تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     15-06-2023

کچے کا ہنی ٹریپ!!

گزشتہ دنوں آئی جی پنجاب کی پریس کانفرنس میں کچے میں جاری آپریشن کے حوالے سے بریفنگ میں کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے ہنی ٹریپ کا استعمال کیے جانے کا انکشاف مجھ سمیت ہر شہری کیلئے بڑا حیران کن تھا۔ ہنی ٹریپ کا استعمال جاسوسی میں کافی ہوتا رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کچے جیسے دور افتادہ علاقے میں اس ٹرم اور طریقے کا استعما ل کیسے؟میں نے جب کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے اس طریقے کے استعمال کے حوالے سے تحقیق کی تو پتا چلا کہ سندھ میں کچے کے علاقے میں اپنی کمیں گاہیں بنانے والے ڈاکو بھی سمجھدار ہو گئے ہیں اور لڑکیوں کی آواز میں فون کرکے شکار پھانسنے لگے ہیں۔ وہ لڑکیوں کی آواز میں لوگوں کو کال کرکے دوستی اور شادی کا جھانسہ دیتے‘ کسی انعامی سکیم‘ سستی گاڑیوں‘ موبائل فون یا مشینری کی پیشکش کرتے اور کسی کو منافع بخش کاروبار میں شرکت کی دعوت دیتے‘ پھر ان کو کچے کے قریبی علاقوں میں ملاقات کے لیے بلا کر اغوا برائے تاوان کا شکار کرتے ہیں۔ اب تک سینکڑوں شہری ان کا شکار بن چکے ہیں اور اس کام کیلئے اب انہوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی بنا رکھے ہیں۔
کچے کے علاقے میں آپریشن کے دوران پولیس کو نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ کچھ ماہ قبل کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے وارداتوں میں اضافے کے پیش نظر تینوں صوبوں سندھ‘ پنجاب اور بلوچستان کی پولیس کی جانب سے ایک مشترکہ آپریشن شروع کیا گیا۔ کسی بھی ملک کو کھوکھلا کرنے کے لیے صرف بیرونی دشمن ہی نہیں بلکہ کچھ اندرونی دشمن بھی سرگرم ہوتے ہیں جنہیں زیر کرنے کے لیے کبھی کبھی بہت سی قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں۔ ہمارا پیارا وطن پاکستان بھی آج کل اسی طرح کے خطرات سے دوچار ہے۔اندرونی محاذ پر جنگ لڑنا اس لیے بھی زیادہ ضروری ہے تاکہ وطنِ عزیز کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے معاشرے کے ناسوروں کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے اور ایسے عناصر نشانِ عبرت بن جائیں۔ بات ہو رہی تھی کچے کے ڈاکوؤں کی جنہیں ہم مختلف ناموں سے جانتے ہیں جس میں چھوٹو گینگ اور عمرانی گینگ سر فہرست ہیں۔ یہ گروہ اپنا خوف قائم کرکے ریاست کے اندر ریاست بنانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں۔ کراچی میں ایک لمبے عرصے تک ٹارگٹ کلرز نے راج کیا اور شہر قائد کی روشنی کو دہشت کے اندھیروں میں بدل دیا۔ پھر ریاست متحرک ہوئی اور ان عناصر کا صفایا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اسی طرح کچے کے ڈاکو‘ جو تین دہائیوں سے زائد عرصے سے اپنی الگ ریاست بنانے کی کوشش کر رہے تھے‘ ان کے خلاف بھی مختلف ادوار میں آپریشن کیے گئے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ کچے کا علاقہ سرحد سے شروع ہونے والے دریائے سندھ کے دونوں اطراف اور صوبہ پنجاب اور سندھ تک پھیلا ہوا ہے۔ دریائے سندھ جیسے جیسے جنوب کی جانب بڑھتا ہے‘ اس کی موجوں کی روانی سست ہو جاتی ہے لیکن اس کی وسعت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے قریب اس کی وسعت اسے ایک بڑے دریا سے کئی ندی نالوں میں بدل دیتی ہے جن کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہونے لگتے ہیں جن تک عام آدمی کی رسائی انتہائی مشکل ہے لیکن اسی مشکل کو ڈاکو اپنی آسانی میں بدل کر یہاں کمین گاہیں بنا لیتے ہیں اور آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے ہیں۔یہی نہیں‘ بہت سے مفرور ملزم بھی پولیس کی دسترس سے دور یہاں پناہ لیتے ہیں۔ کچے کے ڈاکو گن پوائنٹ پر دیہاتی علاقوں کے گھروں میں زبردستی گھس کر خواتین کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں‘ وہاں کے مکینوں کے مال مویشی اور فصلوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کایہ ساری کارروائی کرنے کا مقصد علاقے میں اپنی دہشت اور اجارہ داری قائم رکھنا ہوتا ہے۔
ان ڈاکوؤں کے خلاف سب سے پہلا آپریشن 28مئی 1992ء میں ہوا تھا جوکہ ناکام رہا۔ اس آپریشن کی ناکامی کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جس وقت کچے میں یہ آپریشن جاری تھا اسی وقت حکومت نے کراچی میں پولیس آپریشن شروع کر دیا جس کی وجہ سے ساری نفری کو اس آپریشن سے ہٹا کر کراچی میں تعینات کردیا گیا۔ اگر کچے میں ہونے والے آپریشنز کا ذکر کیا جائے تو 1992ء سے اب تک کچے میں 17 آپریشن ہوئے اور 17 واں آپریشن اب بھی جاری ہے۔ حالیہ آپریشن کی خصوصیت یہ ہے کہ اس بار پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان پولیس بیک وقت بھاری مشینری کے ہمراہ کچے کے علاقے میں کومبنگ آپریشن کر رہی ہے۔ آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور خود اس آپریشن میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس گرینڈ کچا آپریشن کو شروع ہوئے دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ گزشتہ دو مہینے کے دوران اس آپریشن میں 12 خطرناک ڈاکو ہلاک جبکہ 8سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ 26 ڈاکوؤں نے اب تک خود کو سرنڈر کردیا ہے جبکہ 51 ڈاکو اس آپریشن کے نتیجے میں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ جواں مردی سے ان ڈاکوؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک پولیس اہلکار محمد قاسم شہید جبکہ تین زخمی بھی ہوئے۔ اگر اس آپریشن میں ہونیوالی اموات کی شرح اور مجموعی صورتحال کو دیکھا جائے تو اس آپریشن کی کامیابی کا تناسب 99فیصد رہا۔ اس تازہ آپریشن میں نو گو ایریا سمجھا جانے والا 60ہزار ایکڑ کے لگ بھگ علاقہ واگزار کروا لیا گیا ہے۔ کلیئر کروائے گئے علاقوں میں تین پولیس کمیونٹی سکول‘ دو ڈسپنسریاں قائم کی گئی ہیں۔ اس آپریشن میں پولیس نے کئی مشین گنز‘ راکٹ لانچرز‘ جی تھریز‘ لائیٹ مشین گنز‘ کلاشنکوفز‘ رپیٹرز‘ ہینڈ گرنیڈز اور سینکڑوں گولیاں اپنے قبضے میں لی ہیں۔ پولیس نے آپریشن کے دوران کچا کرمنلز کے درجنوں خفیہ ٹھکانے‘ کمین گاہیں اور مورچے مسمار کر دیے ہیں۔ کچا مورو‘ کچا جمال‘ کچا عمرانی‘ چک کپڑا‘ چک چراغ شاہ‘ جونگو ٹھنڈی‘ خیر پور بمبلی‘ چک چانڈیہ‘ رکھ شاہوالی‘ کچا راضی سے جرائم پیشہ عناصر کا صفایا کرکے یہاں حکومت کی رٹ قائم کردی گئی ہے۔ بنگیانی‘ سکھانی‘ عمرانی‘ لُنڈ‘ دلانی‘ پٹ اور سادانی گینگ سمیت ہیڈ منی کے مجرمان بھاگنے پر مجبور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب بھی اغوا‘ قتل اور ڈکیتی کے درجنوں مقدمات میں مطلوب 6 بڑے گینگ کچے کے مختلف علاقوں میں اپنے ٹھکانے قائم کیے ہوئے ہیں۔ ریاست کے اندر اپنی ریاست بنانے والوں کے خلاف تمام وسائل بروئے کار لاکر ان کا مستقل بنیادوں پر سدباب لازمی ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنی تحریر کے ابتدا میں بیرونی دشمنوں کی بات کی تو بیرونی دشمن تو کم خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ کم سے کم یہ سامنے سے وار کرتے ہیں۔ جبکہ بزدل ہمیشہ یا تو پیچھے سے وار کرتے ہیں یا پھر چھپ کر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جس برتن میں کھاتے ہیں اُسی میں چھید کرتے ہیں۔ بہرحال ریاست کا کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف یہ گرینڈ آپریشن ابھی تک بہت مہارت اور کامیابی سے جاری ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ان ڈاکوؤں کو چند وڈیروں اور جاگیرداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس بات میں کتنی حقیقت ہے‘ یہ آنے والا وقت ہمیں بتا ئے گا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ یہ آپریشن آخری آپریشن ثابت ہو جس میں ریاست کی جڑیں کاٹنے والے تمام عناصروں کا خاتمہ ہو جائے اور کچے کا تمام علاقہ واگزار ہوکر ریاست کے پاس آجائے اور وہاں کے رہائشیوں کے دلوں سے خوف کا بُت ٹوٹ جائے اور وہ سکون کی نیند سو سکیں۔ پولیس کا یہ دعویٰ تو ہے کہ اس نے اب تک کچے کا تقریباً 85 فیصد ایریا واگزار کروا لیا ہے باقی 15فیصد بھی واگزار کروا لیا جائے گا۔ امید ہے کی اس بار ایسا ہی ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved