وفاقی حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں تونائی بحران کے حل اور خاتمے کے لیے کئی اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے جن میں تونائی بچت پالیسی کے تحت دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے، اس حوالے سے ہم پہلے ہی ایک کالم میں تفصیل سے بات کر چکے ہیں کہ کاش ایسا ہو جائے کیونکہ اس سے قبل موجودہ حکومت نے دسمبر 2022ء میں بھی توانائی بچت پالیسی کا اعلان کیا تھا؛ تاہم اس وقت ملک کے دو اہم صوبوں‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا‘ میں پی ٹی آئی کی حکومتیں تھیں جنہوں نے وفاق کے احکامات اور ہدایات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اور یوں اس وقت کاروباری مراکز جلدی بند کرنے کی حکمت عملی ناکام ہوگئی تھی لیکن ان صوبائی حکومتوں کے خاتمے کے بعد وفاق نے خود بھی اس پالیسی پر عملدرآمد میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ البتہ اب وفاقی کابینہ کو پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک میں اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں آئے گی بلکہ اب خود حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی پالیسی کو کتنی سنجیدگی کے ساتھ لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ وفاقی وزارتِ خزانہ کی جانب سے پیش کردہ فنانس بل 2023-24ء کے مطابق سولر پینل کی مینوفیکچرنگ کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے، جبکہ سولر پینل کی بیٹریز کی تیاری کے خام مال پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔ فنانس بل کے مطابق سولر پینل کی مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی ختم ہو گئی ہے، سولر پینل کے انورٹر کے خام مال پر بھی ڈیوٹی کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ یقینا حکومت کے اس اقدام کے بعد زیادہ سے زیادہ لوگ شمسی توانائی کے حصول کے لیے راغب ہوں گے اور اس کے نتیجے میں لوڈشیڈنگ اور مہنگی بجلی سے جان چھوٹ جائے گی۔
ایک بار پہلے بھی اپنے ایک کالم میں رائے دی تھی کہ سولر پینل کی فراہمی کے لیے غریب اور متوسط طبقے کو سبسڈی دی جانی چاہئے۔ ایک سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں کو اگر مفت سولر سسٹم دیا جائے تو شاید یہ حکومت اور عوام‘ دونوں کے لیے زیادہ مفید ہو گا، اسی طرح 100 یونٹس سے زیادہ اور 300 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والے شہریوں کو آدھی قیمت پر سولر سسٹم فراہم کیا جائے جبکہ اس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے شہریوں کے لیے بھی رعایتی پیکیج کا اعلان کیا جائے اور ایسا قابلِ عمل منصوبہ بنایا جائے جس پر عمل درآمد بھی ہو سکے اور لوگوں کو حقیقی معنوں میں فائدہ بھی ہو۔ شمسی توانائی سے جہاں شہریوں کو مہنگی بجلی اور بھاری بلوں سے نجات ملے گی‘ وہیں ماحول بھی اچھا ہو گا، مہنگا درآمدی ایندھن بھی بچے گا اور سب سے بڑھ کر‘ بجلی کی بچت سے لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ اس اقدام سے عوام کو تو مالی فائدہ ہو گا ہی‘ حکمرانوں کو بھی سیاسی طور پر مستقبل میں بہت فائدہ ہو گا۔
ملک بھر میں سولر سسٹم کی تنصیب کے لیے حکومت اور نجی شعبے‘ دونوں کو آگے آنا ہو گا، حکومت شمسی توانائی کے فروغ کی پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیے نئی آبادیوں میں بجلی کے کنکشنز کچھ عرصہ کے لیے بند کر دے تاکہ لوگ متبادل نظام کی طرف راغب ہوں اور متبادل ذرائع اپنائیں۔ اسی طرح کاروباری مراکزاور شاپنگ مالز میں بڑے سٹورز کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ اگر انہوں نے مخصوص حد سے زیادہ لائٹس لگانی ہیں تو پھر وہ اپنا سولر انرجی سسٹم نصب کریں۔ بڑے شہروں میں زیادہ تر پبلک پارکس اور شاہراہوں پر نصب لائٹس پہلے ہی سولر انرجی پر چل رہی ہیں۔ اب شادی ہالز، سینما گھروں اور دیگر تفریحی مقامات کوبھی شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
سرکاری تعلیمی اداروں کو حکومت ترجیحی بنیادوں پرسولر انرجی سسٹم فراہم کرے جبکہ نجی تعلیمی شعبے کو بھی شمسی توانائی کے لیے خصوصی پیکیج دیا جائے تاکہ پرائیویٹ سکولز، کالجز اور جامعات بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ملک بھر میں شاہراہوں اور چوراہوں میں لگے ٹریفک سگنلز کو بھی فوری طور پر سولر سسٹم کے ساتھ منسلک کرکے نہ صرف بجلی کی بچت کی جا سکتی ہے بلکہ چوبیس گھنٹے بالخصوص لوڈشیڈنگ کے اوقات میں ٹریفک کو معمول کے مطابق رواں دواں رکھنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ بڑے ہورڈنگ بورڈز کے لیے بھی بجلی کے کنکشن پر پابندی ہونی چاہئے۔
سولر سسٹم کے خام مال اور بیٹریز پر کسٹم ڈیوٹی ختم کرنا ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس کی درآمد میں حائل دیگر رکاوٹوں اور مشکلات کو بھی دور کرنا چاہئے تاکہ سرمایہ کار اس طرف راغب ہو سکیں۔ حکومت سولر کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے والے بزنس مینوں کو مراعات دے اور انہیں کم از کم ایک سال کے لیے ہر قسم کے ٹیکس معاف کر دے تاکہ اس شعبے کی حوصلہ افزائی ہو سکے اور لوگ کھل کر اس شعبے میں سرمایہ کاری کر سکیں۔ حکومت بینکوں کے ذریعے شہریوں کو سولر سسٹم کی خریداری اور تنصیب کے لیے بلاسود قرضے فراہم کرے۔ ان قرضوں کاحصول آسان اور ہر شہری کے لیے یقینی بنائے۔ بینکوں کو ہدایات جاری کی جائیں اور ہر شہری کو ذاتی ضمانت پر قرضے دیے جائیں۔ سولرسسٹم کے کاروبار سے منسلک نجی شعبے کو چاہئے کہ جو لوگ یہ نظام خریدنے کی سکت نہیں رکھتے‘ انہیں آسان اقساط پر سولر پینلز دیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ بجلی کا متبادل نظام اپنا سکیں اور آسانی کے ساتھ قسطوں کی ادائیگی کر سکیں۔
پاکستان کی موجودہ معاشی حالت اور توانائی کے شدید ترین بحران کومدنظر رکھتے ہوئے شمسی توانائی کا حصول وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ اگر حکومت عوام کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے واقعتاً بچانا چاہتی ہے تو ملک بھر میں ترجیحی بنیادوں پر اس متبادل نظام کی فراہمی اور تنصیب پر توجہ دینا ہو گی اور اس مقصد میں کامیابی کے لیے لوگوں کو خصوصی پیکیجز دینا ہوں گے جن میں غریب و متوسط طبقے کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ ڈالر کی اونچی اڑان اور پٹرولیم مصنوعات کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتیں توانائی بحران کے حل میں بڑی رکاوٹ ہیں اور اس وقت ہماری تباہ حال معیشت کے باعث فوری طور پر اس بحران سے نمٹنا ممکن نہیں ہے۔ توانائی بحران پر قابو پانے کا واحد قابلِ عمل حل صرف اور صرف متبادل ذرائع پر منتقل ہونا ہے جن میں شمسی توانائی سرفہرست ہے۔ اس سے شہریوں کو مفت اور سستی بجلی بھی ملے گی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ حکومت کو سنجیدگی سے اس منصوبے پر کام کرنا ہو گا۔
بجٹ کے حوالے سے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے آئندہ عام انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی بجٹ بنایا ہے، یعنی عام آدمی کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے، جو ایک لحاظ سے خوش آئند ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ توانائی بچت پالیسی کے تحت دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر بلاتفریق سختی سے عمل درآمد کرایا جائے کیونکہ صرف اعلان کرکے اس پر عمل نہ کرا سکنا حکومت کے لیے مزید پریشانی اور اس اچھے منصوبے کی ناکامی کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ اگر موجودہ حکومت کی جانب سے دوسری بار اعلان کرنے کے باوجود دکانیں جلدی بند کرانے کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو سکا تو یہ کابینہ کے فیصلے اور حکومت کی رٹ کی ناکامی کے مترادف ہو گا۔ اسی طرح سولر سسٹم کے خام مال پر درآمدی کسٹم ڈیوٹی کا خاتمہ بھی احسن اقدام ہے لیکن امپورٹ کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے تاکہ درآمدکنندگان اس اہم شعبے کی طرف راغب ہو سکیں۔ اس مقصد کے حکومت کو ایک آگاہی مہم بھی شروع کرنی چاہئے اور لوگوں کو سمجھایا جانا چاہئے کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اور توانائی بحران کے باعث سولر انرجی ہی بہترین حل ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved