ایک دوست میری باتیں سن کر چونک سا گیا۔ پوچھنے لگا: کہیں باہر شفٹ ہو رہے ہو؟ میں نے کہا: کہیں نہیں جارہا‘ اپنا جینا مرنا اِدھر ہی ہے۔ باہر رہنا ہوتا تو لندن چھوڑ کر واپس نہ آتا۔ ویسے بھی ہم سرائیکیوں کو پردیس اپنا دشمن لگتا ہے۔ وہ بولے‘ پھر اتنی مایوسی کیوں ہے؟ میں نے کہا: آج کی گلوبل اکانومی میں جب ڈالر تین سو روپے کے قریب ہو اور ہمارے اندرون اور بیرون ملک مقیم پاکستانی روز دعائیں مانگتے ہوں کہ یہ ملک کب سری لنکا بنے گا یا کب ڈیفالٹ کرے گا تو پھر بتائیں وہ ملک کیسے چل سکتا ہے‘ پھر یہ سوال تو اٹھے گا کہ اس کا مستقبل کیا ہے؟ ہم کسی قابل بندے کو اپنے ہاں ٹکنے نہیں دیتے۔ اس کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ محکمے میں انکوائریز شروع کرا دیتے ہیں کہ وہ بندہ خود ہی یہ ملک چھوڑ جائے۔ ہر قابل بندہ ہمیں تھریٹ لگتا ہے۔ مجھے یاد ہے ڈاکٹر ظفر الطاف جب سیکرٹری زراعت تھے تو روز درجن بھر درخواستیں پھاڑ رہے ہوتے تھے جو نامعلوم درخواست گزار ان کے افسران کے خلاف انہیں لکھتے رہتے تھے۔ کہتے: بس ان سب کا فیورٹ ٹائم پاس یہی ہے۔ کسی کو ترقی مل گئی‘ کسی کی تنخواہ بڑھ گئی‘ کسی کو گاڑی مل گئی‘ کسی کا پرائز بانڈ نکل آیا یا بچہ اچھے سکول میں داخل ہو گیا تو ساتھ ہی اس کے خلاف اس کے محکمے کے افسر کو درخواست بھیج دی کہ جناب یہ بندہ تو لُوٹ کے کھا گیا ہے۔
اس ملک کو ہم خود ہی کھا گئے ہیں۔ ہمارے اندر ایک اذیت سی بھر گئی ہے۔ ہم چند لوگوں کی زیادتیوں یا غلط فیصلوں کا بدلہ پورے ملک سے لینا چاہتے ہیں تاکہ ہم کہہ سکیں کہ دیکھا ہم سچ کہتے تھے۔ ہم خود کو سچا ثابت کرنے کیلئے سارے گھر کی بنیادیں ہلا دینا چاہتے ہیں۔ اس ملک میں رہ کر ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کہتے ہیں کہ اس ملک میں ڈالرز نہ بھیجنا کیونکہ ایسی حکومت ہم پر نافذ ہے جو ہمیں پسند نہیں ہے۔ ہم حکومت کو ڈوبتا دیکھنے کے چکر میں پورا ملک ڈبو رہے ہیں۔ میں داد دیتا ہوں اپنے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھائیوں کو جنہوں نے اس بات پر پورا عمل کیا اور اس ماہ ترسیلاتِ زر میں واضح کمی ہوئی ہے۔ اب آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ انہوں نے ڈالرز بھیجنے بند کر دیے ہوں گے کیونکہ ان کی مرضی کی حکومت جو نہیں ہے۔ ہرگز نہیں‘ ہر کوئی اپنے رشتہ داروں کو ڈالرز بھیجتا ہے۔ اب انہوں نے اس کا طریقہ یہ نکالا ہے کہ وہ ڈالر بینک کے بجائے حوالہ ہنڈی کے ذریعے بھیجتے ہیں جو پھر گرے مارکیٹ میں چند روپے زیادہ ریٹ کے ساتھ زیادہ تر افغان سمگلر خرید کر اپنے ملک بھیج رہے ہیں۔ بیرون اور اندرون ملک مقیم پاکستانی خوش ہیں کہ دیکھا ہم نے ملک کا بیڑا کیسے غرق کیا۔
اب ایک اور قسم کے شہری ملاحظ فرمائیں۔ یہ ہیں منی ایکسچینج ڈیلرز‘ جنہوں نے اپنی الگ سے ڈالر مارکیٹ بنا رکھی ہے۔ وہ کبھی بینک ریٹ سے دو تین روپے زیادہ ریٹ پر ڈالرز بیچ لیتے تھے جو چلیں سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں بھی کچھ کمانا ہے لیکن اب وہ حوالہ ہنڈی کا کاروبار بھی چلا رہے ہیں۔ وہ افغان سمگلروں کو زیادہ ریٹ پر ڈالرز بیچ رہے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ ڈالر باہر سے آیا تھا اور باہر ہی جا رہا ہے جس کا پاکستانی اکانومی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب تو ڈالرز کی تین مارکیٹس بن گئی ہیں۔ ایک بینک ریٹ ہے‘ دوسرا اوپن مارکیٹ ریٹ ہے اور تیسرا بلیک یا گرے مارکیٹ۔ اوپن مارکیٹ میں اب بھی ڈالرز کے لین دین کا کچھ حساب کتاب رکھا جاتا ہے لیکن گرے مارکیٹ کا کوئی حساب نہیں۔ لوگوں نے ڈالرز خرید کر رکھ لیے ہیں۔ کروڑوں ڈالرز کی اس وقت ذخیرہ اندوزی ہو چکی ہے۔ اب بھی ان کی ذہنیت ملاحظہ فرمائیں کہ دن رات ڈالرز شارٹیج کی دعائیں مانگتے ہیں تاکہ ریٹ اوپر جائے اور وہ چند ہزار روپے مزید کما سکیں۔ ملک رہے یا نہ رہے‘ یہ ان کا مسئلہ نہیں۔ ان کا مسئلہ وہ ڈالرز ہیں جو گھر میں سرمایہ کاری کے نام پر رکھے ہیں۔
ایک تیسری قسم بھی ہے جسے ہم ایکسپورٹرز کہتے ہیں۔ انہیں پاکستانی عوام اپنی جیب کاٹ کر سہولتیں دیتے ہیں۔ سستی گیس و بجلی‘ ٹیکس مراعات تاکہ وہ ہمارے لیے ڈالرز کما کر لا سکیں۔ انہیں چھ ماہ تک ڈالرز باہر رکھنے کی اجازت تھی۔ وہ فوری ڈالرز واپس لانے کے بجائے انتظار کرتے رہے کہ ڈالر کا ریٹ پاکستان میں اوپر جائے گا تو وہ واپس لا کر کیش کرائیں گے۔ ڈالر 220روپے سے 300روپے تک لانے میں ان سب لوگوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب کئی ایکسپورٹرز نے پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کھول لی ہیں کہ اب کون اتنی تگ و دو کرے۔ یہیں زرعی رقبے کوڑیوں کے بھائو خریدو اور دو دو کروڑ کا ایک کنال بیچ کر مال بنائو۔ ان تین مارکیٹس کا رواج مفتاح اسماعیل نے ڈالا جب انہوں نے بینکوں کو چپکے سے اجازت دے دی کہ تم لوگ امپورٹرز سے بینک ریٹ 220 روپے فی ڈالر کے بجائے 250چارج کر لو اور سٹیٹ بینک کو کہا کہ تم آنکھیں بند رکھو۔ یوں اس نئی مارکیٹ نے جنم لیا جو اب تک کنٹرول میں نہیں آرہی۔ اس ملک میں نہ کوئی قانون ہے نہ کوئی قانون کو مانتا ہے۔ اب یہ فری فار آل ہے۔ جس کا جہاں دائو لگ جائے وہ لگا لے۔ دوست چپ رہا۔ اس کا موڈ آف ہو چکا تھا۔ میں نے کہا: ٹھہر ذرا‘ تیرا موڈ ٹھیک کرتا ہوں۔ تمہیں ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔
چیئرمین نادرا طارق ملک کو وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ بلا کر کہتے ہیں کہ آپ استعفیٰ دے دیں۔ وہ کہتے ہیں: کیوں دوں؟ میں اقوامِ متحدہ کی نوکری چھوڑ کر باقاعدہ سلیکشن پراسیس سے چیئرمین لگایا گیا تھا۔ اس انکار کے بعد آیف آئی اے نے چیئرمین اور ان کے ڈائریکٹرز کو دفتر بلا یا اور پھر گھنٹوں انتظار کرایا تاکہ ان فارن کوالیفائیڈ لوگوں کو ان کی اوقات یاد دلائی جائے۔ خیر اپنی عزت بچانے کے لیے طارق ملک نے تین صفحات کا استعفیٰ لکھا اور جیب میں ڈالا تاکہ رانا صاحب کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ رانا صاحب نے اچانک انہیں عزت دینے کا فیصلہ کیا اور انہیں وزیراعظم کے پاس لے گئے۔ وزیراعظم مل کر خوش ہوئے۔ استعفیٰ انہیں تھمایا گیا تو بولے: ملک صاحب آپ تو وہی ہیں نا جنہوں نے 2018ء کے الیکشن میں بدنامِ زمانہ RTS بٹھا کر عمران خان کو جتوایا تھا۔ طارق ملک مسکرائے اور بولے: سر میں 2016ء میں نادرا چھوڑ کر اس وقت امریکہ میں اقوامِ متحدہ کی نوکری کررہا تھا۔ میں نادرا میں 2021ء میں واپس آیا۔ جب الیکشن ہوئے تو میں نادرا تو چھوڑیں‘ پاکستان تک میں نہ تھا۔ میرا آر ٹی آیس یا الیکشن سے کیا لینا دینا۔
شہباز شریف کے ردِعمل سے اندازہ ہوا کہ انہیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ طارق ملک نے ہی آر ٹی ایس بٹھایا تھا لہٰذا ان کی چھٹی کرانی ضروری ہے کیونکہ اگلا الیکشن قریب ہے‘ وہ پھر کہیں مخالفوں کو نہ جتو ا دیں۔ اب اندازہ کریں‘ آپ وزیراعظم بن چکے ہوں‘ 2018ء سے پوری سیاست RTS پر کی ہو لیکن آپ کو اس بات کا علم تک نہ ہو کہ 2018ء میں چیئرمین نادرا کون تھا؟ محض کسی کے کان بھرنے پر 2021ء میں اقوامِ متحدہ کی تگڑی نوکری چھوڑ کر پاکستان آئے بندے سے استعفیٰ مانگ لیں۔پہلے سنتے تھے‘ اب آنکھوں سے دیکھ بھی لیا ہے کہ ہر دور میں حکمران کو گمراہ کرنا درباریوں کے لیے کتنا آسان کام رہا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے لے کر ہم اندرون ملک مقیم پاکستانیوں تک سب کو بڑی جلدی ہے کہ جس شاخ پر ہم پینگ ڈال کر جھولے لے رہے ہیں وہ کسی دن تڑاک سے نیچے آگرے تو کیا ہی مزہ آئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved