حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کے بعد‘دیر میں طالبان نے جو عملی جواب دیا‘ اس پر بھی طالبان کی پاکستانی لابی کو ذرا دکھ نہیں ہوا اور یہی منطق دہرائی جاتی رہی کہ یہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والی لابی کی حرکت ہے۔ گزشتہ روز پشاور میں بدترین قسم کی دہشت گردی ہوئی اور پاکستان کی ایک اور مظلوم اقلیت‘ مسیحیوں کو ان کی عبادت گاہ میں نشانہ بنا دیا گیا۔ جس میں 81 عبادت گزار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والی لابی نے کیا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے مخالفین‘ اس المیے پر بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں لگ گئے اور یہ بھول بیٹھے کہ حملہ طالبان نے کیا ہے‘ تحریک انصاف نے نہیں۔ اس سانحہ پر وزیراعظم نوازشریف کا ردعمل زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ انہوں نے کہا ’’دہشت گرد بے گناہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پشاور جیسے واقعات کے بعد‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آگے بڑھنے سے قاصر ہیں۔‘‘ پہلے تو یہی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کونسے مذاکرات ہیں؟ جن کے مخالفین انہیں سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ مذاکرات کی پیش کش اے پی سی کی طرف سے گئی تھی اور وزیراعظم کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ مذاکرات کی دلیل کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری ادا کریں۔ انہوں نے متعدد ذرائع سے طالبان کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں بہت سے درمیان داری کرنے والے حرکت میں آئے۔ سب نے بیانات دیئے۔ اخباروں اور ٹیلیویژن پر انٹرویوز دیئے۔ لیکن عملی طور پر کوئی بھی کچھ نہ کر سکا۔ حتیٰ کہ حکومت نے بالواسطہ طور سے طالبان کے ساتھ رابطوں کی جو کوشش کی‘ اس میں بھی کامیابی نہیں ہوئی۔ دوسری طرف سے طالبان کا رویہ‘ روزاول ہی سے سخت اور غیرمفاہمانہ ہے۔ حد یہ کہ دیر میں انہوں نے جس فوجی قافلے کو نشانہ بنایا‘ اس میں پاک فوج کے ایک میجرجنرل شامل تھے۔ کسی فوج کے جنرل کا نشانہ بن جانا‘ ایک انتہائی اقدام ہوتا ہے‘ جس کے بعد فوج کے پاس کسی نرمی کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور اس کے ایک سپاہی سے لے کر جنرل تک‘ ساری فوج کا اس پر اتفاق ہو جاتا ہے کہ اب جوابی کارروائی نہ کرنے کا مطلب‘ کم ہمتی سمجھا جائے گا۔ پاک فوج بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ وہ بہرحال فوج ہے۔ جنرل بہرحال جنرل ہے اور ایک جنرل کی زندگی لینے والے کو‘ دشمن کے سوا کچھ سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت پاک فوج اور اہل وطن پر قرض ہے اور ایسی صورت میں تو قرض لازمی طور سے واجب الادا ہو جاتا ہے‘ جب شہید کرنے والوں نے اعلان کر دیا ہو کہ مذاکرات بالکل نہیں ہو رہے اور ہم پاکستانی فوجیوں کو شہید کرنے کا سلسلہ جاری رکھیںگے۔ ہمارے ہاں اس موضوع پر بحث چھڑ گئی ہے کہ مذاکرات کے لئے کچھ شرائط عائد کی جائیں یا وہ غیرمشروط ہوں؟ مزے کی بات یہ ہے کہ طالبان نے ابھی تک مذاکرات کی ہامی نہیں بھری اور ہم پھر یکطرفہ طور سے حسب عادت یہ بحث کر رہے ہیں کہ شرائط رکھی جائیں یا نہیں؟ پشاور کے بعد کی صورتحال پر وزیراعظم نے جو کہا وہ آپ نے کالم کے آغاز میں پڑھ لیا۔ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وزیراعظم کو مذاکرات کے عمل میں کامیابی کا امکان بہت کم نظر آ رہا ہے۔ ان کا یہ جملہ قابل غور ہے کہ ’’پشاور جیسے واقعات کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آگے بڑھنے سے قاصر ہیں۔‘‘ اچھا ہوتا اگر وہ پشاور کے واقعات کے ساتھ‘ جنرل ثناء اللہ نیازی شہید اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے فوجیوں کا ذکر بھی کر دیتے۔ میرے نزدیک تو طالبان کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانا ممکن نہیں رہ گیا۔ اب راستہ صرف ایک رہ گیا ہے۔ طاقت کا استعمال۔ مگر کب؟ اب حکومت اور طالبان کی حامی لابی کو‘ اپنی اپنی پوزیشن واضح کرنا ہو گی۔ طالبان جنگ کے راستے سے ہٹنے کو تیار نہیں اور حکومت مذاکرات کو آگے بڑھانے سے قاصر نظر آ رہی ہے۔تو کیا صورتحال کو اسی طرح جاری رہنے دیا جائے؟ طالبان ‘ ہمارے شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے رہیں؟ ہمارے اثاثے تباہ کرتے رہیں؟ مسجدوں‘ گرجا گھروں ،اولیاء کے مزاروں اور مقبروں کو کھنڈرات میں بدلتے رہیں؟ ہمارے حسّاس فوجی مراکز پر حملے کرتے رہیں؟ ہمارے بہترین جنگی آلات تباہ کرتے رہیں؟ ہمارے فوجیوں کو بزدلانہ حملے کر کے‘ شہید کرتے رہیں؟ اور کئی کئی ماہ لگا کر جن دہشت گردوں کو ہم گرفت میں لیں‘ انہیں وہ ایک ہی رات میں‘ جیلوں سے چھڑا کر واپس ہمارے خلاف میدان جنگ میں اتارتے رہیں؟ اس کا جواب طالبان کی حامی لابی کو دینا چاہیے اور یہ بھی بتانا چاہیے کہ جتنا ہمارے شہروں اور شہریوں کو نقصان پہنچ رہا ہے‘ اسے ہم کب تک برداشت کریں؟ طالبان نے اپنے کارندوں کے لئے تاوان مانگ لیا ہے۔ ہم کیا کریں؟ ہمارے نقصان کا حساب کس سے مانگا جائے؟ میںبارہا لکھ چکا ہوں کہ ہم ایک جنگ لڑ رہے ہیں۔ جو لوگ اسے امریکہ کی جنگ کہتے ہیں‘ وہ اہل وطن کو یہ سمجھائیں کہ اگر یہ امریکہ کی جنگ ہے‘ تو پھر امریکہ سے لڑنے والے‘ پاکستانیوں کو کیوں مار رہے ہیں؟ کیا پشاور کے مسیحیوں نے ‘ امریکہ کی جنگی کارروائیوں میں ان کے ساتھ حصہ لیا ہے؟ کیا بازاروں میں خریداری کرتے ہوئے عورتیں اور بچے کسی امریکی جنگ میں شریک ہیں؟ کیا طالبات ‘ امریکی جنگ میں شامل ہیں؟ ان بے گناہوں نے طالبان کا بگاڑا کیا ہے؟ طالبان کا الزام ہے کہ پاکستان کی حکومتیں اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے رہی ہیں۔ تو حکومتوں کے گناہوں کی سزا عوام کو کیوں دی جا رہی ہے؟ حکومت کی جنگ‘ حکومت سے لڑیں۔ بے گناہ عوام نے کسی کا کیا بگاڑا ہے؟ دوسرے ہمیں اس سے بھی آگاہ کر دیں کہ طالبان ‘ امریکہ کے ساتھ کونسی جنگ لڑ رہے ہیں؟ کہاں پر لڑ رہے ہیں؟ افغانستان کی جنگ‘ افغان طالبان لڑ رہے ہیں۔ ان کی جنگ جائز بھی ہے اور برحق بھی۔ ان کے ملک پر غیرملکی فوجوں نے قبضہ کیا ہے اور وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان تو پاک فوج اور عوام کے خلاف برسر جنگ ہے۔ اگر وہ امریکہ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں‘ تو ان کے گھروں سے چند میل کے فاصلے پر ‘ امریکی فوجیں موجود ہیں۔ وہاں جا کر دادشجاعت دیں‘ تو ان کی دلیل تسلیم کی جا سکتی ہے۔ یہاں تو وہ پاکستانیوں کو مار رہے ہیں۔ ہمارے اثاثے تباہ کر رہے ہیں۔ ہماری معیشت کو برباد کر رہے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ ہمیں ایک نہ ایک دن اس سراب یا مخمصے سے نکلنا ہو گا کہ طالبان ہمارے اپنے ہیں۔ اپنوں سے وہ سلوک نہیں کیا جاتا‘ جو طالبان ہمارے ساتھ کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ گیا کہ طالبان والا راستہ اختیار کریں۔ وہ جنگ پر تُلے ہوئے ہیں‘ تو ہمیں حالت جنگ میں آنا پڑے گا۔ مذاکرات‘ جنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔ جو فریق خود پر‘ حملہ آور کے خلاف مزاحمت کے لئے میدان میں نہیں اترتا‘ اس کے ساتھ کوئی مذاکرات کیوں کرے؟ مذاکرات بھی کرنا ہیں ‘ تومیدان میں اتر کر دشمن سے جنگ کریں اور جب دشمن کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش آئے یا آمادگی کا اشارہ ملے ‘ تو پھر مذاکرات بھی شروع ہو جائیں گے اور یہاں بھی ہمیں وہی پالیسی رکھنا ہو گی جو طالبان کی ہے اور جس کی تعریف چین کے عظیم لیڈر مائو نے یوں کی تھی ’’ٹاک ٹاک۔ فائٹ فائٹ۔‘‘ دونوں کام ساتھ ساتھ چلنا چاہئیں۔ مذاکرات بھی اور جنگ بھی۔ میدان جنگ میں جو پوزیشن ہو گی‘ مذاکرات کی میز پر اسی پوزیشن کے تناسب سے لین دین ہوتا رہے گا اور آخر کار وہ پوزیشن آئے گی‘ جس میں ایک فریق کا دبائو ‘ دوسرے پر بڑھ جائے گا۔ وہ سمجھوتے کا مرحلہ ہو گا۔ اس سے پہلے مذاکرات کی پیش کش جنگ لڑے بغیر ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ آخر میں پشاور کے عظیم شہریوں کو سلام‘ جو اپنے ہم وطنوں کے لئے قبریں کھودتے ہوئے پسینے میں نہاتے رہے کیونکہ مرنے والوں کے ورثا میں نہ ہمت تھی نہ ہوش۔ میرے گزشتہ کالم میں عہد رسالت ﷺ کے دور میں ایک واقعے کا ذکر آیا تھا۔ جس میں سہواً لکھا گیا کہ حضور اکرمﷺ نے یہودیوں کے ایک وفد کو مسجد نبویؐ میں عبادت کرنے کی اجازت دی۔ اصل میں وہ عیسائیوں کا وفد تھا۔ آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ تو پشاور کے ایک گرجا گھر میں 81بے گناہ عیسائیوں کو بموں سے ہلاک کیا جا چکاہے۔آج غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے مجھے یہ کہنے کا موقع بھی مل گیا کہ ’’جس مذہب کے ماننے والوں کو نبی پاکﷺ نے خود مسجد نبویؐ میں عبادت کرنے کی اجازت دی‘ انہیں ان کی عبادت گاہ میں جا کر مارنے والا‘ نبی پاکﷺ کا امتی کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved