب کسی کے دربار میں بیٹھ کر خود کو ذہین سمجھ کر ایک پاپولر بندے یا وزیراعظم کو مشورے دینے سے بڑی بیوقوفی اور کوئی نہیں ہوسکتی۔
نواز شریف لندن میں یہ طریقہ سب صحافیوں پرآزماتے تھے۔ ''تسی دسو کی کرنا چاہیدا اے‘‘۔ سب گھنٹوں انہیں مشورے دیتے کہ ہم کتنے اہم لوگ ہیں کہ ملک کا سابق وزیراعظم ان سے مشورے مانگ رہا ہے‘ حالانکہ یہ سب کرتے وہی ہیں جو وہ طے کر چکے ہوتے ہیں۔ انہوں نے صرف ہم دیہاتوں سے جانے والے لوئر مڈل کلاسیوں کو اہمیت دینی ہوتی ہے اور ہم برسوں خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ دیکھیں نواز شریف‘ عمران خان تک مجھ سے مشورے مانگتے ہیں۔ اُٹھ کر ملتے ہیں۔ اور پھر ہم ان کے صحافتی غلام بن کر ان کا جھنڈا اٹھائے پھرتے ہیں اور ہر جگہ ان کی غلط درست بات کا دفاع ذاتی مسئلہ بنا کر زندہ رہتے ہیں۔ نواز شریف نے وزیراعظم کی پوسٹ سے برطرفی کے بعد صحافیوں کو پنجاب ہاؤس بلا کر پوچھا: تسی دسو کی کرناچاہیدا اے؟ نواز شریف وزیر اعظم تھے تو ایک دفعہ بھی صحافیوں سے نہ ملے۔ اپوزیشن میں آتے ہی سب نمبرز بحال ہوجاتے ہیں‘ بلاک واٹس ایپ اَن بلاک ہوجاتے ہیں کہ دوبارہ ڈھولچیوں اور طبلچیوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔
اب آپ کہیں گے پھر بھی ہر بندے کو مشورے کی ضرورت پڑتی ہے۔ سیاسی پارٹی میں لیڈر کو بھی ضرورت ہوتی ہے۔ چلیں مان لیا۔ تو پھر خورشید قصوری یا اسد رحمن کا نواز شریف نے کیا حشر کیا تھا جب انہوں نے چند سوالات کر لیے تھے یا پھر جسٹس(ر) وجیہ الدین کا کیا حشر کیا گیا جنہوں نے عمران خان کے سامنے جرأت دکھائی تھی یا ندیم افضل چن نے جرأت کی تھی جب عمران خان نے کوئٹہ میں ہزارہ لوگوں کی ہلاکتوں کے بعد سڑک پر احتجاج کرتے ورثاسے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ لوگ جو عمران خان کے منہ پر بات کرنے کی جرأت رکھتے تھے ان کو ایک ایک کر کے سائیڈ پر کیا گیا یا اگلے اجلاس میں نہیں بلایا گیا۔ اب ان لوگوں کے پاس ایک آپشن تھا کہ وہ بھی جسٹس(ر) وجیہ الدین اور ندیم افضل چن والا روٹ لیتے۔ عہدے اور وزارتیں چھوڑ جاتے یا پھر کہتے بھاڑ میں جائے سب کچھ‘ہم کیوں بُرے بنیں اور وزارتوں یا عہدوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں تاکہ لوگ واہ واہ کریں۔ پاور پالیٹکس کا نام ہی مفاد اور موقع پرستی ہے۔ اگر خان سچ نہیں سننا چاہتا یا اسے وہ سننا ہے جو ا س کے ذہن میں ہے تو پھر ہم کیوں اس کے دربار میں بُرے ٹھہریں۔ ڈھول بج رہا ہے تو آپ بھی طبلے پر سنگت دیتے رہیں۔
عمران خان نے پارٹی کے اندر اگر کسی کا مشورہ سنا ہوتا‘ مانا ہوتا یا پارٹی کے اندر یہ کلچر پروموٹ کیا ہوتا تو آج زمان پارک میں یہ نہ کہہ رہے ہوتے کہ وہ اکیلے رہ گئے ہیں۔یہ سب سیاسی لیڈر مشکل وقت میں دوسروں کی سنتے ہیں کہ شاید اس کی بات سے میرا فائدہ ہو جائے‘ بادشاہ بن کر کون سنتا ہے؟ ہاں وقت کے ساتھ ایک فرق ضرور پڑا ہے کہ قدیم زمانوں میں گستاخ درباریوں کے سر قلم ہوتے تھے اب صرف واٹس ایپ نمبرز بلاک کیے جاتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved