ایران کے ایک جمشید نامی بادشاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے پیالے میں جھانک کر واقعاتِ عالم کی جھلک دیکھ لیا کرتا تھا۔ دنیا بھر میں جمشید کے اس پیالے کی ایسی دھوم مچی کے اسے جامِ جمشید کے ساتھ ساتھ ''جامِ جہاں نما‘‘ بھی کہا جانے لگا۔ آج انٹرنیٹ و سمارٹ فون اس ''جامِ جہاں نما‘‘ کا متبادل نظر آرہا ہے۔ آج جو مادی ترقی ہو چکی ہے‘ اس کا نصف صدی پہلے تک ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ دنیا ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے۔ مہینوں کے فاصلے گھنٹوں تک محدود ہو گئے ہیں۔ ہر لمحہ نئی ایجادات نے انسانی زندگی کو مسخر کر لیا ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت نہ صرف مواصلاتی نظام بلکہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ تاہم تحقیقات کے طویل عرصے بعد کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر کے ملاپ سے ایک ایسی ٹیکنالوجی منظر عام پر آئی ہے جسے مصنوعی ذہانت (Artificial intelligence) کا نام دیا گیا ہے‘ AI جس کا مخفف ہے۔ مصنوعی ذہانت کے تحت ChatGPT کا فیچر متعارف کروایا گیا۔مصنوعی ذہانت کے حیران کن کارناموں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ جدید ٹیکنالوجی مستقبل میں انسانوں کیلئے کن کن مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ حال ہی میں اس ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ ممکن ہو پایا ہے کہ انسان کمپیوٹر میں شامل کردہ کسی بھی تحریر (Data feed) کو کسی بھی معروف شخصیت کی آواز میں ریکارڈ کر سکتا ہے؛ چنانچہ ماہرین بخوبی واقف ہیں کہ مصنوعی ذہانت کسی کے لیے کس حد تک تکلیف یا نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
ایک مشہور اسرائیلی مورخ یووال نوح ہراری کی کتاب Sapeins دنیا میں بہت زیادہ فروخت ہوئی‘ اس میں ہراری کا مقدمہ بھی یہی تھا کہ مصنوعی ذہانت اور روبوٹس نوعِ بشر کو غلام بنا لیں گے یا کرۂ ارض سے مکمل طور پر ختم کر دیں گے۔ ChatGpt کو پہلے سے ٹرین کیا جاتا ہے اور جب کوئی صارف اس سرچ انجن کے ذریعہ کوئی معلومات‘ واقعات اور مسائل کا حل دریافت کرتا ہے تو وہ اس سوال کے متعلق اس میں موجود ڈیٹا کو ہی سکرین پر پیش کرتا ہے۔ اس کو سان فرانسکو کی ایک کمپنی اوپن اے آ ئی OpenAIنے نومبر 2022ء کو ڈویلپ کیا تھا۔ اس کمپنی کو سات سال پہلے دسمبر 2015ء کو سام التمان اور ایلون مسک نے قائم کیا تھا۔ اس کمپنی میں ایک مشہور ٹیکنالوجی کمپنی مائیکرو سافٹ نے 2019ء میں ایک ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی‘ چونکہ اس ایپلی کیشن کو چیٹ بوٹ بھی کہا جاتا ہے اور چیٹ بوٹ دو لفظوں سے مل کر بنا ہے۔پہلا لفظ چیٹ (گفتگو) اور بوٹ کے معنی روبوٹ کے ہیں‘ جب کوئی شخص اس چیٹ بوٹ پر کام کرتا ہے تو گویا وہ روبوٹ سے کام کرواتا ہے۔ یہ چیٹ بوٹ کل سو زبانوں پر مشتمل ہے۔
اس کی لانچ کے ابتدائی ایک ہفتے میں دس لاکھ سے زائد صارفین نے اس پلیٹ فارم پر خود کو رجسٹر کروایا تھا۔ صرف ایک ماہ میں یہ تعداد 20 لاکھ تک تعداد پہنچ گئی تھی۔ چیٹ جی پی ٹی بوٹ ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام ہے جو روبوٹ کی طرح خودکار طریقے سے کام کرتا ہے اور اپنے کام کیلئے انسانی دماغ کی طرح اپنی ذہانت سے کام لیتا ہے جسے ہم مصنوعی ذہانت کہتے ہیں۔ اس ایپلی کیشن کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ جب اس سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو انٹرنیٹ پر دستیاب لامحدود ڈیٹا میں سے سوال سے متعلق معلومات اکٹھا کرتا ہے اور اپنی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے اس کا جواب تیار کرکے صارف کو مہیا کر دیتا ہے۔ انسانی دماغ بھی کوئی جواب دینے کیلئے اس ڈیٹا کو استعمال کرتا ہے جو اس کی یادداشت میں محفوظ ہوتا ہے۔ اس یادداشت کا تعلق انسان کے مشاہدے اور اس علم سے ہوتا ہے جو اس نے حاصل کیا ہوتاہے۔ جی پی ٹی بوٹ کی رسائی انٹرنیٹ پر پھیلے ہوئے لا محدود ڈیٹا تک ہے‘ اس لیے اس کے پاس زیادہ بڑا ذخیرہ ہے۔ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے جی پی ٹی بوٹ اپنے ہر تجربے سے سیکھتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی سطح رفتہ رفتہ بہتر ہو رہی ہے۔ اگرچہ سیاست کے شعبے میں جی پی ٹی بوٹ کا استعمال ابھی بہت محدود ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے استعمال میں اضافہ سیاست کا رخ تبدیل کر سکتا ہے۔ جاپان کے وزیراعظم فومیو کشیدا کا سامنا مصنوعی ذہانت کے بوٹ سے اس وقت ہوا جب انہوں نے حزبِ اختلاف کے ایک رکن پارلیمنٹ کے صحت کی اصلاحات سے متعلق سوالات کے جواب دیے۔ ان کے ایک حریف نے یہی سوال چیٹ جی پی ٹی کے سامنے رکھے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ بوٹ کے جوابات وزیراعظم کی نسبت زیادہ مخلصانہ تھے۔ کشیدا نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جوابات کی نوعیت زیادہ خصوصی تھی۔ فرانسیسی ٹریڈ یونین کی سربراہ سوفی بینٹ کے صدر ایمانوئل میکرون کی تقریر پر لیے گئے سخت تنقیدی جائزہ سے متعلق سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ ایسے گہرے تنقیدی نکات چیٹ جی پی ٹی ہی تیار کر سکتا ہے۔ امریکی کانگریس کی ایک خاتون رکن نینسی میس نے سینیٹ کمیٹی میں مصنوعی ذہانت کے ممکنہ استعمال اور نقصانات پر 5منٹ کی تقریر کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے تقریر سے پہلے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے یہ تقریر چیٹ جی پی ٹی بوٹ سے لکھوائی تھی۔ ایک امریکی سیاستدان بیری فائن گولڈ نینسی کی ٹیم نے میساچوسیٹس سینیٹ کیلئے ایک قانونی مسودہ کی تیاری کیلئے چیٹ جی پی ٹی سے مدد لی تھی۔ سیاست کے حوالے سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے بوٹ کی نہ صرف ذاتی پسند اور ناپسند ہوتی ہے بلکہ وہ اس کا اظہار بھی کر دیتا ہے۔ اس وقت تنازع کھڑا ہوا جب چیٹ جی پی ٹی سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف میں ایک نظم لکھنے کیلئے کہا گیا لیکن اس نے نظم لکھنے سے انکار کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کی مدح میں کئی اشعار لکھ ڈالے۔
دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے نئی ایجادات اور مختلف کام انجام دیے جا رہے ہیں۔ چین اور بھارت نے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ نیوز اینکر متعارف کرائی ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے ترکیہ نے مسلم دنیا کا پہلا ڈرون ''اکینسی ڈرون‘‘ بھی تیار کر لیا ہے۔مصنوعی ذہانت اور روبوٹ کے ملاپ سے انسانی شکل و صورت‘ قد و قامت والے ڈھانچے بھی تیار ہو چکے ہیں جو انسان کی طرح سوچتے سمجھتے ہیں اور احساس و جذبات کی شناخت اور ان کا ردِعمل دینے کے بھی قابل ہیں۔ صوفیہ نامی روبوٹ‘ جسے 2016ء میں متعارف کروایا گیا‘ اسے AI کے مستقبل کا ترجمان کہا جا رہا ہے۔ مائیکرو سافٹ نے اس پر اربوں ڈالر خرچ کیے۔ البتہ پرائیویسی خدشات کی بنا پر اٹلی میں اس پر پابندی لگا دی گئی۔ متعدد ماہرین کے مطابق یہ چیٹ بوٹ لوگوں کو کاہلی و سستی کا شکار بنا سکتی ہے۔ طلباء اور محققین کے تخلیقی صلاحیتوں میں بگاڑ پیدا کر سکتی ہے۔ صحافیوں کی نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں کیونکہ جب سارا آرٹیکل اور خبر چیٹ بوٹ ہی دے گا تو صحافیوں کی ضرورت کیا پڑے گی؟ جب بچہ اپنا ہوم ورک چیٹ بوٹ ہی سے کرا لے گا تو بچے کو سکول جانے کی ضرورت کیا پڑے گی؟ جب سارے سوالوں کا جواب چیٹ بوٹ ہی سے حاصل کر لیا جائے گا تو اساتذہ کی ضرورت کیا پڑے گی؟ برطانیہ میں ایگزام ریگو لیٹر اور شعبۂ تعلیم کی اس چیٹ بوٹ پر گہری نظر ہے تاکہ طلبا امتحان میں نقل نہ کر سکیں۔ایلون مسک بھی متنبہ کر چکے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ہماری معاشرت کو تباہ کر سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹ کے خالق جیفری ہنٹن نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ یہ ایجاد انسانی دماغ کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے گوگل میں اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا کہ یہ ٹیکنالوجی ہماری معاشرت اور انسانیت کیلئے گہرے خطرات کا سبب بن سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے کمپیوٹر بوٹ کی ایجاد نے پہلے تو سب کو خوش اور حیران کیا کردیا لیکن اب اس ایپ کی غیرمعمولی ذہانت نے خوف طاری کر دیا ہے کہ وہ انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے مصنوعی ذہانت‘ انقلاب یا تباہی دستک دے رہی ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved