تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     23-09-2013

راستہ یہی ہے

11ستمبر2001ء کو دو طیاروں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو ملیامیٹ کر ڈالا تو اپنے ہم جماعتوںکی طرح میں بھی جذبہ ’’جہاد‘‘ سے سرشار تھا۔ عالمِ اسلام اور خود پاکستان کو اب کیسی ہلاکت سے واسطہ پڑے گا،میرے فرشتوں کو بھی اندازہ نہ تھا۔ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے اب مظلو م کشمیریوں کی خاطر بھارت سے لڑنے کا اعلان کیا ہے ۔ معلوم نہیں ، وہ مبارک دن کب آئے گا اور اہلِ کشمیر کو اس ہمدردی کا کیا تاوان ادا کرنا ہوگا۔ فی الحال تو القاعدہ کا ہدف پاکستان ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ میں وہ امریکی لونڈی ہے ۔ کم عمر افراد کے ذریعے خود کش دھماکے اور دشمن کے بے گناہ اور غیر مسلّح افراد ، حتیٰ کہ عورتوں اور بچوں کا قتل اس کے لیے کارِ ثواب ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ دہشت گرد کا لفظ اسامہ بن لادن جیسوں کے لیے بہت ہی چھوٹا ہے ۔ تحریکِ طالبان سے مذاکرات کے غلغلے میں اگر لشکرِ جھنگوی جیسے گروہوں کو بھی دعوت دی جائے گی ، جن کے نزدیک مخالف فقہ کا قتلِ عام جائز ہے تو القاعدہ کو اس پاک مجلس سے دور کیوں رکھا جائے ؟ اپر دیر کے سانحے کے تانے بانے مولوی فضل اللہ سے ملتے ہیں کہ اس علاقے میں وہ متحرک ہے لیکن ذمہ داری تحریکِ طالبان نے قبول کی ۔ سوات آپریشن میں گرفتار ہونے والے اپنے ترجمان مسلم خان کی رہائی تک فضل اللہ مذاکرات کا مخالف ہے ۔ کوہاٹ سے مسلم لیگ نون کے سابق ایم این اے جاوید ابراہیم پراچہ کا دعویٰ ہے کہ وہ اسے آمادہ کر لیں گے ۔ پرا چہ صاحب کفن پھاڑ کے بولے ہیں اور طالبان کی چند خفیہ خصوصیات پہ روشنی ڈال رہے ہیں ۔ ’’محبِ وطن طالبان ‘‘کی اصطلاح انہی نے متعارف کرائی ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ دہشت گردی طالبان نہیں بلکہ ہاتھوں میں تسبیح تھامے، داڑھیوں والے ہندو کر رہے ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جنرل ثنا ء اللہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت سمیت،ان مشرکین کے کرتوتوں کی ذمہ داری شاہد اللہ شاہد نامی ایک مسلمان قبول کرتا رہا ہے ۔ پراچہ صاحب کی مقدس ہدایت یہ ہے کہ حکومت دو تاثر فوری طور پرزائل کرے ۔ یہ کہ مذاکرات کا مقصد امریکہ کو افغانستان سے واپسی کا محفوظ راستہ دینا ہے یا مجاہدین کے خلاف اس بنیاد پر فیصلہ کن کارروائی کی راہ ہموار کرنا کہ بات چیت کے ذریعے وہ قابو آتے نہیں ۔معمولی نقصانات کے باوجود، نیٹو کاسازو سامان مسلسل واپس جار ہا ہے اور مذاکرات سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔پھر امریکہ کے پاس مہنگا فضائی اور وسط ایشائی ریاستوں کا زمینی راستہ بھی موجود ہے ۔جہاں تک امریکی فوجیوں کا تعلق ہے ، واپسی کے لیے وہ ہمارے شہروں سے مارچ کرتے ہوئے کراچی بندرگاہ کا رُخ نہیں کریں گے ۔ اس مقصد کے لیے ان کے پاس اڑن کھٹولے موجود ہیں ۔پھر فوجی آپریشن کا جواز حکومت ڈھونڈ رہی ہے یا اعلیٰ فوجی افسروں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے والے ؟ سوات آپریشن پر تبصرہ کرتے ہوئے، پختون خوا کے صحافی بتاتے ہیں کہ جنگجو فضل اللہ کے زیرِ اثر تھے ؛لہٰذا صوفی محمد سے معاہدہ بے وقوفی تھی۔ یہ بات درست ہے ؛البتہ سیاسی بالاتری یا عوامی تائید صوفی محمد کے پاس تھی اور معاملہ سلجھانے کی کوئی کوشش بزرگوار نے نہیں کی۔ اس وقت جب ساری قوم ان کی جانب دیکھ رہی تھی، فرمایا کہ جمہوریت کفر کانظام ہے اور ہم آئین کو نہیں مانتے ۔دوسری طرف فضل اللہ نے بینک بند کرنے کا حکم دیا ۔ مسلم خاں کو بتایا گیا کہ حضرت محمدؐ نے توصدقات کا متبادل نظام قائم کرنے کے بعد ہی سود کالعدم قرار دیا تھا ۔ جہالت پر مشتمل فتویٰ نما جواب یہ تھا : لگتا ہے ، آپ کو سود کھانے کا بہت شوق ہے ۔صوفی محمد کی طرف سے آئین تسلیم نہ کرنے کے اعلان کے بعد قوم فوج کی پشت پہ آکھڑی ہوئی ۔ دہشت گردوں کوپھر ذلّت آمیز شکست اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومتِ پاکستان سے مذاکرات کے سلسلے میں طالبان کی ایک گرینڈ شوریٰ کا ذکر ہے ، جس میں چترال سے ژوب تک،تمام قبائلی علاقے کے جنگجو گروہوں کے نمائندے شریک ہوں گے ۔ شوریٰ ایک کمیٹی تشکیل دے گی اور وہی با اختیار ہوگی ۔ اگر یہ درست ہے تو یہ مسئلہ خودبخود ختم ہو جائے گا کہ بے شمار گروہوں میں منقسم دہشت گردوں کے کس ٹولے سے بات کی جائے ۔ قبائلی علاقے میں تحریکِ طالبان اور دوسرے گروہوں کی حمایت اور امداد بہت بڑا مسئلہ ہے ۔دہشت گر د کارروائیوں کے لیے روانہ ہونے والوں کی تعداد قلیل ہوتی ہے ۔ بستیوں سے گزرتے ہوئے وہ ’’جہاد‘‘میں شرکت کی صدا لگاتے جاتے ہیں اور نوجوان ان کے ساتھ ہو لیتے ہیں ۔ کوئی ایک شریف آدمی بھی ان کی مخبری کرنا گوارا نہیں کرتا۔ وہ تو پھر بھی ان پڑھ دیہاتی ہیں ، کارروائی کے لیے جانے والے ایک کرنل نے اپنے والد سے دعا کی درخواست کی تو بزرگ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ وہ طالبان کے لیے بھی دعا کریں گے ۔ داڑھیوں اور تسبیحات نے اکثر سادہ لوح افراد کو دہشت گردوں کے معاملے میں دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ تحریکِ انصاف کے صوبائی وزرا کا اعلان بھی یہی ہے کہ دہشت گردی کی یہ جنگ ہماری ہے اور نہ کبھی ہو گی ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ’’امیر المومنین ‘‘ملّا عمر کو افغانستان میں القاعدہ نامی دہشت گرد تنظیم کا پودا لگانے کا مشورہ پاکستان نے نہیں دیا تھا ۔ اور کچھ نہیں تو وہ اسامہ بن لادن کو ملک بدر کر سکتے تھے لیکن انہوںنے امریکہ سے محاذ آرائی مول لی ۔ دوسری طرف امریکی دھمکی کے بعد ہمارے پاس امریکی اتحادی بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میڈیا کے محاذ پر بھی گمراہی پھیلانے والے بہت ہیں ۔ مذاکرات کے فیصلے کے بعد فوج کسی بڑے طالب لیڈر کو نشانہ بناتی تو سیاستدان اور میڈیا اس کے خلاف دن رات زہر اگلتے (اور تب یہ درست ہوتا ) لیکن طالبان کی طرف سے بے رحمانہ کارروائی کے بعد ان کی ویسی مذمت نہیں کی گئی ، جیسا حق تھا۔ جنرل ثنا ء اللہ نیازی کے جواب میں اب کیوں نہ دہشت گردوں کے کسی بڑے ٹھکانے کو بمبار طیاروں سے اڑا دیا جائے اور پھرطالبان ہی کی طرح یہ عندیہ دیا جائے کہ مذاکرات کی پیشکش بدستور برقرار ہے ؟ صورتِ حال اب واضح ہو تی جارہی ہے ۔ طالبان سنجیدہ نہیں ۔ ایک طرف وہ حکومت کو بات چیت میں مصروف (Engage) رکھنا اور دوسری طرف اپنی قوت بڑھانا چاہتے ہیں ۔ قیدیوں کی رہائی اورفوج کی قبائلی علاقوں سے واپسی کی خواہش اسی کی عکاس ہے ۔ اب ہر شہادت قوم کو ذہنی یکسوئی کی طرف لے جائے گی ۔ راستہ یہی ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں طے ہونے والی باتوں سے طالبان حسبِ عادت منکر ہوں اورنتیجے میں قوم ان کے خلاف یکسو ہو جائے۔ تب فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری قوت سے انہیں کچل کر رکھ دیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved