ہری بھری وفاداروں کو اپنی جانب لبھا رہی ہیں۔ برصغیر کی سیاست اور معاشرت میں یہ کوئی نئی یا اَنہونی بات بھی نہیں۔ اس ملک کی سیاست پاکستان بننے سے پہلے ہی تھانے اور کچہری سے وابستہ رہی ہے۔ بہت سے لوگوں کو ڈی سی اور ڈی ایس پی کی مہربانی اور حصے داری سے لیڈر بنتے دیکھ چکا ہوں بلکہ جنوبی پنجاب میں تعینات ایک اسسٹنٹ کمشنر‘ جو بعد میں بطور سیکرٹری ریٹائر ہوئے‘ بتاتے ہیں کہ وہ مظفر گڑھ میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھے اور اس وقت کا ایک نوجوان زمیندار‘ جو بعد میں ملکی سیاست میں انتہائی اہمیت کا حامل رہنے کے علاوہ پنجاب کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا‘ اس سے ملنے کیلئے آیا۔ گرمیوں کی شام تھی اس لیے اسے بیٹھک میں بٹھایا لیکن زمیندار مہمان نے ضد کی کہ اگر ہم بالکونی میں بیٹھ جائیں تو مہربانی ہو گی جس پر ملازم کو کرسیاں اور میز بالکونی میں رکھنے کا کہا۔ وہاں بیٹھے ہوئے جب اسسٹنٹ کمشنر نے بالکونی میں بیٹھنے کی وجہ پوچھی تو نوجوان زمیندار کہنے لگا کہ سائیں یہاں جب لوگ مجھے آپ کے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے ہوئے دیکھیں گے تو علاقے میں یہ بات پھیل جائے گی کہ میری آپ سے (بڑے صاحب) بڑی دوستی ہے جس سے علا قے میں میرا رعب بن جائے گا۔ یہ کوئی خیالی بات یا قصہ نہیں بلکہ طارق اسماعیل‘ جو بطور سیکرٹری ریٹائر ہوئے‘ خود سنایا کرتے تھے۔
اگلے روز کراچی کے ایک ہال میں جو سات آٹھ سیاستدان اکٹھے ہوئے ‘ یہ ابھی ابتدا ہے کیونکہ جو اطلاعات مل رہی ہیں ان کے مطابق کے پی اور سندھ میں سیاستدانوں ایک بڑی لاٹ اکٹھی ہو رہی ہے جو یا تو اسلام آباد یا پھر پشاور میں اپنی رونمائی کرائے گی۔ 8جون کو جہانگیر ترین نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں اپنی نئی سیاسی جماعت استحکامِ پاکستان پارٹی کے قیام کا اعلان کیا۔اس موقع پر علیم خان ‘عمران اسماعیل‘ علی زیدی‘ فواد چودھری‘ فردوس عاشق اعوان اور فیاض الحسن چوہان سمیت پی ٹی آئی چھوڑنے والے درجنوں افراد موجود تھے۔ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے اور میڈیا سے منسلک افراد جب لاہور کے پنج ستارہ ہوٹل کی لابی میں دور دراز سے آئے الیکٹ ایبل سے یہ پوچھ رہے تھے کہ ووٹرز کا ٹرینڈ تو کسی اور طرف ہے‘ پھر آپ اس نوزائیدہ جماعت میں کیوں شامل ہوئے ہیں؟ اگر آپ نے سیاست میں رہنا ہے اور قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینا ہے تو پھر پی ٹی آئی کا ووٹ بینک چھوڑ کر اس طرف آنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ اس سوال پر جو جواب دیا گیا وہ اس قدر حیران کن تھا کہ سوال پوچھنے والے چکرا کر رہ گئے کیونکہ ان سب کا کہنا تھا کہ جس طرح پہلے آر ٹی ایس بیٹھا تھا‘ اسی طرح پھر بیٹھ جائے گا۔ کیا 2013ء کا انتخابی نتیجہ صحافیوں کے سامنے نہیں؟ اس وقت تو پھر بھی عدلیہ کے لوگ ریٹرننگ افسران تھے‘ اب تو اتحادی حکومت کے لگائے گئے اپنے ڈپٹی کمشنرز ریٹرننگ افسران ہوں گے‘ اس لیے ووٹ کسی کا بھی ہو‘ جیت اسی کی ہو گی جس کے ساتھ ریٹرننگ افسران اور مقامی انتظامیہ ہو گی۔ لگتا ہے کہ یہی ہری بھری گھاس کی تصویریں دیکھ کر لوگ سبز چراگاہوں کی جانب کھینچے چلے جا رہے ہیں۔ملکی تاریخ دیکھی جائے تو مختلف ادوار میں سیاسی اتحاد اور جماعتیں بنتی ٹوٹتیں رہی ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کی بات کی جائے تو بظاہر اس میں بڑی تعداد میں وہ سیاسی رہنما شامل ہیں جو نو مئی کے واقعے سے قبل تحریک انصاف کا حصہ تھے‘ تاہم بعض مبصرین نزدیک اس نئی پارٹی کے قیام کی وجہ صرف 9 مئی کے واقعات کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ملک میں بارہا سیاسی جماعتیں مصنوعی طریقوں سے تشکیل پاتی رہی ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد طاقتور وں کی اجارہ داری قائم رکھنا ہوتا ہے مگر کچھ عرصے بعد جب وہ سیاسی جماعت اتنی پرورش پا جاتی ہے کہ وہ خود پر اعتمادکرنے لگتی ہے تو پھر سے ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔
دانشور یا صحافی حضرات کے علاوہ ملکی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے وہ چند لوگ ابھی زندہ ہیں جنہوں نے جنرل ایوب خان کے دور کی سیاست دیکھ رکھی ہے ‘ انہیں تو یہ بات سمجھنے میں شاید آسانی ہو لیکن وہ نئی نسل جسے وہ سیاسی ماحول دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا‘ اسے بتانا ضروری ہے کہ اس وقت حکومت سازی کیلئے پاکستان کی سیاسی جماعتیں نہ تو کہیں جلسے جلوس کرتی تھیں اور نہ ہی وہ ریلیاں نکالتی تھیں بلکہ ملکی سیاست کے فیصلے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر اس طرح ہوتے تھے کہ اٹک سے لے کر رحیم یار خان تک ہر ضلع اور تحصیل کے بڑے بڑے جاگیرداروں اور ان کے خاندانوں کو اپنے ساتھ ملا لیا جاتا تھا۔ پھر ہی لوگ اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوتے تھے لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی میدان میں آئی تو پنجاب کے یہ بڑے بڑے برج عام اور غیر معروف لوگوں کے ہاتھوں بری طرح پٹ گئے لیکن بعد میں یہ ہوا کہ پھر یہ سب جاگیردار خاندان پیپلز پارٹی میں اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت شامل ہو نا شروع ہو گئے۔ اس دفعہ ڈرائنگ رومز یا بند کمروں میں بیٹھے کنگ میکرز کی جانب سے جہانگیر ترین اور علیم خان کے ہاتھوں میں وہی کتاب پکڑا دی گئی ہے جس میں ہر تحصیل اور ضلع کے بڑے بڑے زمینداروں اور بااثر افراد کی تفصیلات درج ہیں۔جن کا اپنے اپنے حلقوں میں اثر و رسوخ ہے اور وہ اپنے سیاسی دھڑوں اور برادری کی وجہ سے الیکشن میں مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئیں گے۔ لیکن یہ معاملہ کچھ اس طرح پیچیدہ ہو چکا ہے کہ بہت سے وہ لوگ جنہیں تحریک انصاف کا ٹکٹ مل چکا تھا‘ وہ تحریک انصاف چھوڑ کر اب استحکامِ پاکستان پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں‘ اس لیے وہ اب تحریک انصاف کے ووٹ بینک سے استفادہ نہیں کر سکیں گے۔ دوسرا یہ کہ استحکامِ پاکستان پارٹی کے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ الحاق کے بعد آئی پی پی کے امیداواروں کے لیے اگلا مشکل مرحلہ مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ ہولڈر ہے۔ اب یا تو مسلم لیگ (ن)کا امیدوار الیکشن لڑے گا یا استحکام پاکستان پارٹی کا۔ اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے ترین صاحب لندن میں موجود ہیں تاکہ ایک ایک نشست کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جا سکے۔ اس سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بعد ٹکٹ سے محروم رہنے والوں کی جانب سے جو ردِ عمل ظاہر کیے جانے کا امکان ہے ‘ وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
دوسری جانب نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈران سے جب اگلے الیکشن کے لائحہ عمل سے متعلق بات ہوتی ہے تو وہ 2013ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہی ہوگا اور بالکل ویسا ہی رزلٹ آئے گا جو ہم چاہیں گے کیونکہ اب تو ریٹرننگ افسران بھی ہمارے ہوں گے۔ کراچی سے آئی پی پی میں شامل ہونے والے لوگوں میں سے کوئی بھی اگلے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اب کے بار سوائے رسوائی کے انہیں کچھ بھی نہیں ملنے والا اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے آئی پی پی میں شامل ہو کر غلطی کی ہے۔ ہمارے چند باخبر دوست تو غضب کہانیاں سناتے ہیں کہ اس وقت ملکی سیاست میں ''جگتو فرنٹ‘‘ اور ''جھرلو فرنٹ‘‘ شروع ہونے والا ہے۔ دیکھتے ہیں سیاست کا نیا سورج ہمیں کیا دکھاتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved