تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     18-06-2023

سوات گھبرایاکیوں؟

گزشتہ برس کے وسط میں جب کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے سوات کی کاروباری اورسیاسی شخصیات کو بھتوں کیلئے فون کالز موصول ہونے لگیں اور سوات اور دیر میں کالعدم ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کی واپسی کی خبریں گردش کرنے لگیں تو سوات کے شہریوں کو پریشانی نے گھیر لیالیکن اُنہوں نے گھروں میں چھپ کر بیٹھنے کے بجائے ان دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف سوات کی سڑکوں اور شاہراہوں پر بھرپور احتجاج کرتے ہوئے یہ واضح پیغام دیا کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کو پھر سے سوات کا امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ رواں برس اپریل میں بھی مراد سعید کی زیر قیادت سوات سمیت صوبے بھر میں ان شدت پسندوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اہلِ سوات کے ساتھ ماضی میں جو کچھ ہو چکا ہے‘ خدا وہ حالات اور منا ظر کسی کو نہ دکھائے۔ ان کے جسموں پر لگنے والے دہشت گردی کے زخموں کی ابتدا ہوتی ہے اپریل 2006ء سے‘ جب پولیو کے قطرے پلانے والی کچھ خواتین سوات کے علا قہ کبل پہنچیں تو چھ سات کلاشنکوفوں سے مسلح نوجوانوں نے زبردستی ان کے بیگزچھین کر ان میں رکھی بچوں کو پولیو سے بچائو کی ویکسین کو یہ کہتے ہوئے ضائع کر دیا کہ ان قطروں سے ان کے بچے مارے جائیں گے۔ اس سے چند دن روز قبل سوات میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو اس کے کلینک سمیت اس جرم میں بم سے اڑا دیا گیا تھا کہ وہ بچوں کو پولیو سے بچائو کے ''امریکی قطرے‘‘ پلاتا ہے۔ وادیٔ سوات کے لوگوں کو مضحکہ خیز کہانیاں پھیلا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے روکا جانے لگا جس سے کئی نوزائیدہ بچے پولیو کا شکار ہو کر زندگی بھر کیلئے اپاہج ہو گئے۔ اب بھی پاکستان میں پولیو کے جتنے کیس موجود ہیں وہ خبیر پختونخوا کی بنوں ڈویژن کے اضلاع اور جنوبی وزیرستان سے سامنے آئے ہیں کیونکہ ان علاقوں میں بھی کالعدم ٹی ٹی پی کا کافی زور رہا ہے اور اب بھی وہاں پولیو کے قطروں کے حوالے سے یہی ذہنیت موجود ہے جسے تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے‘ ورنہ ان علاقوں کے بے قصور بچے یونہی پولیو جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر زندگی بھر کے لیے اپاہج ہوتے رہیں گے۔
سوات کے پرانے لوگ اپنی روایات اور مذہب سے گہری وابستگی رکھنے والے‘ مہمان نواز اور نمود و نمائش کے بجائے محنت و مشقت کے عادی تھے۔پھر اس وادی کی خوبصورتی نے سیاحوں پر اپنا جادو جگانا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک اور دنیا بھر سے سیا حوں نے ایشیا کے اس سوئٹزر لینڈ کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ مالم جبہ میں پی ٹی ڈی سی ہوٹل اور کیبل کار سے یہاں سیاحوں کی آمدو رفت اور سرمایہ کاری بڑھنے لگی۔ مری کی بڑھتی ہوئی تنگ دامنی اور افراتفری سے تنگ آئے ہوئے لوگوں نے سوات کی وادیوں کا رخ کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میاں دم‘ کالام‘ مدین‘ بحرین‘ کالام اور مٹلتان سے بھی آگے کے پہاڑوں پر لوگوں نے اپنے بڑے بڑے محل نما گھر اور ہوٹل بنانا شروع کر دیے۔ ہوٹل انڈسٹری‘ جو سیاحت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے‘ اپنے عروج پر پہنچنا شروع گئی جس سے مقامی آبادی میں ر وزگار کے مواقع بڑھنے لگے۔ سوات میں ہوٹل انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں سوات سے باہر کے لو گوں کی اکثریت تھی۔ شنید ہے کہ ان سرمایہ کاروں میں سے بیشتر جرائم پیشہ افراد تھے یا ایسے جنہوں نے ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کر رکھی تھی۔ ان کا مطمع نظر صرف دولت کمانا تھا چاہے اس کے لیے وہ کوئی بھی راستے اپنائیں۔ اس صورتحال سے مقامی آبادی میں بے چینی پھیلنے لگی۔
1982ء تک وادیٔ سوات کے اہم ترین سیاحتی علاقے کالام میں کسی ہوٹل کا وجود تک نہ تھا۔ چھو ٹی چھو ٹی چند ایک دکانیں تھیں۔ 1990ء کی دہائی میں مالم جبہ‘ میاں دم اور کالام میں سیاحت نے یک دم زور پکڑا اور وہاں ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی بھرمار ہونا شروع ہو گئی۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ 10ہزار کی زمین دس لاکھ میں بکنے لگی۔ پیسے کی فراوانی سے سوات کے لوگوں کے طرزِ زندگی میں تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں اور ہر خالی جگہ پر ہو ٹل‘ ریستوران اور شاپنگ پلازے تعمیرہونے لگے۔ اب یہاں آنیوالے لاکھوں مرد و خواتین کی خریداری کیلئے جگہ جگہ مہنگے غیرملکی برانڈز کی بھرمار ہے۔ یہاں کے باسیوں میں حصولِ تعلیم کا شعور اجاگر ہونے سے جہاں سرکاری سکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا وہیں نجی سکولوں اور کالجوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی۔ پھر ملک کے دیگر خطوں کی طرح سوات کے نوجوانوں میں بھی روزگار اور حصولِ تعلیم کیلئے ملک سے باہر جانے کا کلچر پروان چڑھنے لگا۔ ساتھ ہی جرائم اور معاشرتی برائیوں میں بھی اضافہ ہوا‘ جس کے خلاف 1992ء میں صوفی محمد کی سربراہی میں تحریک نفاذ شریعت محمدی نامی تحریک شروع کی گئی جو مکمل طور پر مقامی لوگوں کی مدد اور تعاون سے کام کر رہی تھی۔ نائن الیون کے بعد طالبان کی مدد کیلئے صوفی محمد بھی جہاد کے نام پر اپنے مدرسے کے پانچ سو کے قریب طلبا‘ جن کی عمریں پندرہ سے بیس سال کے درمیان تھیں‘ کو افغانستان لے گئے اور بدقسمتی سے ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ واپس نہ آ سکا۔ اب صوفی محمد کو ڈر تھا کہ ان بچوں کے گھر والے ان سے یہ سوال کریں گے کہ اگر ہمارے بچے جہاد میں شہید ہو گئے ہیں تو پانچ سو میں سے اکیلے آپ کیسے زندہ رہے؟ جب یہ بچے جہاد کرتے ہوئے مارے گئے تو اس وقت آپ کہاں تھے؟ اس پوچھ گچھ سے بچنے کیلئے صوفی محمد نے افغانستان سے واپس سوات داخل ہونے سے پہلے نفاذِ شریعت کی تحریک شروع کرنے کیلئے ایک بہت بڑی ریلی کا انتظام کیا جس کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی‘ جس پر انہیں گرفتار کر لیا گیا اور اس طرح وہ اُن بچوں کے والدین اور لواحقین کے سوالات سے بچ گئے۔ صوفی محمد کی اپنے داماد مولوی فضل اﷲ سے سخت ناراضگی تھی جسے راولپنڈی کے ایک نزدیکی مدرسہ سے کسی نامعلوم وجہ سے نکال دیا گیا تھا اور دیر میں مفروری کی زندگی گزار رہا تھا لیکن ایک دن نہ جانے کیا ہوا‘ اس کیلئے کس نے راہ ہموار کی کہ وہ منظر عام پر آ گیا اور آتے ہی اس نے صوفی محمد کے مدرسے پر قبضہ کر لیا۔ یہ ان لوگوں کیلئے بہت حیران کن تھا جو اس کی حرکات سے بخوبی واقف تھے لیکن فضل اﷲ کی دلیری دیدنی تھی۔ شنید ہے کہ دیر میں اس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک غار میں اپنا اڈا بنایا ہوا تھا جہاں بیٹھے وہ مال دار لوگوں سے باقاعدہ بھتہ وصول کرتا تھا۔
سوات کے معزز ین اور باشعور لوگ حیران تھے کہ فضل اﷲ کے پاس ہتھیاروں کا ذخیرہ کہاں سے آگیا؟ ایف ایم ریڈیو کی مشینری کہاں سے آئی‘ ان ریڈیو چینلز کو چلانے کیلئے تربیت یافتہ لوگ کہاں سے آئے؟ ظاہر ہے‘ یہ مدرسوں کے طلباء تو نہیں تھے۔ اس کے علاوہ درجنوں کی تعداد میں بڑی بڑی پاور فل جیپیں اور ڈبل کیبن گاڑیاں بھی دیکھی جانے لگیں۔ اس نے میڈیا سے منسلک مقامی افراد کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا تاکہ وہ ان سے زبردستی اپنی میڈیا کوریج کروا سکے۔ یہ صورتحال سوات کے لوگوں کے لیے بہت پریشان کن تھی۔ پھر جب پاک فوج اس علا قہ میں آپریشن کیلئے داخل ہوئی تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ پاک فوج نے جب سوات میں معصوم عورتوں‘ بچوں اور شریف لوگوں کی حفاظت کیلئے آپریشن شروع کیا تو چند گھنٹوں کی لڑائی میں ہی انہیں علم ہو گیا کہ ان کا واسطہ عام جہادیوں سے نہیں بلکہ انتہائی تربیت یافتہ گوریلا لڑائی کے ماہرین سے ہے۔ سب حیران تھے کہ خطرناک اور انتہائی جدید اسلحہ لیے یہ لوگ کہاں سے آئے؟ ان شدت پسندوں کی وجہ سے سالوں تک سوات کے شہریوں کی زندگی اجیرن بنی رہی اور یہی وہ وجہ تھی کہ جیسے ہی گزتہ برس سوات میں پھر سے دہشت گردوں کے قدم جمانے کی خبریں گردش کرنے لگیں تو اہلِ سوات سرا پا احتجاج بن گئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved