استحکامِ پاکستان پارٹی کی تنظیم سازی جاری ہے۔ جنرل سیکرٹری کے نام پر آکر نظر اس طرح اٹکی کہ مزید نام اور عہدے پڑھنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔ گویا لفافے سے ہی خط کا پورا مضمون پڑھا جا سکتا ہے۔ کس کس کا نام لوں‘ سبھی کے قصے اور چرچے زبان زدِ عام رہے ہیں۔ جس طرح تحریک انصاف میں عمران خان واحد سٹیک ہولڈر اور یہ سبھی بینیفشری تھے اسی طرح استحکامِ پاکستان پارٹی میں جہانگیر ترین اور علیم خان سٹیک ہولڈر اور یہ سبھی اُسی طرح بینیفشری رہیں گے۔ گویا موجاں ای موجاں... رِند کے رِند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
سیاسی جماعتوں کے نام رکھنا بھی کوئی سادہ کام نہیں‘ عوام کو راغب کرنے کے لیے کیسے کیسے نام رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف‘ مسلم لیگ ہو‘ دیگر سیاسی جماعتیں‘ سبھی کے نام جھانسے اور سبز باغ کا استعارہ ہیں۔ تحریک انصاف‘ انصاف کی نفی تو پیپلز پارٹی میں پیپلز کا دور دور تک کوئی کردار نہیں رہا۔ اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں کا احوال بھی قطعی مختلف نہیں‘ سبھی مسلم لیگز عوام کا مینڈیٹ ہتھیانے کے لیے پاکستان کی بانی جماعت کا چورن آج بھی بیچ رہی ہیں۔ یہ الگ بات کہ قائد اور مصورِ پاکستان کی روحیں خلدِ بریں میں بے چین اور پریشاں ضرور ہوں گی کہ یہ ملک بالخصوص پاکستان کی خالق جماعت کن کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ اسی طرح استحکام پارٹی کے ہنرمندان کو خبر ہو کہ ان چہروں کے ساتھ وہ اپنے نام پر فخر کر سکتی ہے اور نہ ہی مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن ہے کیونکہ یہ سبھی استحکام کی نفی کا استعارہ ہی رہے ہیں۔ اگر ان سبھی کو لے کر چلنا مجبوری ہے تو کم از کم پارٹی کا نام ابتداء میں ہی بدل لینا چاہیے کیونکہ ان سبھی سے استحکام کی اُمید لگانا ایک اور مرگِ نو کا باعث ہوگا۔
جہانگیر ترین ہوں یا علیم خان‘ یہ کون سے چہرے سے واقف نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کی بدنامیوں‘ رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں کی میراتھن میں سبھی برابر دوڑتے رہے ہیں تاہم استحکام پارٹی کے جنرل سیکرٹری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہیں سنگین الزامات اور ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے عوض لمبا مال بنانے کے الزام پر وزارتِ صحت سے فارغ کیا گیا تھامگر ان کے خلاف کارروائی کے بجائے سابقہ وزیراعظم نے معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے حکمران پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا تھا۔ ممکن ہے استحکام پارٹی کو انہی مخصوص خصوصیات اور اہلیت کے حامل جنرل سیکرٹری کی ضرورت ہو جو تحریک انصاف حکومت کی مقبولیت اور نیک نامی کو چار چاند لگاتے رہے ہیں۔ موصوف کا ایک اور بڑا کارنامہ گوش گزار کرکے عوام کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ موصوف بطور وزیر صحت جہاں مبینہ طور پر مال بناتے رہے ہیں وہاں ڈریپ (ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی) کے ایسے چیف ایگزیکٹو کی سرپرستی بھی کرتے رہے ہیں جو نیب کی فائلوں میں مردہ جبکہ ڈریپ جیسے اہم ادارے کا سربراہ تھا۔ نمونے کی چند وارداتوں سے ان کے طرزِ حکمرانی کے علاوہ نیت اور ارادوں کے بارے میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس طرح وہ تحریک انصاف میں انصاف کے معانی اُلٹاتے رہے‘ اسی طرح استحکام کے معانی کو شرمسار کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔ باقی عہدیداروں کے بارے میں تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلے کے علاوہ جنرل سیکرٹری کے ہی پیروکار ہیں۔ خدا خیر کرے! میرے پاکستان کی۔ استحکامِ پاکستان کے نام پر یہ قوم اب کسی نئے صدمے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ویسے بھی استحکام پارٹی میں شمولیت کرنے والوں کے اکثر لٹکے ہوئے چہرے دیکھ کر برادرم شعیب بن عزیز کے شعر کا ایک مصرع یاد آرہا ہے:
دریا کا خوف لوگوں کو دریا میں لے گیا
دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے کہا ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ چیئرمین پی ٹی آئی بھی اپنے دورِ اقتدار میں عوام کو یہی تلقین کرتے رہے کہ ''آپ نے گھبرانا نہیں‘‘ اور عوام ساڑھے تین سال ان سے گھبرانے کی اجازت ہی طلب کرتے رہے کیونکہ ان کی طرزِ حکمرانی اور گھبرانے کی مسلسل ممانعت نے ہی قوم کو گھبرائے رکھا۔ اب وزیراعظم بھی شاید اسی فارمولے سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں کہ طرزِ حکمرانی بھلے بد سے بدترین ہوتا چلا جائے لیکن قوم کو گھبرانے سے بہرحال باز رکھیں۔ جس طرح عمران خان عوام کو گھبرانے سے روکتے ہی رہے ہیں‘ اسی طرح آج وزیراعظم بھی عوام کے گھبرانے سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو حکمران عوام کو گھبرانے سے روکتے ہیں بالآخر انہی پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے جب عوام کو نہیں گھبرانے دیں گے تو خود تو گھبرانا پڑے گا۔ گھبراہٹ کا یہ عالم کب تک جاری اور طاری رہتا ہے۔
ایک طرف وزیراعظم عوام کو گھبرانے سے روک رہے ہیں‘ دوسری طرف ان کے لیے گھبراہٹ کا ایک اور دور شروع ہو چکا ہے۔ آصف علی زرداری کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے لیے ذکا اشرف کے نام پر ڈٹ گئے ہیں جبکہ وزیراعظم نجم سیٹھی کو برقرار رکھنے کے لیے بے قرار ہیں۔ یہ مرحلہ بظاہر پی سی بی کے سربراہ کی تقرری کا معاملہ ہے لیکن آنے والے وقت میں کئی تبدیلیوں اور نئے منظرناموں کا نقطۂ آغاز ثابت ہوگا۔ زرداری کا یہ پتہ بازی پھنسانے اور بازی اُلٹانے کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم اگر آصف زرداری کے اُمیدوار کے نام پر راضی نہ ہوئے تو ذکا اشرف یا کسی اور قریبی کا نام نگران وزیراعظم کے لیے بھی آسکتا ہے۔ گویا گھبراہٹ یونہی طاری اور جاری رہے گی۔ تختِ پنجاب پر آصف زرداری پہلے ہی فوکس کیے ہوئے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) کو مرکز اور پنجاب کے سبھی اقدامات اور فیصلوں کی قیمت آئندہ انتخابات میں چکانا پڑ سکتی ہے۔ آج کے حلیف کل کے بدترین حریف بنتے دکھائی دے رہے ہیں‘ ضرورتوں کا یہ سفر آخری مراحل میں داخل ہونے کو ہے۔
9مئی کے افسوسناک واقعات کے ذمہ داران کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت فوری کارروائی اور سزا کی قرارداد قومی اسمبلی میں منظور کی جا چکی ہے۔ کاش کوئی ایسا دن بھی چڑھے جب قومی اسمبلی میں عوام کے حق میں بھی کوئی قرارداد پیش ہو۔ آئین اور حلف سے منحرف ہونے والوں کے خلاف قرارداد کہاں پیش کی جا سکتی ہے؟ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے تو سبھی ہر دور میں عوام سے بیوفائی کے مرتکب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ عوام کا مینڈیٹ پارلیمنٹ میں فروخت کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف قرارداد کون پیش کرے گا؟ جھوٹے وعدوں اور جھوٹے دعووں سے ووٹ ہتھیانے والے اسمبلیوں میں آکر کب تک وفاداریاں بدل کر اپنی دنیا سنوارتے رہیں گے۔ یہ قرارداد نہ کسی اسمبلی میں پیش ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی سیاستدان اسے پیش کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے کیونکہ یہ سبھی شریکِ جرم اور وہ خون شریک بھائی ہیں جو باریاں لگا کر دھرتی ماں کا خون پیتے چلے آرہے ہیں۔ یہ قرارداد تو اب عوام ہی کسی دن پیش کریں گے‘ اس کے لیے شبھ مہورت تو آئندہ انتخابات کا موقع ہی ہو سکتا ہے۔ اگر عوام نے یہ قرارداد پاس کر لی تو اس دن پولنگ سٹیشن سنسان‘ بیلٹ باکس خالی‘ ووٹ کی سیاہی ووٹر کے انتظار میں خشک ہو جائے گی اور ان سبھی نام نہاد رہنماؤں کی آنکھیں ووٹرز کی راہ تکتے تکتے پتھرا جائیں گی۔ کاش!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved