تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-09-2013

کب تک تیری شنوائی اے دیدہ ٔتر ہو گی

اﷲ کی کتاب میں یہ لکھا ہے: ’’آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں۔‘‘ جب آپ ؐ دنیا سے رخصت ہورہے تھے تو آواز مدّھم تھی۔ ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے کان لگا کر سنا: ’’الصلوٰۃ، الصلوٰۃ وماملکت ایمانکم ‘‘ نماز، نماز اور جو تمہارے رحم وکرم پر ہیں…غلام! وہ جو ڈھوروں ڈنگروں کی طرح رکھے جاتے تھے۔ اﷲ کے آخری رسول ؐ نے قرار دیا کہ تم انہیں وہ کھلائو گے جو خود کھاتے ہو اور وہ پہنائو گے جو خود پہنتے ہو۔ تھوڑی دیر ہی پہلے جبریل امینؑ آئے اور اﷲ کا پیغام دیا تھا: دائمی عمر اور سارے خزانوں کی چابیاں، فرمایا: نہیں، میں اپنے اس اعلیٰ رفیق سے جاملنا چاہتا ہوں۔ کچھ ہی دیر قبل وصیت فرمائی تھی کہ غیر مسلموں کا خیال رکھا جائے اور بہت پہلے معاہدہ رقم کردیا تھاکہ مسیحیوں کے عبادت خانے محفوظ رہیں گے اور یہ وعدہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ کوئی اُمتّی روزِ قیامت تک اس سے انحراف نہ کرے گا۔ جن لوگوں نے پشاور کے مسیحی پاکستانیوں کو، بچوں اور عورتوں کو قتل کیا، قیامت کے دن اﷲ اور اس کے پیغمبر ؐ کو وہ کیا جواب دیں گے؟ شفاعت کا اختیار آپ کو بخشا گیا۔ وہ اپنے پرودگار سے التجا کریں گے، پھر دوسری اور تیسری بار اور حتیٰ کہ کچھ لوگ پھر بھی باقی رہ جائیں گے، تب پروردگارِ عالم کا جواب یہ ہوگا: ان کے اور جنّت کے درمیان کتاب حائل ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے قرآن کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ قرآن کریم جو یہ کہتا ہے کہ ایک آدمی کا قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ ’’الفتنۃ اشدّ من القتل‘‘ فتنہ، قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اسی کتاب میں ہے کہ وعدے پورے کیا کرو، وعدوں کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔ اس روز پاکستان کے مسلمان، اس کے حکمران اور لیڈر کیا منہ لے کر سرکار ؐ کے سامنے پیش ہوں گے۔ لبرل فاشسٹوں اور امریکہ کے غلاموں کو چھوڑیے، انہیںمرنا ہے اور نہ خدا کو جواب دینا ہے۔ سحر سے شام تک جو قال اﷲ اور قال الرسولؐ کی زبان میں بات کرتے ہیں، ان کا جواب کیا ہوگا؟ ہم کس طرح کے مسلمان ہیں؟ فیصلے کا وقت آتا ہے تو اﷲ کی کتاب یاد نہیں رہتی۔ اس کے سچے پیغمبرؐ اور نہ ان کے سنگی ساتھی۔ کہا جاتا ہے کہ سیّدنا عمر فاروق اعظمؓ یروشلم کے لیے روانہ ہوئے تو زمین کانپ رہی تھی۔ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت میں امن کا عالم یہ تھا کہ صرف ایک غلام کے ساتھ گئے۔ آدھا راستہ خود سوار ہوئے اور آدھا راستہ اسے بیٹھنے دیا۔ ہمارے کھرب پتی حکمرانوں کو کبھی ان کی یاد آتی ہے؟ کبھی شرم آتی ہے؟ شہر میں داخل ہوئے تو کسی نے کہا: لباس بدل لیجیے۔ فرمایا: لباس زمین کی چیز ہے اور رعب آسمان کی۔ پھر معاہدہ لکھا گیا اور ان تعلیمات کی روشنی میں جو انہیں ازبرتھیں۔ نماز کا وقت آیا تو گرجا میں تشریف فرما تھے۔ میزبان نے کہا: یہیں عبادت کر لیجیے۔ فرمایا : ہرگز نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کل مسلمان (میری پیروی کرتے ہوئے) اسی جگہ کو سجدہ گاہ بنانے کی کوشش کریں۔ اتوار کو حادثہ ہوچکا تو میں چنیسر ہالٹ کے پاس سے گزرا۔گمان ہے کہ یہی وہ جگہ ہے، جہاں کبھی گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی گاڑی رکوادی تھی۔ ریل کا پھاٹک بند تھا۔ ڈرائیور اترا اور پھاٹک والے سے پوچھا کہ گاڑی آنے میں کتنی دیر باقی ہے۔ معلوم ہوا کہ ابھی دس منٹ اور۔ گاڑی چلانے کی کوشش کی تو روک دیا کہ اگر میں قانون کی پابندی نہ کروں گا تو اور کون کرے گا۔ اب ہمارے حکمران وہ ہیں، جن کی دولت اور اولاد ملک سے باہر ہے۔ سوال کیجیے تو ان کے پاس درجنوں بہانے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ کردار کُشی کرنے والے کارندے۔ جیسے ہی اعتراض ہو ،چاکر حرکت میں آتے ہیں اور نوکر گالی دیتے ہیں۔ پارسیوں، بوہروں اور اسماعیلیوں کو قائداعظم خود کراچی لے کر آئے تھے۔ اب وہ بیرون ملک بھاگ رہے ہیں یا لاہور۔ وہ لاہور، جہاں بھتہ خوری کی ابتدا ہو چکی۔ جس کا وزیراعلیٰ ہرچند ماہ کے بعد اعلان کرتا ہے کہ تھانہ کلچر بدل دیا جائے گا۔ جس نے پولیس والوں اور نچلی عدالتوں کے ججوں کی تنخواہیں دوگنا کردیں ۔ جو جانتا نہیںکہ جب تک تقرر اور تبادلے اہلیت پر نہ ہوں گے۔ جب تک سیاسی مداخلت بند نہ ہوگی۔ جب تک شاہی خاندان ضابطوں کی پاسداری نہ کرے گا اور قانون کی حدود میں پولیس کو آزادی نہ ہوگی، امن قائم نہ ہوسکے گا اور جرم پھلتا پھولتا رہے گا۔ اگر اس کے اپنے خاندان کا فرزند ایک بیکری والے کی پٹائی کرتا ہے تو اسے پولیس کے سپرد کرنے کے بجائے اخبارات میں اداریے لکھوائے جاتے ہیں کہ ’’خادم پنجاب نے مقدمہ درج کرنے کا حکم دے کر شیر شاہ سوری کی یاد تازہ کردی۔‘‘ کیا اسے سزا ملی؟ کیا مل سکتی ہے؟ جہانگیر ایک بادشاہ تھا اور ویسا ہی بادشاہ جیسے کہ ہوا کرتے ہیں۔ خود کہا تھا کہ ایک جام اور دو کباب کے عوض ہم نے اپنی سلطنت نورجہاں کے حوالے کردی ہے۔ ہیرالڈلیم نے لکھا ہے کہ وہ احکامات صادر کرتی اور خود ہی مہر لگادیا کرتی۔ پھر وہ حادثہ ہوا جس سے منکشف ہوا کہ اپنی تمام خرابیوں اور آوارگیوں کے باوجود مغل 1526ء سے 1712ء تک برصغیر پہ آہنی گرفت کیسے قائم رکھ سکے۔ قتل کے ایک واقعہ میں ملکہ کو ملوث قرار دیا گیا۔ کہا گیا کہ دانستہ ایسا نہیں ہوا۔ بادشاہ نے مگر ملکہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ بچ نکلی تو رو کر کہا: اگر تو ماری جاتی تو میرا کیا ہوتا۔ یہ اس آدمی کا عالم تھا، جس کے بارے میں معتبر مورخ یہ کہتے ہیں کہ بادہ نوشی پہ اکتفا نہ کرتا تھا، افیون بھی کھایا کرتا۔ بتدریج اس حال کو پہنچا کہ بیٹے نے بغاوت کردی اور اسی عالم میں دنیا سے اٹھ گیا۔ افسوس کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے قائدِعظیم عمران خان مستقل طور پر تذبذب اور مایوسی کا شکار ہیں۔ نواز شریف خوف زدہ ہیں اور ظاہر ہے کہ خوف میں کوئی حکمت عملی تشکیل نہیں دی جاسکتی۔ وہ چاہتے ہیں کہ سانپ مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ طالبان بھی کسی طرح مطمئن ہوجائیں اور دہشت گردی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے۔ ان کے نائب راناثناء اﷲ انتہا پسند تنظیموں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کے بھائی نے ارشاد فرمایا تھا کہ طالبان کو پنجاب میں کارروائیاں نہ کرنی چاہئیں۔ عمران خان کا مسئلہ کیا ہے؟ میں سوچتا ہوں اورسمجھ نہیں پاتا۔ الّایہ کہ وہ اپنے تعصبات کے اسیر ہیں۔ اور اپنی رائے پر نظرثانی کے لیے آمادہ نہیں۔ وزیرستان اور پشتونوں سے انہیں محبت بہت ہے۔ ان کی والدہ محترمہ کا تعلق وہیں سے تھا۔خود ان کی زندگی کے بہترین ماہ وسال وہاں گزرے۔ اس موضوع پر ایک کتاب بھی انہوںنے لکھی ’’غیرت مند مسلمان‘‘ جس کا انگریزی ایڈیشن لندن سے چھپا۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلزپارٹی کا المیہ یہ ہے کہ انہیں امریکہ نواز سمجھا جاتا ہے۔صدر زرداری کے عہد میں ہزاروں امریکیوں کو جانچ پڑتال کے بغیر ویزے جاری ہوئے۔کتنے ہی ریمنڈ ڈیوس پاکستان پہنچ گئے۔ الطاف حسین لندن میں پناہ گزین ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ کیوں؟اے این پی کا حال یہ ہے کہ اس کی حکومت میں بلٹ پروف جیکٹس اور سکینرز تک کی خریداری میں غبن کا الزام ہے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کے اس جملے سے بہت دکھ پہنچا کہ امریکہ اور چین کے مذاکرات دس سال جاری رہے۔ کیا پاکستان امریکہ اور طالبان ،چین ہیں؟ ایسی ہی بات عمران خان نے کہی کہ مذاکرات کے مخالفین کو شرم آنی چاہیے۔ کیا حامیوں کو کبھی نہیں آنی چاہیے؟ قبائلی علاقے کیا پاکستان کا حصہ نہیں؟ کیا ریاست کو قانون کے تحت ان سے نمٹنے کا حق نہیں؟ قوم نے مان لیا۔چلیے مذاکرات ہی سہی مگر کب آغاز ہوگا اور کب اختتام ؎ کب ٹھہرے گا درد اے دل،کب رات بسر ہوگی کب تک تیری شنوائی اے دیدۂ تر ہو گی یہ بات اللہ نے منافقین کے بارے میں کہی تھی کہ ہمیشہ تذبذب میں مبتلا رہتے ہیں۔ برق چمکتی ہے تو راہ دیکھتے ہیں وگرنہ گم صم کھڑے رہ جاتے ہیں۔ یہ بات ہمارے بعض لیڈروں پہ کیوں صادق آنے لگی۔ اﷲ کی کتاب میں یہ لکھا ہے: ’’آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved