اس ملک کا نصیب کہ اس کے حصے میں ایسے ایسے حکمران آئے ہیں کہ دنیا دیکھتی ہے، حیران ہوتی ہے اور اپنا سر پکڑ لیتی ہے۔ معاشروں اور معیشتوں کو زندہ رکھنے کے لیے حکمرانی کے نام پر جو کچھ بھی کرنا ہوتا ہے وہ تعقل اور شعور کا متقاضی ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں بہبودِ عامہ انتہائی بنیادی مقصد ہے۔ کسی کو اعلیٰ تر زندگی بسر کرنے کا موقع ملے نہ ملے، کم از کم ناگزیر بنیادی سہولتیں تو آسانی سے میسر ہونی ہی چاہئیں۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ اب تک انتہائی بنیادی سہولتوں ہی کے لیے ترس رہے ہیں۔ ایسے میں اعلیٰ درجے کی زندگی بسر کرنے کا تو صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب تو ایسے خواب دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں علم ہونے پر حکومت کوئی ٹیکس یا جرمانہ عائد نہ کردے!
طرزِ حکمرانی ہی طے کرتی ہے کہ متعلقہ عوام کو کیا مل سکے گا اور کیا نہیں۔ ہمارے ہاں ایک زمانے سے لوگ منتظر ہیں کہ بہبودِ عامہ کو بنیادی مقصد کا درجہ دینے والے حکمران آئیں اور اپنی صلاحیت و سکت کا لوہا منوائیں۔ مقدر تو دیکھیے کہ جو بھی آتا ہے وہ اپنے ہر پیش رَو کو نیچا دکھانے پر تُل جاتا ہے اور کچھ نہ کچھ ایسا کر کے رخصت ہوتا ہے کہ ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ جو پہلے تھا وہی غنیمت تھا۔ ایک سال سے بھی زائد مدت کے دوران موجودہ حکومت کا بیشتر وقت بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے معاملات درست کرنے کی تگ و دَو میں گزرا ہے۔ کئی بار طفل تسلیاں دی گئی ہیں کہ 'دکھ بھرے دن بیتے رہے بھیا! اب سُکھ آیو رے‘۔ مگر وہ سُکھ پتا نہیں کس کونے میں جا چھپا ہے کہ سامنے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ یہ طفل تسلیاں زندگی کو مزید الجھنوں سے دوچار کیے دیتی ہیں۔ لوگ گزارے کی سطح پر جی رہے ہیں۔ بعض تو اِس سے بھی نیچے جاچکے ہیں کیونکہ اُن کے لیے تو ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا
عوام کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ اُدھار پر زندگی بسر ہو رہی ہے۔ تنخواہ آتے ہی پندرہ بیس دن میں اُڑن چھو ہو جاتی ہے۔ باقی مہینہ اُدھار پر گزرتا ہے۔ پھر جب تنخواہ آتی ہے تو گزرے ہوئے مہینے کا اُدھار چکتا کرنے کے بعد اِتنا بچتا ہی نہیں کہ اگلی تنخواہ تک گزارہ ہوسکے۔ یعنی پھر اُدھار لیجیے۔ اُدھار کا پہیہ گھومتا ہی رہتا ہے۔ فرد ہو یا حکومت، اُدھار پھر اُدھار ہے۔ خالص اُدھار کے بل پر زندگی بسر کرنا انتہائی معیوب امر ہے۔ انتہائی مجبوری کی حالت میں بھی لیا گیا اُدھار دل و دماغ کے لیے بوجھ ہی ہوتا ہے۔ ذرا سوچئے کہ شدید مجبوری کے نہ ہونے پر بھی محض دل پشوری کے لیے لیا جانے والا اُدھار کیا قیامت ڈھاتا ہوگا۔ ہماری معیشت ایک زمانے سے ایسے ہی اُدھار پر چل رہی ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
کچھ ایسی ہی کیفیت ہماری بھی تو ہے۔ حکومتیں قرضے لے لے کر ملک چلاتی آئی ہیں۔ ہر حکومت جب رخصت ہوتی ہے تو کہیں زیادہ بوجھ دے کر جاتی ہے۔ آنے والوں کے لیے مزید قرضے لینے کے سوا آپشن نہیں رہتا۔ معاملات اب اِتنے الجھ چکے ہیں کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ اِس طلسمات سے کیونکر نکلا جائے۔ زندگی کی ہر خوشی ان بھول بھلیوں میں کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ہم سے کھیل رہا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنی مرضی کے مطابق ہمیں چلا رہی ہیں۔ ہم بات بات پر اُن کے آگے سر جھکانے پر مجبور ہیں۔ عالمی معیشت کا موجودہ ڈھانچا مکمل طور پر مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ چین اور روس سمیت کئی ابھرتی ہوئی، پنپتی ہوئی طاقتیں چاہتی ہیں کہ عالمی نظامِ معیشت پر مغرب کی گرفت کمزور پڑے۔ اس سلسلے میں غیر معمولی منصوبہ سازی اور تگ و دَو کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بعض خطوں کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے۔ مسلم دنیا اِس حوالے سے غیر معمولی کردار ادا کرسکتی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ فیصلہ کن کردار مسلم ممالک ہی کا ہوسکتا ہے مگر یہ سب تو امریکی اشاروں کے منتظر رہتے ہیں۔ ایسے میں بہتری کی راہ ہموار ہو تو کیسے ہو؟
پاکستان جیسے ممالک تو مجبور و مقہورِ محض ہیں جن کے بس میں صرف بڑوں کی ہر بات ماننا رہ گیا ہے۔ مغربی طاقتیں اپنی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود اب تک اس پوزیشن میں ہیں کہ کمزور کو اپنی مرضی کے مطابق ہانکیں۔ امریکہ ان طاقتوں کا سرخیل ہے۔ یورپ بھی اب تک اُس کا ہم نوا ہی چل رہا ہے۔ چند ایک معاملات میں یورپی طاقتیں اپنی راہ الگ بھی کرلیتی ہیں مگر جب کمزور و مجبور ممالک کو دبوچنے کا معاملہ ہوتا ہے تب یہ سب امریکہ کے ساتھ مل کر اپنا حصہ بٹورنے پر تُل جاتی ہیں۔ یہ تماشا کم و بیش تین صدیوں سے جاری ہے۔ پہلے یورپی اقوام اپنے طور پر لُوٹ مار کرتی تھیں، اب امریکہ کی قیادت میں یہ کام کرتی ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کی ایسی حیثیت ہے ہی نہیں کہ مزاحمت کرسکیں۔ اِنہیں اگر قرضوں کا پیکیج چاہیے تو انتہائی نوعیت کی شرائط تسلیم کرنا ہی پڑتی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے چاہتے ہیں کہ کمزور ممالک کبھی مضبوط نہ ہوسکیں اس لیے قرضوں کے پیکیج کے لیے اِن کی شرائط عوام دشمن ہوتی ہیں۔ اِن شرائط کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام سے مرضی کے مطابق جینے کا حق چھین لیا جائے اور حکومت کی مقبولیت کو بھی داؤ پر لگایا جائے۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی طرف سے ملنے والا قرضوں کا پیکیج کسی بھی درجے میں پس ماندہ ممالک سے ہمدردی کا مظہر نہیں ہوتا۔ ترقی یافتہ ممالک بھلا ہمارا بھلا کیوں چاہنے لگے؟ انہیں اپنی دکان داری سے غرض ہے۔ اپنے مفاد کا بازار گرم رکھنے کے لیے وہ ہمارے معاملے میں سرد مہری کا مظاہرہ کرتے نہیں تھکتے۔
کم و بیش ایک ماہ سے حکومت آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔ قرضوں کے نئے پیکیج کی فوری ضرورت ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ شہباز شریف کی سربراہی میں حکومت نے سر توڑ کوشش کی ہے کہ کسی نہ کسی طور آئی ایم ایف سے پیکیج حاصل کرلیا جائے کیونکہ اِس کامیابی ہی سے حکومت کی کامیابی مشروط ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے رہنے کے بجائے اپنے آپ کو مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہے۔ ترسیلاتِ زر بڑھانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ حکومت معیاری افرادی قوت برآمد کرکے قومی معیشت کو مستحکم تر کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ قوم منتظر ہے کہ کسی طور کچھ ریلیف ملے۔ ریلیف مل سکے گا یا نہیں‘ اِس کے بارے میں پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ حالات ایسے ہیں کہ کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا۔ معاملات کی خرابی ایسی ہے کہ جینا دوبھر ہوتا جارہا ہے۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ حالات کی چَکّی میں بہت باریک پستا جارہا ہے۔ نیم دلانہ اقدامات سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ حکومت کہنے کو سخت تر فیصلے کر رہی ہے مگر یہ سخت تر فیصلے صرف عوام کے لیے ہیں۔ سرکاری مشینری کو کھل کر ریلیف دیا جارہا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ 30 فیصد تک کیا گیا ہے۔ پنشن کا بوجھ الگ ہے۔ یہ سب کچھ قومی خزانے کے لیے شدید دباؤ کا باعث ہے۔ حتمی تجزیے میں یہ دباؤ عوام ہی پر منتقل ہونا ہے۔ ملک بھر میں سرکاری اور نجی اداروں سے وابستہ افراد کی تنخواہوں کے درمیان شدید عدمِ توازن پایا جاتا ہے۔ مہنگائی اگر ہے تو سب کے لیے ہے۔ اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جانا لازم ہے تو عام آدمی یعنی سرکاری شعبے سے تعلق نہ رکھنے والے پاکستانی محنت کشوں کو بھی معیاری انداز سے جینے کا حق حاصل ہے۔ اُن کے لیے بھی معقول آمدنی کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ محض سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن بڑھادینا مسئلے کا حل نہیں۔ عام آدمی کے لیے بھی غیر معمولی ریلیف کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ اُسے گریجویٹی کی سہولت میسر نہ پنشن کی۔ عام آدمی بڑھاپے میں گزر بسر کے لیے اولاد کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اگر پنشن ایسی ہی ناگزیر چیز ہے تو تمام پاکستانیوں کے لیے اس کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved