پاکستان میں اکثر ایک جملہ بولا جاتا ہے اور عوام کی اکثریت اس کے مفہوم پر دل و جان سے ایمان رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ''جو کرا رہا ہے‘ امریکہ کرا رہا ہے‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کر ضیاء الحق کے طیارہ حادثے تک‘ سبھی اہم اور بڑے واقعات میں امریکہ کے ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ ہر حکومت کی تبدیلی کو امریکہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں ہے کیونکہ امریکہ کے ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹس خود یہ گواہی دیتے ہیں کہ امریکہ مختلف ملکوں اور خطوں میں اپنی مخالف حکومتوں کی تبدیلی میں ملوث رہا ہے۔ اس حوالے سے بے شمار مصنفین نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ کتابیں بھی لکھی ہیں کہ سرد جنگ کے دوران دنیا بھر میں شاید ہی کوئی حکومت تبدیلی کا واقعہ ہوجس میں امریکہ ملوث نہ ہو۔ بعض ذرائع کے مطابق امریکہ سو سے زائد حکومتوں کی تبدیلی میں براہِ راست ملوث رہا ہے۔ گزشتہ سال امریکہ کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے ایک انٹرویو میں خود یہ اعتراف کیا تھا کہ امریکہ نے بطور ریاست کئی بار بیرونِ ملک حکومتوں کی تبدیلی، بغاوت کی منصوبہ بندی اور کوششوں میں معاونت فراہم کی ہے۔
پاکستان کی بات کریں تو یہ بات کسی شک و شبہے سے بالاتر ہو کر کی جاسکتی ہے کہ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی جانے والی احتجاجی تحریکوں کی کامیابی اسی وجہ سے ممکن ہو پائی کہ ان تحریکوں کی باگ ڈور صرف مقامی سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور کارکنوں کے ہاتھ میں نہیں تھی بلکہ ان کے پیچھے امریکی سرمایہ اور اس کی باقاعدہ پلاننگ بھی شامل تھی۔ ایوب خان نے اپنے اقتدار کے آخری برسوں میں امریکہ کے بڑھتے دبائو اور جھڑکیوں سے تنگ آ کر جیسے ہی روس کی جانب دیکھنا شروع کیا اور ''فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ جیسی کتاب لکھی تو انہیں مزہ چکھانے کے لیے اس سیاسی شخصیت کو سامنے لایا گیا جس کی عوامی مقبولیت اس وقت سب سے زیا دہ تھی۔ 1969ء میں ایوب حکومت کے خلاف طلبہ تحریک زور پکڑنا شروع ہو گئی تھی اور اسی دوران راولپنڈی کے پولی ٹیکنیکل کالج کے ایک طالب علم عبد الحمید کو ایک پُرامن مظاہرے کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اگر اس وقت کے حالات اور مذکورہ احتجاج کی تفصیلات پر نظر ڈالی جائے تو گولی چلانا تو دور کی بات‘ لاٹھی چارج کی بھی ضرورت نہیں تھی مگر ایک طالبعلم کی ہلاکت کا مقصد یہی تھا کہ ملک بھر کے طلبہ کو سڑکوں پر لایا جا سکے اور اس کے لیے باقاعدہ طور پر کچھ انتظامی افسران کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یہ مخصوص مہرے ایک اشارے پر حالات کو اس حدتک بگاڑ دیتے کہ عوامی غصہ اور رد عمل مزید بڑھتا جاتا۔ اسی دوران یکایک چینی کی قیمت میں ''چھ آنے‘‘ کا اضافہ ہو گیا اور پھر ''چینی چور‘‘ کے نعرے ہر سو گونجنا شروع ہو گئے اور ہر بڑے شہر کی سڑکوں پر جلائو گھیرائو شروع ہو گیا۔ مزدور، وکلاء اور طالب علموں کے علاوہ سرکاری ملازمین کی تنظیمیں بھی میدان میں اتر آئیں۔ انجینئرز کے مظاہرے سترہواں گریڈ دینے کے مطالبات سے شروع ہوئے اور بڑھتے چلے گئے۔ اسی دوران یحییٰ خان نے ایوب خان کو گھر بھیج کر حکومت خود سنبھال لی اور ایک بار پھر مارشل لاء لگا دیا۔ ملک میں انتخابات تو ہو گئے مگر اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ عبور نہ ہو سکا اور مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع کر دیا گیا جو سانحہ مشرقی پاکستان پر منتج ہوا۔
ایوب خان کی طرح جب ذوالفقار علی بھٹو نے روس سے دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کیں اور امریکہ بھٹو کو عبرت کی مثال بنانے کے لیے کھل کر میدان میں اتر آیا۔ ہنری کسنجر کی بھٹو کو دی جانے والی دھمکی ایک طرف‘ حالات کی بساط پر اپنے مہرے اس طرح کھڑے کیے گئے کہ حالات خودبخود امریکی حق میں جھکتے چلے گئے۔ سب سے پہلے وزیر اعظم ہائوس میں ہمہ وقت بھٹو کے قریب رہنے والے افراد اور مختلف رپورٹس کے ذریعے انہیں باور کرایا گیا کہ آپ کی مقبولیت اس وقت آسمان کو چھو رہی ہے جبکہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں بکھری ہوئی ہیں‘ لے دے کر ایک ایئر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال ہے مگر اس کی پوزیشن یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے مقابلے میں وہ کچھ ووٹ تو لے جائے گی لیکن چند ایک نشستوں سے زیادہ کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ بھٹو کو بتایا گیا کہ کراچی میں جماعت اسلامی اور اصغر خان کی تحریک استقلال تین سے چار نشستیں ہی لے سکیں گی جبکہ سرحد میں جے یو آئی اور ولی خان کچھ نشستیں حاصل کر سکتے ہیں، باقی رہا اندرونِ سندھ اورپنجاب‘ تو وہاں آپ کا کوئی مقابلہ ہی نہیں، محتاط ترین سروے بھی یہی بتا رہے ہیں کہ آپ بھاری اکثریت سے جیتیں گے۔ بھٹو کے ایک قریبی مشیر رفیع رضا نے یہ رپورٹس دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ اگر وقت سے پہلے انتخابات کرا دیے جاتے ہیں تو اپوزیشن کو سنبھلنے کاموقع نہیں ملے گا اور پیپلز پارٹی یہ الیکشن سویپ کر جائے گی۔ پھر بھٹو نے رفیع رضا کے کہنے پر وقت سے پہلے انتخابات کرانے کے لیے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر دیے اور جیسے ہی انتخابات کاا علان ہوا‘ لاہور کے ایک علاقے میں رفیق باجوہ ایڈووکیٹ کے گھر ''پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی بنیاد رکھ دی گئی۔ پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ بھٹو مخالف ایسی تحریک چلی کہ زیڈ اے بھٹو چکرا کر رہ گئے اور جب انہوں نے مڑ کر دیکھا تو معتمد خاص رفیع رضا ملک سے باہر جا چکے تھے۔
موجودہ سیاسی منظرنامے میں چند ماہ پہلے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ اس لیے درست سمجھا جا سکتا ہے کہ جلد یا بدیر‘ چودھری پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو ہی جانا تھی ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے جس طرح آخری ووٹ رات گئے چکوال سے لایاگیا‘ وہ سب کے سامنے تھا اور کہانی ایک آدھ ممبر کے ادھر اُدھر ہونے سے بدل سکتی تھی لیکن کے پی اسمبلی کس نے تحلیل کرا کر ہاتھ باندھے‘ اس پر پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا کیونکہ جن دو افرادنے یہ فیصلہ کرایا‘ موجودہ دور کے رفیع رضا وہی ہیں۔ اس وقت ملک کے حالات جس ابتری کو چھو رہے ہیں‘ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ معاشی لحاظ سے ہر اشاریہ منفی ہے، عدل و انصاف اور انسانی حقوق کے معاملات بھی سب کے سامنے ہیں۔ ایسے میں اندرونِ ملک سے اور اوورسیز‘ اب تک نجانے کتنے لوگ یہ سوال کر چکے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی یونین موجودہ حالات پر خاموش کیوں ہیں۔ جیسا کے اوپر بیان کیا‘ امریکہ کی مرضی کے بغیر پاکستان میں کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔ اُس وقت تک کوئی تحریک چلانے کا ارادہ نہیں کیا جاتا جب تک اس کا کوئی مفاد نہ ہو اور جب تک تمام مقامی مہروں کو اپنی مرضی کے مطابق کھڑا نہ کر دیا جائے۔
پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں ایک اہم کردار برطانوی نشریاتی ادارے کے مارک ٹیلی کا تھا۔ لوگ شام ہوتے ہی اپنے اپنے ریڈیو کے گرد اس طرح بیٹھ جایا کرتے جیسے کسی لاٹری کے نتیجے کا اعلان ہونے والا ہو۔ ہر چھوٹے بڑے گائوں‘دیہات تحصیل اور قصبے میں لوگ مارک ٹیلی کو سننے کے لیے حقے کے ارد گرد بیٹھ کر انتظار کیا کرتے تھے اور اس کی ہر خبر کو سچ سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس وقت سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کو کئی سنتا ہی نہیں تھا۔ سرکاری ذرائع ابلاغ صبح و شام بھٹو کی مدح بیان کیا کرتے تھے جبکہ اپوزیشن کی کوریج نہ ہونے کے برابر تھی۔
مارچ 1977ء میں لاہور میکلورڈ روڈ اور منٹگمری روڈ کے سنگم پر واقع ایک بلڈنگ میں قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی میں ایک دو بدو لڑائی کا واقعہ راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے۔ اُسی دن ایک طویل قدو قامت کے امریکی شہری لوئس ڈوپری سے بھی ملاقات ہوئی جو پنجاب اسمبلی کے عقب سے ہمارے ساتھ منٹگمری روڈ کی جانب محو سفر تھا۔ جب پولیس آنسو گیس کے شیل پھینکتی تو ہم سب قلعہ گوجر سنگھ اور منٹگمری روڈ سے ملحقہ گلیوں میں گھس جاتے اور وہ امریکی بھی ہمارے ساتھ ان گلیوں کی طرف بھاگ اٹھتا۔ لوئس ڈوپری لاہور کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا‘ اس نے مجھے جو اپنا کارڈ دیا اس پر ''پروفیسر آف انتھرا پالوجی، یونیورسٹی آف کابل، افغانستان‘‘ پرنٹ تھا۔ مجھ سے اس نے تعلقات شاید اس لیے بڑھائے کہ ایک دفعہ میری اس سے تحریک استقلال کے سیکرٹری جنرل وزیر علی کے گھر رات کے کھانے پر ملاقات ہو چکی تھی۔ دوسرا‘ ایئر مارشل اصغر خان سمیت اس وقت کی سبھی بڑی سیاسی شخصیات سے میری اچھی خاصی جان پہچان تھی۔1977ء میں جب ایک روز نیلا گنبد سے نوابزدہ نصر اللہ خان کی قیادت میں جلوس نکلنا تھا تو اس سے ایک دن قبل نواب صاحب کے کمرے میں مارک ٹیلی سے ملنے کا اتفاق بھی ہوا۔ اگلے روز اس نے نیلا گنبد سے نکلنے والے اس جلوس کو بھرپور کوریج دی اور اس تحریک پر میرے تاثرات بھی اپنی ریڈیو نشریات میں نشر کیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا موجودہ عدم استحکام ہر لحاظ سے امریکی مفاد میں ہے وگرنہ اب تک ایسا طوفان برپا ہو چکا ہوتا کہ لوگ سبھی پرانی تحریکوں کو بھول چکے ہوتے۔ ترکی میں ایک سعودی صحافی کے قتل پر امریکہ‘ یورپ اور اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کی تنظیموں نے کئی ماہ تک آسمان سر پر اٹھائے رکھا۔ مشرف دور میں انسانی حقوق اور آئین و قانون کی با لا دستی کے نام پر کھمبیوں کی طرح اگنے والی تنظیموں نے وہ شور مچایا کہ لگتا تھا پاکستان میں کسی قانون کا کوئی وجود ہی نہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کے پس منظر میں مشرف اور منموہن سنگھ کے درمیان سیا چن اور کشمیر پر ایک تاریخی ڈیل کارفرما تھی جو امریکیوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی کیونکہ ایشیا میں امن ہو جانے سے اس کی دکانداری ختم ہو رہی تھی۔ بظاہر مشرف مخالف تحریک مارچ 2007ء میں چیف جسٹس کی بحالی کے نام پر شروع ہوئی مگر مرحوم پیر صاحب آف پگاڑا نے چند ماہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ''مارچ میں ڈبل مارچ ہونے جا رہا ہے‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved