اسے کسی نے بتا دیا تھا کہ اس کا باپ طبعی موت نہیں مرا بلکہ اپنے بھائی کے ہاتھوں قتل ہوا ہے جو اس کی ماں سے شادی کرکے اس کے باپ کی جگہ لے چکا ہے۔ یوںوہ سب کچھ جس کا وہ تنہا وارث تھا ، اب اس کے چچا کے قبضے میں تھا۔ اگرچہ اس کی ماں اور چچا اس سے بے حد محبت کرتے تھے لیکن دل میں پڑی اس گرہ کا وہ کیا کرتا۔کبھی سوتیلے باپ اور ماں کی محبت سچی لگتی اورسب باتیں جھوٹی۔ چچا کا کوئی اوربچہ نہیں تھا اس لیے اس کی توجہ کا مرکز وہی نوجوان بھتیجا تھا جسے وہ اپنے جانشین کے طور پر تیار کرنا چاہتا تھا۔لیکن اس کے دل میں اتنا غبار جمع تھا کہ وہ تمام کوششوں کے باوجود اپنی ماں اور سوتیلے باپ کے بارے میں مثبت نہیں سوچ پاتا تھا۔ ان کی محبت کے ہر اظہار کے پیچھے اسے کوئی نہ کوئی غرض نظر آتی اور ہر نصیحت میںاپنی بربادی کا سامان۔چچا کے قاتل ہونے یا نہ ہونے کے سوال نے اسے اتنا الجھا دیا کہ دنیا کی ہر چیز سے اس کا دل اچاٹ ہوگیا۔ اپنی ماں کوبے وفاجان کر دنیا کی ہر عورت اس کے نزدیک بے وفا نہیں تو ناقابل اعتماد ضرور ٹھیری۔ جن لوگوں نے اسے ا لجھن سے نکالنے کی کوشش کی ، ان کے سامنے اس نے پاگلوں جیسی حرکتیں کرنا شروع کردیں۔ باتوں کے دوران کبھی تو وہ کاٹ کھانے کو دوڑتا اور کبھی الماری پر چڑھ کر گفتگوکرنے لگتا۔ یہ دیکھ کر سب اس کی ذہنی صحت کے بارے میں مشکوک ہوگئے ۔ بڑی حد تک یہ بات درست بھی تھی۔ اس کے دل میں اُگے شک کے جنگل میں اس کے ہوش و حواس گُم ہو چکے تھے۔ مستقبل میں دیکھنے کی بجائے وہ ماضی کے ایک ایسے واقعے کا اسیر ہوچکا تھا جس کی صداقت کے بارے میں خود اسے بھی یقین نہیں تھا۔ اپنی ماں اور سوتیلے باپ سے براہ راست بات کرنے کی بجائے اسے خودکلامی کا مرض لاحق ہوگیا۔ پھر اسے فضا میں تصویریں نظر آنے لگیں جن سے وہ باتیں کرتا ۔ وہ نوجوان جسے مستقبل کا بادشاہ بننا تھا ، کسی پر تو کیا خود اپنے آپ پر اختیار کھو بیٹھا۔ اپنے بنائے ہوئے تصورات میں کھوکر اس نے ایک دن اپنے سوتیلے باپ کے قتل کی ٹھان لی ۔ وہ خنجر لے کر اپنے ہی گھر میں ایک جگہ چھپ کر کھڑا ہوگیا اور انتظار کرنے لگا کہ کب اس کی ماں کا خاوند یہاں سے گزرے اور وہ اسے مارڈالے۔ پردے کے قریب آہٹ سن کراس نے وار کیالیکن اس کا نشانہ اس کے چچا کا قریبی دوست بن گیا۔ تقدیر کا تیر کمان سے نکل کر اس الجھے ہوئے نوجوان کے روشن مستقبل میں پیوست ہوچکا تھا۔ اس کا الجھاؤ اسے زندگی کی نسبت موت کے زیادہ قریب لے گیا۔ اور پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو بے مقصد الجھنے والوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں قتل ہوجانے والے شخص کے بیٹے کی تلوار کا نشانہ بن گیا۔ وہ‘ جسے بادشاہ بننا تھا، بے کسی ، بے بسی اور بے یقینی کا استعارہ بن کر شیکسپیئر کے شاہکار ڈرامے ہملٹ(Hamlet) کا ہیرو بن گیا۔ آج بھی اگر کوئی شخص بے یقینی اور تذبذب کاشکار ہو کر اپنے حالات پر قابو نہ پاسکے تو اسے ہملٹ کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے لیے ہملٹ ایک المیہ اس لیے نہیں کہ وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا بلکہ اس لیے ہے کہ اپنے خلجان میں مبتلا ہوکر کچھ کرنے سے زیادہ کھو دیا۔ شہزادگی سے لے کر تاج وتخت کے امکانات اس کی اولوالعزمی کی بجائے حماقت کی نذر ہوگئے۔ عظمت کی شاہراہ سے اتر کراس نے ذاتی انتقام کی پگڈنڈی پر قدم کیوں رکھ دیا؟ اس سوال پر چھ صدیوں سے غور ہورہا ہے اوراس کا کوئی متعین جواب آج تک تلاش نہیں کیا جاسکا۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ انفرادی کہانی ہم سب پر کیوں منطبق ہوجاتی ہے۔ایک سے ایک نیا خلجان ہماری زندگیوں میں کیوں در آتا ہے؟ افراد تو مسئلے کے تعین اور اس کے حل کی تلاش میں غلطیاں کرتے رہتے ہیں لیکن ہم بحیثیت قوم کیوں اس معاملے میں بے بسی کی تصویر بنے رہتے ہیں؟ ذرا ا ن قومی اور بین الاقوامی مسائل کی فہرست بنائیے جن پر کسی مؤقف کی تلاش میں ہم سرگرداں ہیں اور کوئی ایسا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں جو درست ہے نہ ہمیں پسند ہے۔ اس فہرست میں یقینی طور پر سب سے پہلے دہشت گردی کا معاملہ آئے گا۔ اس مسئلے پر سرسری سی نظر بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ بطور قوم ہم اس کے اسباب پر یکسو ہیں نہ اس سے نمٹنے کی حکمت عملی پر ۔ کسی کے خیال میں اس کا آغاز انیس سو اڑتالیس میں کشمیر میں قبائلی مجاہدین بھیجنے سے ہوا اور کوئی اسے جنرل ضیاء الحق کے کھاتے میں ڈال کر گویا حرفِ آخر کہہ دیتا ہے۔اس معاملے کی تاریخ پر ہمارے ہاں جو اختلافات پائے جاتے ہیں، پورے شدو مد کے ساتھ اس کے حل پر بھی موجود ہیں۔ بظاہر ہم اتفاق رائے سے دہشت گردی کو مذاکرات کے راستے ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتفاق رائے کرنے والوں کا بڑا حصہ اس حکمت عملی کی ناکامی کے لیے دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہاہے۔ سمجھدار لوگوں کی اکثریت خود کو ایسی مچھلی کی سی حالت میں سمجھتی ہے جس نے اگر کانٹے پر لگے چارے کو منہ نہ مارا تو بھوک سے مرجائے گی۔ الجھاؤ کی اس فہرست میں دوسرے نمبر پر یقینا زبان کا معاملہ آئے گا۔ انگریزی ہمیں آتی نہیں اور اردو پر ہم توجہ نہیں دیتے۔ دستور واضح طور پر کہتا ہے کہ چودہ اگست انیس سو اٹھاسی کے بعد وفاقِ پاکستان کی دفتری زبان اردو ہو گی لیکن مجال ہے دستور کی ہر شق پرفیصلے صادر فرمانے والے آئین کی اس دفعہ کو بھی اپنی توجہ کے قابل سمجھیں۔ اس معاملے پر اوپر سے نیچے تک مجرمانہ خاموشی طاری ہے۔ کہنے کو عمران خان اور شہباز شریف اپنی ہر تقریر میں پاکستانیت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں انگریزی کا شیدا ہیں۔ پہلے پنجاب میں انگریزی کو ترقی کا زینہ سمجھ کر واحد ذریعہ تعلیم قرارد دیا گیا اور اب خیبر پختون خوا میں یہی حرکت فرمائی جا رہی ہے۔ انگریزی بمقابلہ اردو اور دیگر صوبائی زبانوں کے مسئلے پر ہم گزشتہ پینسٹھ سال سے الجھے ہوئے اور یہ دونوں حضرات اس مسئلے کو دلدل کی شکل دے رہے ہیں۔ دراصل زبان کا انتخاب یہ تعین کرتا ہے کہ ہم کیا ہیں، ہمیں کیا بننا ہے اور اپنے بچوں کو کیا بنانا ہے۔ لیکن ہم اس طرح کے کسی بھی فیصلے سے ڈرتے ہیں اس لیے انیس سو تہتر میں طے شدہ اس معاملے کوہم نے قومی سطح پر نافذ کرنے کی بجائے ہر فرد پر چھوڑ دیا ہے۔ ان دو مسئلوں پر ہماری الجھنوں کی فہرست ختم نہیں ہوتی ، اس میں قانون کی عملداری کے سادہ سے اصول سے لے کر بین الاقوامی سیاست تک کے بے شمار مسائل شامل کیے جاسکتے ہیں۔ جب ان مسائل کے حل کی بات آئے گی تو ہم سب ہملٹ بن جائیں گے جو بروقت فیصلہ نہیں کر سکا اور کسی کی زہر آلود تلوار کا نشانہ بن گیا۔اندھیرے میں چلنے والوں کو مٹی کا دیا بھی راہ دکھانے کے لیے کافی ہے مگر دھند میں لپٹے راستے پرخورشید بکف مسافر بھی بے بس ہوتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved