بجٹ 2023-24 ء میں ڈالر کی ترسیلات بڑھانے کے حوالے سے کئی بہتر اقدامات کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سالانہ ایک لاکھ ڈالرز پاکستان لانے پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔ ٹیکس ریٹرن فائل کرتے وقت بیرونِ ملک سے آنے والے ایک لاکھ ڈالرز کو مستثنا آمدن میں ڈالا جا سکے گا‘ اس عمل سے ڈالرز بینکنگ چینلز کے ذریعے ملک میں لانے میں کاروباری حضرات کی دلچسپی بڑھ سکتی ہے۔ کاروباری طبقے کی جانب سے پچھلے کئی سالوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ 2018ء تک ایک لاکھ ڈالرز پر استثنا دیا جاتا تھا جو اُس وقت تقریباً ایک کروڑ روپے کے برابر تھے‘ آج ایک لاکھ ڈالرز تقریباً تین کروڑ روپے کے برابر ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو یکم جولائی سے تقریباً تین کروڑ روپے سالانہ بیرونِ ملک سے پاکستان لانے پر ٹیکس سے استثنا ہو گا۔ اسے ایک طرح کی ایمنسٹی سکیم کہا جا رہا ہے لیکن ایمنسٹی سکیموں میں عمومی طور پر دولت یا اثاثے ظاہر کرنے پر ٹیکس چارج کیا جاتا ہے جبکہ اس میں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ اس میں ایک پرانی پالیسی کو بحال کیا گیا ہے۔ ابھی تک آئی ایم ایف نے اس پالیسی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس کے علاوہ فیٹف کی جانب سے بھی کوئی بیان نہیں دیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یاتو ان اداروں کو بجٹ پیش کرنے سے پہلے نئی پالیسی کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا تھا یا یہ ادارے سمجھتے ہیں کہ یہ سب قانون اور ضابطوں کے عین مطابق ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس پر بعد میں ردِعمل دیا جائے۔ ایک طرف بیرونِ ملک سے ڈالرز لانے والوں کو بڑی آفرز دی جا رہی ہیں اور دوسری طرف بیرونِ ملک کریڈٹ کارڈز کے ذریعے ادائیگی کرنیوالے فائلرز پر ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد کردیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت ڈالر کے آئوٹ فلو کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کوشاں ہے لیکن وہ اس حوالے سے کتنی کامیاب ہوتی ہے‘ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ حکومتی اقدامات اگلے مالی سال کے لیے ہیں لیکن سرکار نے تقریباً دو ارب 70کروڑ ڈالر کی ادائیگیاں تیس جون تک کرنا ہیں جبکہ اس وقت حکومت کے پاس ڈالر ذخائر تین ارب ڈالرز سے بھی کم ہو چکے ہیں۔ ایک ارب ڈالرز کے چینی قرض وقت سے پہلے ادا کر دیے گئے ہیں تا کہ یہ جلد رول اوور ہو سکیں۔ وزیر خزانہ آج کل بارہا یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً نو ارب ڈالر ہیں، (جو کہ اب آٹھ ارب ڈالر ہو چکے ہیں)، نجی بینکوں میں پڑے عوام کے 5 ارب 40کروڑ ڈالرز کو بھی وہ ملکی ذخائر میں شامل کرکے بتاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں یہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ کہیں سرکار ضرورت پڑنے پر عوام پر ڈالرز بینک سے نکالنے پر پابندی نہ لگا دے‘ جیسا کہ 1990ء کی دہائی میں ہوا تھا۔ گو کہ وزارتِ خزانہ نے چین سے درخواست کی ہے کہ وہ ایک ارب تیس کروڑ ڈالرز کے قرض کو جلدی رول اوور کر دے اور چین نے بھی پراسیس کو تیز کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن حالات کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تیس جون سے پہلے چینی قرض رول اوور ہونے میں مشکلات درپیش ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تقریباً تین ارب ڈالرز کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن 30 جون سے پہلے یہ قرض بھی موصول ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو سٹیٹ بینک میں زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً ایک ارب ڈالرز تک گر سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں عوامی سطح پر بد اعتمادی بڑھ سکتی ہے اور وہ اپنے فارن کرنسی اکائونٹس سے ڈالرز نکال سکتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں بھی بجٹ پر بحث کے دوران اس پہلو پر زیادہ توجہ دی گئی کہ کسی بھی قیمت پر آئی ایم ایف کو بجٹ پر اعتماد میں لیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ 9200 ارب روپے کا ٹیکس کن ذرائع سے اور کیسے اکٹھا کیا جائے گا۔مطلوبہ بجٹ سرپلس کیسے ہو گا۔ آئی ایم ایف نے انرجی سبسڈی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اس کے علاوہ 7300 ارب سود کی ادائیگیوں کی بھی تفصیلات مانگی ہیں۔ وہ ایف بی آر اور پاور ڈویژن حکام سے میٹنگ کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف سے قرض لینے کی آخری کوشش کر رہی ہے لیکن اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف بجٹ سے مطمئن نہیں ہے۔ میں یہاں یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈار صاحب کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے بغیر بھی ملک چلایا جا سکتا ہے اور دوسری طرف نئے سال کے بجٹ میں تقریباً آئی ایم ایف کے دو ارب چالیس کروڑ ڈالرز بھی ظاہر کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ قسطیں نہ ملیں تو کیا حکومت نے کوئی متبادل منصوبہ تیار کر رکھا ہے ؟
عالمی ادارے میڈیا پر کوئی واضح موقف دینے سے گریزاں ہیں۔ میری آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں کچھ ذرائع سے تفصیلی بات ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ فی الحال ڈالرز ایمنسٹی اور باقی ماندہ دو قسطیں بھول جائیں، طویل مدتی اصلاحات پر توجہ مرکوز کریں تاکہ پاکستان مستقبل میں آئی ایم ایف پروگرام حاصل کر سکے۔ قرضوں کی ری شیڈولنگ کے معاملے کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ جو اقدامات ڈیفالٹ کے بعد کرنے ہیں‘ وہ ابھی سے کر لیے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ اب تجربات بند اور استحکام لانے کے لیے کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت تقریباً 60 دنوں میں اپنی مدت پوری کر رہی ہے اور پھر 90 دنوں کے لیے عبوری حکومت آئے گی۔ اگر کوئی مالیاتی ادارہ پاکستان کے ساتھ کسی پروگرام کا حصہ بنتا ہے تو اسے دونوں فریقوں کے اتفاق سے ان اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے کم از کم ایک سال کی گارنٹی درکار ہو گی۔ جس حکومت کی میعاد ہی اب60 سے 90 دن ہے‘ وہ کیسے یہ گارنٹی دے سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک بھی طویل مدتی سیاسی اور اقتصادی استحکام کی عدم موجودگی میں پاکستان کی مدد کرنے سے گریزاں معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے وعدے ضرور کیے ہیں لیکن ابھی تک قرض کی رقوم فراہم نہیں کی ہیں۔ جس کی وجہ سے عدم اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجٹ کے بارے میں نہ صرف عالمی مالیاتی اداروں بلکہ دوست ممالک کو بھی اعتراض ہے۔ ممکنہ طور پر اصل بجٹ الیکشن کے بعد دسمبر میں پیش ہو سکتا ہے۔ تب تک ملک کیسے چلے گا‘ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ان حالات میں کچھ اچھی خبریں بھی ہیں جن کا تعلق مہنگائی اور ڈالرز سے ہے۔ گو کہ فوراً کوئی بڑا ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا لیکن روس سے رعایتی قیمت پر خریدی گئی 45ہزار میٹرک ٹن خام تیل کی پہلی کھیپ کراچی پہنچ گئی ہے۔ یہ تیل اگلے ماہ تک عوام کے لیے میسر ہو سکتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کی توقعات ہیں جو کہ خوش آئند امر ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس سے کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آ سکے گی۔ البتہ دوسری بڑی کامیابی یہ ہے کہ روس کو تیل کی ادائیگی ڈالرز کے بجائے چینی یوآن میں کی گئی ہے۔ ڈالرز کی قلت کے شکار ملک کے لیے اس طرح کے اقدامات کسی کرشمے سے کم نہیں ہیں۔ پاکستان اور چین کی یہ بڑی خواہش رہی ہے کہ ڈالرز کے بجائے چینی یوآن کو مضبوط کیا جائے۔ عوامی سطح پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ یوآن خریدنے کے لیے ادائیگیاں پاکستانی روپوں میں کی گئی ہیں یا ڈالرز میں؟ اطلاعات کے مطابق چین نے پاکستانی برآمدات کے بدلے یوآن دیے ہیں۔ یہ ایک طرح کی بارٹر ڈیل ہے۔ اگر امریکہ کی جانب سے شدید ردعمل نہ آیا تو مستقبل میں گندم بھی اسی طرز پر خریدی جا سکتی ہے۔ آذربائیجان بھی قدرے سستے داموں پاکستان کو ہر ماہ ایک ایل این جی کارگو فراہم کرے گا۔ گزشتہ سال ایل این جی کے حوالے سے کافی مشکل رہا۔لیکن اس سال ایشین سپاٹ ایل این جی کی قیمت اگست میں 70 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) کی ریکارڈ بلندیوں سے کم ہوگئی ہے اور اب یہ 10 ڈالر سے بھی نیچے ٹریڈ کر رہی ہے۔ یہ خریداری کا بہترین وقت ہے، اس سے سردیوں میں انڈسٹری اور گھریلو صارفین کی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے اور اگر مستقبل میں بھی یہ ڈیل یوآن یا روبل میں ہو جائے تو پاکستان جیسے ملک کے فارن ایکسچینج پر بوجھ مزید کم ہو سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved