گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ 9جون کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں مالی سال 2023-24ء کے لیے جو بجٹ پیش کیا اس پر یہ محاورہ بالکل فٹ بیٹھتا ہے کیونکہ جس سال کی کارکردگی (2022-23ء) کی بنیاد پر یہ بجٹ پیش کیا گیا ہے‘ اس میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ 0.29 فیصد رہی۔ ملک کے سب سے اہم سیکٹر یعنی زراعت میں گروتھ ریٹ 1.55اور اس کے بعد سب سے زیادہ آمدنی دینے والے سیکٹرز یعنی انڈسٹری 2.94اور سروسز میں 0.85فیصد تھی۔ یہ اعداد و شمار حکومت کی اپنی سرکاری دستاویز یعنی اقتصادی سروے برائے مالی سال 2022-23ء سے لیے گئے ہیں۔ اس دستاویز میں پیش کردہ دیگر شعبوں کے متعلق اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال کے مقابلے میں فی کس آمدنی میں 11.2 فیصد کمی ہوئی ہے‘ یعنی غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ سمندر پار کام کرنے والے پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر‘ جو ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں‘ میں بھی 13فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
پچھلے سال کی اس مایوس کن کارکردگی کی بنیاد پر وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں مالی سال 2023-24ء کے لیے جو بجٹ پیش کیا ہے‘ اس میں ہر سیکٹر میں گروتھ کا وعدہ کیا گیا ہے‘ لیکن ماہرین پوچھتے ہیں کہ یہ وعدہ کیسے پورا کیا جائے گا؟ مثلاً برآمدات میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے‘ لیکن قومی پیداوار میں اضافے کے بغیر برآمدات کا ہدف کیسے پورا کیا جا سکتا ہے؟ جبکہ پیداوار کے عمل کے لیے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور سرمایہ کاری کے لیے ملک میں لا اینڈ آرڈر میں بہتری اور سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی کا خاتمہ ضروری ہے۔ پاکستان ایک عرصے سے سیاسی عدم استحکام‘ غیر یقینی اور لا اینڈ آرڈر کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا شکار چلا آ رہا ہے‘ اور یہی ہمارے تمام خصوصاً معاشی مسائل کی جڑ ہے۔ جب تک ملک کی سیاست میں استحکام نہیں آتا‘ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر نہیں ہوتی اور سیاسی غیر یقینی ختم نہیں ہوتی معیشت کی گاڑی پٹڑی پر نہیں چڑھے گی۔ ان حالات کی وجہ سے پاکستان اپنے خطے میں بیرونی سرمایہ کاری میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی سالانہ شرحِ نمو بھی گر گئی ہے حالانکہ چند سال پیشتر یہ نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری کے حصول میں بلکہ جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں بھی بھارت اور بنگلہ دیش کا مقابلہ کرتا تھا۔
نئے بجٹ میں اگلے مالی سال یعنی 2023-24ء کے لیے جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں‘ ان کے حصول میں شدید شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی کی طرف سے کی جانے والی نکتہ چینی میں پولیٹیکل سکورنگ زیادہ اور معروضی حالات کے ایک حقیقت پسندانہ جائزے کی بنیاد پر ٹھوس دلائل کم ہیں۔ اس کے باوجود موجودہ حکومت ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کرنے سے گریزاں ہے۔ مثلاً مالی خسارے کو حکومتی اخراجات میں کمی کے ذریعے حل کرنے کے بجائے حکومت نے درآمدات کی کمی پر بہت انحصار کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملکی پیداواری عمل متاثر ہوا ہے کیونکہ صنعتوں کے لیے ضروری خام مال اور مشینری کا حصول مشکل ہو گیا۔ درآمدات پر پابندی سے ٹیکس آمدنی میں کمی ہوئی جس کی وجہ سے حکومت پچھلے سال کے لیے مقرر کردہ ریونیو کولیکشن کا ہدف پورا نہ کر سکی تھی۔ عام آدمی کو روزمرہ ضروریات سستے داموں مہیا کرکے حکومت جو ریلیف مہیا کر سکتی تھی‘ بھارت کے ساتھ تجارت کھول کر اسے حاصل کیا جا سکتا تھا۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے سے پاکستان کی معیشت کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اب تو ملک کے اندر سے بھی اس کے حق میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے علاقائی تجارت کو فروغ دینا چاہیے۔ اس وقت چین کے علاوہ ہماری دیگر کسی ہمسایہ ملک کے ساتھ قابلِ ذکر حجم میں دو طرفہ تجارت نہیں ہے۔بھارت ہمارا سب سے بڑا ہمسایہ ملک ہے۔ اس کے ساتھ ہماری سب سے لمبی بین الاقوامی سرحد ہے۔ اس سرحد پر کشمیر سے سندھ تک متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں سے آزادی سے پہلے سے تجارت ہوتی تھی۔ کچھ عرصہ پیشتر ان کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر بھارت کے 5اگست 2019ء کے کشمیر میں یک طرفہ اقدام سے یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں کے لیے نارمل تعلقات کا قیام نہ صرف مفید بلکہ ناگزیر ہے۔ پاکستان کے لیے اس حقیقت کو پہچاننا اور تسلیم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے اخراج کے بعد امریکہ اور مغربی ملکوں کی جیو پولیٹیکل ترجیحات میں اب پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہے۔ ان میں کچھ قرضے پاکستان نے مالیاتی اداروں سے لیے ہیں اور باقی دوست ممالک سے دو طرفہ بنیادوں پر لیے گئے ہیں۔ اب تک پاکستان نے قرضوں کے مسئلے کا حل نئے قرضے لے کر پرانے قرضے ادا کرنا نکالا ہے۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔
آئندہ مالی سال کے لیے پیش کیا جانے والا بجٹ گزشتہ کئی دہائیوں سے پیش کیے جانے والے بجٹوں سے مختلف نہیں۔ اخراجات کے ہیڈ ہیں: قرضوں اور ان پر جمع ہونے والے سود کی ادائیگی‘ دفاع اور سول ایڈمنسٹریشن کے اخراجات۔ ان تین بڑے حصوں میں قومی آمدنی کی تقسیم کے بعد ترقی اور تعمیر کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ بجٹ پیش کرتے وقت پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت جس رقم کا اعلان کیا جاتا ہے‘ مالی سال گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کٹوتی ہوتی رہتی ہے اور آخر میں یہ ڈویلپمنٹ بجٹ آدھا رہ جاتا ہے۔ پچھلی (پی ٹی آئی) حکومت میں یہی کچھ ہوا تھا۔ شروع میں اعلان کردہ ترقیاتی بجٹ کا حجم آہستہ آہستہ آدھے سے بھی کم رہ گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 2018ء کے بعد قومی ترقی کی سطح میں کوئی تبدیلی نہ آ سکی۔ بلند بانگ دعوؤں کے باوجود نہ کوئی بڑا منصوبہ تعمیر ہو سکا‘ نہ انفراسٹرکچر کے شعبے میں کوئی ترقی ہوئی۔ موخر الذکر شعبے میں جو تعمیراتی کام ہوا ہے‘ وہ پاک چین اکنامک کوریڈور کے تحت ہوا ہے۔بجٹ میں صنعت کاروں اور کاروباری حلقے کے لیے چند رعایات کا اعلان کیا گیا ہے جس سے ان حلقوں میں بجٹ کو خوش آمدید کہا گیا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا پاکستان کی مردہ معیشت میں جان پڑ جائے گی؟ اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے‘ کیونکہ سابقہ ادوار کی طرح اگلے برس کے دوران بھی پاکستان کو قرضوں کی صورت میں بیرونی ذرائع پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ معاشی طور پر پاکستان بدستور دوسرے ممالک سے امداد کا محتاج رہے گا اور جو ملک معاشی طور پر آزاد اور خود مختار نہ ہو وہ سیاسی طور پر اپنی مرضی کا مالک کیسے ہو سکتا ہے؟
ملک کی معاشی تاریخ شروع سے ہی ہمیں بتاتی ہے کہ اپنے پائوں پر آپ کھڑا ہونے میں ناکامی سے ہمیں سیاسی میدان میں بھی اپنی آزادی اور خود مختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑا ہے۔ ابھی تک ہم اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ معیشت کی خراب صورتحال‘ جو کہ موجودہ بجٹ کی تجاویز کی شکل میں صاف نظر آتی ہے‘ کو صرف جرأت مندانہ سیاسی فیصلوں سے ہی بدلا جا سکتا ہے۔ عقل مند کہتے آئے ہیں کہ چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے چاہئیں‘ مگر ہمارے حکمرانوں کے کانوں تک یہ نصیحت ابھی تک نہیں پہنچی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ملک میں بڑھتے ہوئے مسائل سے منہ پھیر کر کچھ اور معاملات کو اپنی ترجیحات بنا لیا۔ اس سے ہمارا ملک سیاسی ‘ معاشی اور سماجی عدم تحفظ کا شکار ہوا اور یہی ہمارے تمام مسائل کی اصل وجہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved