کچھ دن قبل اسلام آباد کے بعض متحرک دوستوں نے رابطہ کیا کہ وہ اسلام آباد میں ایک درسِ قرآن کا پروگرام رکھنا چاہتے ہیں اور اسلام آباد میں قرآن وسنہ موومنٹ کی تنظیم سازی کا آغاز بھی کرنا چاہتے ہیں۔ پروگرام کا انتظام کرنے والے اسلام آباد کے مختلف علاقوں کے مؤثر نوجوان تھے جن میں طیب رشید، عبدالمعین، عبدالمتین، نوید قمر، علی ظہیر حیدری، عثمان انجم ظہیر اور دیگر احباب شامل تھے۔ اسلام آباد کے ساتھیوں کے اصرار کے پیش نظر میں نے اُنہیں 17 جون کو درسِ قرآن کاوقت دیا اور موومنٹ کی تنظیم سازی کے حوالے سے اس موقع پر ایک اجلاس بلانے کا فیصلہ بھی کیا۔ جب میں مقررہ تاریخ پر آئی سیکٹر اسلام آباد میں واقع مسجد دارالسلام پہنچا تو نوجوانوں کی کثیر تعداد کو وہاں موجود پایا۔ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بزرگ بھی بڑی تعداد میں بڑے جذبے اور اشتیاق سے درسِ قرآن سننے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اسلام آباد کی کئی ممتاز علمی شخصیات‘ جن میں ڈاکٹر سمیع اللہ زبیری، مولانا عمر فاروق، ڈاکٹر حافظ طاہر محمود اور شیخ ریاست حسین شاہ شامل ہیں‘ بھی اس موقع پر تشریف فرما تھیں۔ اٹک سے تعلق رکھنے والے ممتاز رہنما حافظ فیصل بلال بھی اس نشست میں موجود تھے۔ اس موقع پر جن معروضات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ اپنے قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں میں سے بہت سی ہستیاں ایسی پیدا کی ہیں جو باقی انسانوں کے مقابلے میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ اُن ممتاز ترین ہستیوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت سرفہرست ہے۔ اس لیے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اُنہوں نے براہِ راست اللہ تبارک وتعالیٰ سے علم حاصل کیا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت میں سے اولوالعزم انبیاء کرام میں حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہﷺ نہایت بلند مقام کے حامل ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس گروہ میں سے نبی کریمﷺ کو سب سے بلند رتبہ عطا کیا اور اُن کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رُتبہ اور مقام سب سے بلند ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ احزاب کی آیت نمبر 21 میں اس بات کو واضح فرما دیا: ''بلاشبہ یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات و حیات) میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ اس آیت مبارک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی ذاتِ گرامی کو ہمارے لیے اسوۂ کامل بنایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس کو اسوۂ کامل بنایا وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ﷺ پر اس وحی کا بھی نزول فرمایا کہ آپ ﷺ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی پیروی کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 123میں اعلان فرماتے ہیں: ''پھر ہم نے وحی کی آپ کی طرف کہ آپ پیروی کریں ابراہیم کی ملت کی جو ایک (اللہ کی) طرف ہوجانے والے تھے اور نہ تھے وہ مشرکوں میں سے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃالممتحنہ میں اس بات کو واضح فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرتِ مبارکہ میں ہمارے لیے رہنمائی کے بہترین لوازمات موجود ہیں۔ سورۃ الممتحنہ کی آیت نمبر 4 میں ارشاد ہوا: ''یقینا تمہار ے لیے ایک اچھا نمونہ ابراہیم (کی ذات و حیات) میں ہے اور جو اُن کے ساتھ تھے‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کو جہاں ہمارے لیے قابلِ تقلید اسوہ قرار دیا گیا وہیں ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت بھی قرار دیا گیا اور ہمارے روحانی والد کی حیثیت سے بھی اُن کے مقام کا تعین کیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سور ۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 95 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پس دینِ ابراہیم کی پیروی کرو جو سب سے بے تعلق ہو کر ایک (خدا) کے ہو رہے‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس لیے ایک مثال قرار دیا کہ آپ علیہ السلام نے اپنے کردار وعمل سے اس بات کو ثابت کیا اور غیر اللہ کے خوف کو اپنے دل میں کبھی بھی جگہ نہیں دی اور نہ ہی کبھی کسی غیر کی محبت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت پر غالب آنے دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت وکردار کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ علیہ السلام نے جوانی ہی میں بت کدے میں جا کر وہاں پر موجود تمام بتوں کو توڑ ڈالا تھا اور جب آپ سے اس حوالے سے استفسار کیا گیا تو آپ علیہ السلام نے بتوں کی بے بسی اور بے وقعتی کو واضح کیا۔ اُس موقع پر بستی کے لوگوں نے آپ سے جو سوال کیے ان کاجواب آپ علیہ السلام نے نہایت مؤثر انداز میں دیا جس پر بستی کے لوگ مشتعل ہو گئے اور یہ بات کہی... سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 68 میں ارشاد ہوا: '' انہوں نے (بستی کے لوگوں نے )کہا: تم جلا دو اسے (ابراہیم علیہ السلام کو) اور مدد کرو تم اپنے معبودوں کی‘ اگر ہو تم (کچھ ) کرنے والے‘‘۔ جب آپ کو جلتی ہوئی چتا میں اُتارنے کا مرحلہ آیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو اپنے لیے کافی قرار دیا اور اُسی کے کارساز ہونے کا اعلان کیا۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسان کی بلندیوں سے ایک اعلان فرمایا اور اس کو سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 69 میں کچھ یوں بیان کیا: ''ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہو جا! اور سلامتی (والی) ابراہیم پر‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دربارِ نمرود میں بھی پیغامِ توحید کو اجاگر کیا، جب آپ علیہ السلام دربارِ نمرود میں داخل ہوئے تو نمرود نے آپ علیہ السلام کے سامنے اپنے پروردگارہونے کا اعلان کیا۔ اُس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کو لاجوا ب کر دیا۔ اس واقعے کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 258 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''کیا آپ نے دیکھا نہیں اُس کی طرف جس نے جھگڑا کیا اورابراہیم سے اُس کے رب کے بارے میں کہ اللہ نے دے رکھی ہے اُسے حکومت‘ جب کہا ابراہیم نے: میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے‘ وہ کہنے لگا: میں (بھی) زندہ کر سکتا ہوں اور مار سکتاہوں۔ ابراہیم نے کہا: پس بے شک اللہ لاتا ہے سورج کو مشرق سے، تو تُولے اس کو مغرب سے‘ تو ہکا بکا رہ گیا وہ‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں رعب اور دبدبے کے مقابلے میں صدائے توحید کو بلند کیا وہاں آپ علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر محبتوں کی بھی قربانی دی۔ آپ علیہ السلام نے سیدہ ہاجرہ کو اپنے ننھے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا۔اُس مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے چاہِ زم زم کو جاری کر دیا اور لوگوں کے دلوں کو آپ علیہ السلام کی طرف مائل فرما دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اہلِ خانہ کی خبر گیری کے لیے وقفے وقفے سے مکہ مکرمہ میں تشریف لاتے رہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب حضرت اسماعیل علیہ السلام دوڑدھوپ کے قابل ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک خواب دکھلایا جس میں آپ علیہ السلام کو اس بات کا حکم دیا گیا کہ آپ علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلا دیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس بات کو اپنے بیٹے کے سامنے رکھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس خوبصورت اور عظیم واقعے کو سورۃ الصافات کی آیات 102 تا 107 میں کچھ یوں بیان فرمایا: ''پھر جب وہ پہنچا اس کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو‘ اس نے کہا: اے میرے بیٹے! بے شک میں دیکھتاہوں خواب میں کہ بے شک میں ذبح کر رہا ہوں تجھے‘ پس تو دیکھ تو کیا خیال کرتا ہے۔ اس نے کہا: اے میرے اباجان! آپ کر گزریے جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے‘ آپ عنقریب ضرور پائیں گے مجھے اگر اللہ نے چاہا تو صبر کرنے والوں میں سے۔ پھر جب وہ دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے لٹا دیا اسے پیشانی کے بل۔ اور ہم نے پکارا اسے کہ ابراہیم! یقینا تو نے سچ کر دکھایا (اپنا) خواب‘ بے شک ہم اُسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو۔ بے شک یہ کھلی آزمائش ہے۔اور ہم نے بدلے میں دیا اس (اسماعیل) کے ایک عظیم ذبیحہ‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ قربانی تاریخ انسانیت کے لیے ایک مثال بن گئی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں انسانوں کو جانوروں کے گلے پر چھری چلانے کا حکم دیا وہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اداؤں کو بھی اپنے دل میں جگہ دینے کا حکم دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الحج کی آیت نمبر 37 میں اعلان فرماتے ہیں: ''ہرگز نہیں پہنچتے اللہ کو ان (قربانیوں) کے گوشت اور نہ ان کے خون اور لیکن پہنچتا ہے اس کو تقویٰ تمہاری طرف سے‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظمت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے اور جملہ عبادات کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے وقف کر دیا اور کائنات کے لوگوں کو جو منشور دیا اس منشور کا اعلان کرنے کا اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت رسول اللہﷺ کو بھی حکم دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الانعام کی آیت نمبر 162میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) اللہ کے لیے ہے (جو) رب ہے تمام جہانوں کا‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اہلِ ایمان کے لیے جو ترکہ چھوڑا ‘اس کو اگر شاعر کی زبان میں بیان کیا جائے تو کچھ یوں بنتا :
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں‘ میں اسی لیے نمازی
حضرت ابراہیم علیہ السلام بلاشبہ ایک جلیل القدر شخصیت ہیں جن کی اتباع کرکے یقینا ہم صراطِ مستقیم پر چل سکتے ہیں، ان معروضات کو اس موقع پر موجود حاضرین نے انتہائی توجہ کے ساتھ سنا۔بعد ازاں اسلام آباد اور راولپنڈی میں قرآن وسنہ موومنٹ کے نظم کا باقاعدہ طور پر اعلان کیا گیا اور مہمانوں اور کارکنان کے لیے پُرتکلف ضیافت کا اہتمام بھی کیا گیا۔ یوں یہ درس اور قرآن وسنہ موومنٹ کی تشکیل کی تقریب بہت سی خوشگوار یادوں کو اپنے جلو میں لیے ہوئے اختتام پذیر ہوئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved