دلِ خوش فہم کو یہ خیال ہوا کہ اہلِ کراچی پر قدرت ایک بار پھر مہربان ہو رہی ہے۔وہ دن لوٹ رہے ہیں جب نعمت اللہ خان جیسا کوئی درویش کراچی کا میئر تھا۔اس منصب پر پھر ایک ایسا شخص بیٹھا ہوگا جس کے سامنے نعمت اللہ خان اور عبدالستار افغانی کی درخشاں روایات ہیں اور وہ ان کے دور کو زندہ کر سکتا ہے۔خوش فہمی کی عمر مگر زیادہ نہیں ہوتی ۔میں بھول گیاتھا کہ ایک زرداری سب پر بھاری ہو تا ہے۔
پیپلز پارٹی کا معاملہ عجیب ہے اور زرداری صاحب کا اس سے بھی زیادہ۔ قومی سیاسی جماعتوں کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے با وصف‘ وہ ملک کے لیے اثاثہ ہیں۔یہ اُن ہی کا وجود ہے جوقومی وحدت کی ضمانت بن سکتا ہے۔پیپلزپارٹی بھی یقینا ان میں شامل ہے۔ملک کو متحد رکھنے کے لیے اس کی قیادت اور کارکنوں نے قربانیاں دی ہیں۔بے نظیر بھٹو صاحبہ کے لیے میرے دل میں بہت احترام ہے۔ان کی شہادت کے بعد اس احترام میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ عجیب بات مگر یہ ہے کہ جیسے ہی یہ رائے جڑ پکڑنے لگتی ہے‘ ایک آندھی ایسی چلتی ہے جو خوش گمانی کے اس نوخیزپودے کو اکھاڑ پھینکتی ہے۔کراچی میں‘ میئر کا انتخاب بھی ایساہی ایک واقعہ ہے۔پیپلزپارٹی نے جو سیاست کی‘اس نے جمہوریت ہی کو نقصان نہیں پہنچایا‘خوداس جماعت کی شہرت کو بھی داغ دار کیا ہے۔
یہ انتخاب پاکستان کے انتخابی نظام کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ اکتیس افراد کا غائب ہو جا نا اور ان کی غیر موجودگی میں انتخابی عمل کا جاری رہنا‘اس کی شفافیت پر سوال اُٹھا رہا ہے۔الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان افراد کوبرِسر زمین لائے اور تحقیقات کروائے کہ وہ انتخاب کے دن کہاں تھے؟ایک بااعتماد صحافی کی اطلاع یہ ہے کہ ان میں سے اٹھارہ کو کراچی ڈیفنس کے ایک بنگلے میں رکھا گیا ہے جہاں پولیس ان کی نگران ہے۔اس خبر کی تحقیق از بس ضروری ہے۔
جماعت اسلامی احتجاج کرنا چاہتی ہے اور اس کا یہ حق ثابت ہے۔ یہ سلجھے لوگوں کی جماعت ہے۔مجھے امید ہے کہ یہ لوگ کوئی ایسا احتجاجی راستہ اختیار نہیں کریں گے جو کسی کلٹ کے لوگ کرتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ جمہوری روایات میں احتجاج کا اسلوب کیا ہو تا ہے۔ غم اور غصے میں تہذیب کے دائرے میں رہنا ہی انسان کا اصل امتحان ہے۔جماعت اسلامی کی تاریخ میں اس دائرے کا اکثر خیال رکھا گیا‘بالخصوص اس کے صدرِ اوّل میں۔ریاست کو مگر یہ سوچنا ہو گا کہ ہر جماعت اتنی منظم نہیں ہوتی۔ہر جماعت کے کارکن جماعت اسلامی کے کارکنوں کی طرح تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔اگر جمہوری عمل کو مسلسل طاقت اور سرمایے کے زور پر سبو تاژ کیا جا تا رہا تو یہ پُر تشدد سیاست کا دروازہ کھول دے گا۔
ریاست کیساتھ یہ بات پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھی سوچنا ہو گی۔ پیپلزپارٹی خود ایسے دور سے گزر چکی جب اس کی آواز کو طاقت سے دبایا گیا۔وہ طویل عرصہ ریاستی جبر کا شکار رہی۔اگر آج وہ بھی اسی راستے پر چلے گی تو پھر جمہوری روایات کیسے مضبوط ہوں گی؟ پیپلزپارٹی کو اپنی تاریخ سے بھی سیکھنا ہو گا۔یہ انتخابی دھاندلی ہی کا الزام تھا جو بھٹو صاحب کے اقتدار ہی نہیں‘زندگی کے خاتمے کا بھی سبب بن گیا۔اگر سیاسی جماعتیں ہی ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کر یں گی تو جمہوری روایات کیسے آگے بڑھیں گی؟
اس انتخاب کے معاملے میں ایک اور پہلو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ایم کیو ایم اس عمل سے باہر رہی۔ایم کیو ایم کرا چی کی سیاست میں ایک حقیقت ہے۔اس نے مہاجر عصبیت کوایک سیاسی محاذ دیا۔اس عصبیت کو بد قسمتی سے ایک ایسی قیادت ملی جس نے اسے تشدد میں جھونک کر‘ نہ صرف مہاجروں کو‘بلکہ پورے شہر کو بر باد کر دیا۔جو سلوک عمران خان صاحب نے پی ٹی آئی کے ساتھ کیا‘یہی الطاف حسین صاحب نے مہاجروں کے ساتھ کیا۔
تشدد نے ایم کیو ایم کو تو ختم کر دیا مگرمہاجر عصبیت اپنی جگہ موجود ہے۔اس عصبیت کو ایم کیو ایم نے نہیں‘ایم کیوایم کو اس عصبیت نے جنم دیاتھا۔مہاجر معلوم ہوتا ہے کہ اُس صدمے سے پوری طرح باہر نہیں آئے‘ایم کیوایم کا زوال‘جس کا باعث تھا۔اگر کراچی میں مئیر کا انتخاب شفاف طریقے سے ہو جا تا اورمردم شماری میں بھی اس شہر کے مکینوں کی شکایات کو دور کیا جاتا تو یہاں کے مہاجرپھر سے پُرامید ہو سکتے تھے۔ موجودہ نظام پر ان کاا عتماد بحال ہوسکتا تھا اور وہ جماعت اسلامی جیسی قومی سیاسی جماعتوں کا حصہ بن کر قومی دھارے میں شامل ہو سکتے تھے۔ افسوس کہ ریاست نے اس دور اندیشی کا مظاہرہ کیا اور نہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے۔دونوں نے یہ موقع گنوا دیا۔
کچھ لوگ کراچی کی سیاست کا موازنہ قومی سیاست کیساتھ کرتے ہوئے‘پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کو ایک پلڑے میں رکھ رہے ہیں۔یہ دور کی کوڑی لانا ہے۔پی ٹی آئی جب تک ایک سیاسی جماعت کے رویے کا مظاہر کرتی رہی‘سسٹم نے اسے گوارا کیا۔اس کی سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں اور عدالتوں سے اس کے حق میں مسلسل فیصلے آتے رہے۔ حکومت اس کے ساتھ مذاکرات میں بھی شریک رہی۔خان صاحب کی نرگسی طبیعت مگر سیاسی پیش رفت میں حائل ہو گئی۔وہ اگر سیاسی طرزِ عمل اختیار کرتے تو ملک انتخابات کی طرف بڑھ سکتا تھا۔ انہوں نے سیاست میں ریڈ لائن کا تصور دے کر اس کو تشدد کے راستے پر ڈال دیا۔خود ان کو اس کا نقصان ہواا ور ملک کو بھی۔
جماعت اسلامی کراچی کا معاملہ یہ نہیں ہے۔اس نے کراچی کے حقوق کے لیے برسوں مہم چلائی ہے۔ایم کیوایم کے تنظیمی بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ایک بار پھر کراچی کے شہریوں کو کامیابی کے ساتھ اپنی طرف متوجہ کیا ۔شکایات کے باوجود‘جماعت جمہوری عمل کا حصہ بنی ہے۔اس کا راستہ تو غیر جمہوری طریقے سے روکا گیا ہے۔ اس لیے جماعت کو کسی طرح پی ٹی آئی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔پی ٹی آئی کو اگر کسی جماعت کے مثل قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ ایم کیو ایم ہے۔ یہ اگر آج بھی سیاسی عمل کا حصہ بنے اور ریڈ لائن کی سیاست سے رجوع کرے تو کوئی اس کا راستہ نہیں روک سکتا۔
اس وقت ملکی سلامتی اور استحکام کی ذمہ داری جن سیاسی قوتوں پر ہے‘ ان میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی سرِ فہرست ہیں۔ آصف زرداری صاحب کو آج صرف اپنی جماعت کے مفادات کو نہیں‘ ملک کے مفاد کو دیکھنا ہے۔معیشت کا جو حال ہے‘وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کراچی جیسا شہر کسی فساد کا شکار نہ ہو جہاں سے سب سے زیادہ ٹیکس جمع ہو تا ہے۔ کراچی کو فساد سے بچانا‘سب سے زیادہ پیپلزپارٹی کی ذمہ داری ہے۔
آج تاریخ ایک بار پھر زرادری صاحب کے دروازے پر کھڑی ہے۔ اگر آج وہ ایک بار پھر 'پاکستان کھپے‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو اس کا حق دلوائیں تو تاریخ عظمت کا تاج ان کے سر پر رکھ دے گی اوران کی کوتاہیوں پر لکیر کھینچ دے گی۔اگر وہ مرتضیٰ وہاب کو یہ کہیں کہ وہ حافظ نعیم الرحمن کے حق میں دست بردار ہوجائیں تو مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی کی سیاست ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی۔ مستقبل میں اس کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved