تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     17-06-2023

یہ ذہنیت کیسے بدلے؟

جن مسائل میں پاکستان ڈوبا جا رہا ہے یہ راتوں رات پیدا نہیں ہوئے۔ شروع سے ہی ہم نارمل ملک نہیں تھے کیونکہ جن نظریات کو ہم نے تھامے رکھا اور جن کے بارے میں ہم ڈھول بجاتے رہے یہ کسی نارمل معاشرے میں دیکھنے کو نہیں ملتے۔جو دشمنیاںہم نے پالیں وہ بھی نارمل ملکوں کا وتیرہ نہیں۔لیکن گزارا چلتا رہا‘ بڑوں کی لڑائیوں میں معمولی چوکیدار کے فرائض بطورِ ملک ہم نبھاتے رہے اور اس کیلئے ہمیں کچھ نہ کچھ ملتا رہا اور ہم سمجھے کہ ہم بڑے طرم خان ہیں اور یہ سلسلہ ہمیشہ کیلئے چلتا رہے گا۔دنیا کے مسائل اب بھی ہیں لیکن اور نوعیت کے ہیں‘ لیکن بڑوں کے آلہ کار بن کے جوکردار ہم نبھاتے تھے اُس کی گنجائش اب نہیں رہی۔اپنے پہ آئے ہیں تو ہم سے کچھ ہو نہیں رہا۔ہاتھ پیر ماری جا رہے ہیں لیکن ہمارے کشکول میں کچھ آ نہیں رہا۔اوپر سے ایسا نکمہ قسم کاحکمران طبقہ ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ بطورِ قوم ہم نے جانا کہاں ہے اور کرنا کیا ہے۔
کوئی سوچ سکتا تھا کی سعودی عرب کی سوچ میں بنیادی تبدیلیاں آنے لگیں گی؟سعودی عرب قدامت پسندی کا قلعہ سمجھا جاتا تھالیکن موجودہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان وہاں ایسی ایسی چیزیں لا رہے ہیں جن کا تصور محال تھا۔باہر کے مبصر جو وہاں جاتے ہیں‘ ان تبدیلیوں پر حیران ہوتے ہیں۔یہ صرف ظاہری تبدیلیاں نہیں ہیں بلکہ کوشش کی جا رہی ہے کہ سعودی معاشرہ فرسودہ خیالات سے آزاد ہو جائے۔تعلیمی اداروں میں نصاب کی کتابیں تبدیل ہو رہی ہیں‘ سائنس اور ٹیکنالوجی پر زور دیا جا رہا ہے۔پرانی دشمنیاں ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔کتنے عرب ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔سعودی عرب نے نہیں کئے‘لیکن وہاں سوچ موجود ہے کہ ایسا ہونا چاہئے ۔
لیکن ہم عجیب مخلوق ہیں ‘ وہی پرانے راستوں پر پڑے ہوئے ہیں ۔ سعودی عرب تبدیل ہو رہا ہے لیکن پتہ نہیں ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم نے تبدیل نہیں ہونا۔پرانی دشمنیاں ‘ پرانی سوچ ‘ فرسودہ خیالات ‘ حقیقت سے بھاگنا ‘ کہانیاں بنانی اور اُنہیں پہ تکیہ کرنا۔یہ ضرور ہے کہ موجودہ سنگین حالات کا تسلسل پچھلے سال اپریل میں جو حکومت تبدیل کی گئی اُس سے جڑا ہوا ہے لیکن پاکستان کے اصل اور بنیادی مسائل اس رجیم چینج سے بہت پہلے کے ہیں۔ہماری سوچ اور ذہنیت تو ایسی ہے کہ لگتا ہے کہ ہم موجودہ دور میں نہیں بلکہ کسی گزرے دور میں جی رہے ہیں۔ ہمارے رویے فرسودہ ہیں‘ ہماری سوچ پیچھے کی ہے اور اس کی بڑی وجہ ہمارا یہ عجیب فلسفہ ہے کہ فلاں ملک سے ہماری ازلی دشمنی ہے۔ بین الاقوامی معاملات میں مسائل ہوتے ہیں ‘ بڑائی کی دوڑ ہوتی ہے ازلی دشمنیاں کم ہی ہوتی ہیں۔لیکن یہاں شروع دن سے قوم کو یہ سبق پڑھایا گیا کہ ہندوستان نے ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیااور وہ ہماری تباہی پر تُلا ہوا ہے۔اس سوچ نے ہمارے پورے قومی وجودکو ایک مخصوص رنگ میں ڈھال دیا۔قومی وسائل اسی سوچ کی نذر ہو تے گئے۔ اسکی وجہ سے کئی شعبوں میں ہم نے کچھ ترقی کی لیکن مجموعی طور پر ہم ترقی کے راستوں سے ہٹ گئے۔نہ تعلیم پہ توجہ دی نہ عوام کی بھلائی پر۔خاص طبقات کی موج رہی اورعام آدمی کی حالت نسبتاً پیچھے رہی۔
یہ ذہنیت جو بن چکی ہے اسے تبدیل کیسے کیا جائے؟فرسودہ نظریات کی دنیا میں سے ہماری قومی سوچ کیسے نکلے ؟کسی اور سے ہم نے نہیں سیکھنا تو سعودی عر ب سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ہمارے لوگوں کو سعودی عرب کے حالات کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ لیکن یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب یہاں کوئی ڈھنگ کی حکمرانی قائم ہو۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو ہم سے جمہوریت چلتی ہے اور نہ ہمارے آمر کچھ زیادہ پڑھے لکھے یا روشن خیال ہوتے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں جو وہاں کے حاکم کرسکتے ہیں‘یہ ہمارے حاکموں کے بس کی بات نہیں۔ایک تو ہمارے حاکموں کی سوچ ہی بڑی محدود ہے۔کہنے کو تو اُنہوں نے دنیا دیکھی ہے ‘ ہمارے حکمران طبقات میں بہت سے ایسے ہیں جو فخر کرتے نہیں تھکتے کہ ہم باہر سے پڑھے ہوئے ہیں لیکن اُن کی باتیں سنیں یا اُن کی چال ڈھال دیکھیں تو لگتا ہے کہ اُن کے ذہن بڑے محدود دائروں میں گھومتے ہیں۔
اب یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ پرانی دشمنیوں کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے لیکن حکمران طبقے میں یہ سوچ کہاں سے آئے گی؟ جن معاشی حالات میں ہم پھنسے ہوئے ہیں ان کا تو تقاضا تھا کہ اور کچھ نہیں تو ہندوستان سے باہمی تجارت کھولی جائے۔سفر اور میل جول میں کچھ آسانیاں پیدا ہوں ۔ عرب دنیا اور اسرائیل میں آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں لیکن ہم ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔کتنی بار یہ بات دہرائی جائے کہ چین کہتا ہے کہ تائیوان حاصل کرنے کیلئے وہ جنگ کا راستہ بھی اختیار کرسکتا ہے لیکن پھر بھی چین اور تائیوان میں تجارت چل رہی ہے‘ لوگوں کے سفر کرنے پر کوئی پابندی نہیں ۔ چین اور ہندوستان کے درمیان بارڈر تنازع سخت نوعیت کا ہے لیکن تجارت اُن کی چل رہی ہے ۔ ہم پتہ نہیں کس دنیا میں جی رہے ہیں۔
موجودہ حالات اس نہج کو پہنچ چکے ہیں کہ ہماری سا لمیت خطرے میں لگتی ہے۔لیکن کوئی سوچ یہاں نظر آتی ہے کہ ملک کو کیسے بچانا ہے‘ ان حالات میں سے کیسے نکلنا ہے؟ ایک تو ہندوستان کے ساتھ دشمنی پال رکھی ہے اور اندرونِ ملک آپس میں چھوٹی چھوٹی دشمنیاں پال رکھی ہیں۔کئی دفعہ دل چاہتا ہے کہ یہاں کوئی فرانسیسی یا روسی انقلاب آئے لیکن خواہشات کے گھوڑے رک جاتے ہیں اس خیال پر کہ یہ سرزمین کون سے انقلابی پیدا کرسکتی ہے جو یہ بڑے کام کر سکیں؟ یہ بات جو یہاں کہی جاتی ہے کہ ہم نے آزادی کیلئے بڑی قربانیاں دیں ‘ خون کے دریا جو پنجاب میں بہے اُن کی وجہ سے تو پاکستان معرضِ وجود میں نہیں آیا۔پاکستان بننے کا فیصلہ برطانوی پارلیمنٹ میں ہوا تھااور تقسیمِ ہند کا فیصلہ 1947ء کے وسط میں ہو گیا تھا۔پنجاب کی خونریزی تو تقسیم ِ ہند کا نتیجہ تھی۔یعنی تقسیم کا فیصلہ پہلے ہوا اور نیاموں سے تلواریں بعد میں نکلیں۔لیکن آپ سنتے رہیں گے کہ آزادی کیلئے ہم نے بہت قربانیاں دیں۔آزادی کیلئے یہاں کون سی تحریکیں چلیں ؟ کون سے لوگ یہاں سے آزادی کی خاطر جیلوں میں گئے؟ ہماری لڑائی تو انگریزوں کے ساتھ تھی ہی نہیں‘ ہماری لڑائی ہندوؤں سے تھی ۔ہندوؤں کے خلاف تو نسلی فسادات ہی ہوسکتے تھے۔ ان فسادات میں دونوں اطراف سے لوگ شامل تھے۔لیکن نسلی فسادات اور آزادی کیلئے قربانیوں میں ہم نے کبھی فرق نہیں کیا۔جہاں یہ حالت قربانیوں کی ہو تو انقلابی کہاں سے پیدا ہونے ہیں؟
انقلاب تو دور کی بات ہے ‘ یہاں تو ڈر لگتا ہے ہمارا حشر کہیں مصر والا نہ ہو۔جب حسنی مبارک کے خلاف مصری عوام باہر نکل پڑی توامیدیں پیدا ہوئیں کہ جمہوریت آئے گی ‘ عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے۔ وہاں ایک منتخب حکومت تھی لیکن اُسے ہٹایا گیا اور مصر کے موجودہ حکمرانوں نے اقتدار اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیا ۔ اقتدار اب بھی اُن کے پاس ہے لیکن مصر کی معیشت تباہ ہو گئی ہے ۔وہ بھی پیسے مانگتے پھر رہے ہیں۔شروع میں تو عرب ملکوں سے اُنہیں بہت امداد ملی لیکن دینے والے بھی تھک جاتے ہیں‘ بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔
رونا اس بات پر بھی ہے کہ آزادی ہمیں بطورِ تحفہ ملی یا قربانیوں کی وجہ سے‘ پاکستان بننے کے وقت ہمارے حکمران طبقات میں اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ تھے۔ہم بہت کچھ کرسکتے تھے ‘ ترقی کی راہ پر چل سکتے تھے۔لیکن کیا کہیں ‘ تقدیر ہی کچھ ایسی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved