ہم نے یہ فرض کرلیا ہے کہ دنیا بھرکے مسائل نے صرف ہمارے ملک کا منہ دیکھ لیا ہے۔ ایسا نہیں ہے اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ سب کو اپنے حصے کے دُکھ ملتے ہیں۔ ہمیں بھی ملے ہیں اور ملتے رہیں گے۔ قدرت کی طرف سے کسی کو کسی جواز کے بغیر کچھ دیا یا اُس سے لیا نہیں جاتا۔ اگر کسی کو سُکھ ملتا ہے تو اُس کے اپنے افکار و اعمال کے نتیجے میں اور دُکھ ملتا ہے تو وہ بھی اُس کے اپنے افکار و اعمال ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اِس حقیقت کا انکار تو بصیرت و بصارت سے محروم افراد ہی کرسکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بتدریج بگڑتا گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خرابیوں نے ایسی شکل اختیار کی ہے کہ دیکھ کر دل میں ہَول اٹھتے ہیں۔ کسی زمانے میں افلاس تھا، تنگ دستی تھی اور مکمل محرومی کی حالت بھی تھی مگر لوگوں کی اخلاقی بنیاد اِتنی مضبوط تھی کہ کوئی بھی غلط کام کرتے وقت دل و دماغ پر اچھا خاصا بوجھ محسوس ہوتا تھا۔ ضمیر کچھ بھی ایسا ویسا آسانی سے کرنے نہیں دیتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ لوگ اپنے افکار و اعمال کو درست رکھنے کے معاملے میں لاپروا ہوتے چلے گئے۔ یوں معاشرے کی خرابیاں بڑھتی چلی گئیں۔ اور اب ہمیں یقین ہی نہیں آتا کہ یہ خرابیاں کبھی دور ہوسکیں گی۔
آج کا ہمارا معاشرہ طرح طرح کی خرابیوں سے اَٹا ہوا ہے۔ قدم قدم پر الجھنیں ہیں۔ مسائل ہیں کہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جاتے ہیں۔ ہر شعبے میں مشکلات اِتنی ہیں کہ کبھی کبھی تو ذہن سمجھنے اور سوچنے سے صاف انکار کردیتا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر کچھ درست کرنا مقصود ہو تو ابتدا کہاں سے اور کس طرح کی جائے۔ جب کسی معاشرے میں خرابیاں بہت بڑھ جاتی ہیں تب ناگزیر ہو جاتا ہے کہ تدارک کے بارے میں سوچا جائے، اصلاح کی فکر لاحق ہو۔ ہمارے ہاں بھی وہ وقت آچکا ہے جب سبھی کو اصلاحِ احوال کے بارے میں سوچنا ہے۔ اس سے بہت پہلے اصلاحِ نفس پر متوجہ ہونا ہے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے معاملات کا قبلہ درست کریں، افکار و اعمال کی درستی کے بارے میں سوچیں، سنجیدہ ہوں، حقیقی اخلاقی و تہذیبی اقدار پر غور کریں اور ایک بار پھر اُنہیں حرزِ جاں بنانے کے حوالے سے متفکر ہوں۔ یہ کام اساتذہ اور خاندان کے بزرگوں کا ہے کہ نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کریں۔ یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ جن بڑوں سے راہ نمائی کی توقع کی جانی چاہیے وہی بھٹکے ہوئے ہیں۔ اساتذہ کو معاشرے کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتا ہوتا ہے مگر وہ تو صرف کھانے‘ کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ الّا ماشاء اللہ اُن کے ذہن میں صرف ایک بات بسی ہوئی ہے ‘زیادہ سے زیادہ مال کس طور بٹورا جائے۔ یہی حال اکثر تجزیہ کاروں، تجزیہ نگاروں اور دیگر لکھاریوں کا ہے۔ اُنہیں راہ دکھانی ہے مگر وہ خود راہ پر نہیں ہیں۔ گھر اور خاندان کے بزرگ کس لیے ہوتے ہیں؟ بُرائیوں سے بچانے اور سیدھی راہ دکھانے کے لیے مگر ہمارے ہاں تو ایسا لگتا ہے کہ بزرگوں نے بھی اپنے اس فریضے کے معاملے میں ''سنیاس‘‘ لے لیا ہے۔ اُنہیں بظاہر ماحول سے کچھ غرض نہیں۔ بڑی عمر کے بیشتر افراد کا یہ حال ہے کہ جدید ترین گیجیٹس کی مدد سے اپنا وقت تفریحِ طبع میں کھپاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ستر سال سے زیادہ عمرکے بزرگ بھی سمارٹ فون استعمال کرنے کی لَت میں مبتلا پائے گئے ہیں! بہت سے بزرگ تو یہ شکوہ کرتے پائے گئے ہیں کہ ٹیکنالوجیز میں ایسی شاندار پیش رفت اُس وقت ممکن ہوئی ہے جب وہ دنیا سے رختِ سفر باندھنے کی منزل میں آچکے ہیں! جو بزرگ ایسا کہتے نہیں وہ اپنی طرزِ عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ اُنہیں ایسی شاندار ٹیکنالوجیکل ترقی کے اِتنی دیر سے آنے کا سخت افسوس ہے۔
کسی بھی گھر کے بچے جب کسی معاملے میں خرابی کو دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے والدین کی طرف دیکھتے ہیں۔ اُنہیں اس بات کا یقین سا ہوتا ہے کہ اُن کے کسی بھی مسئلے کا معقول حل کسی اور کے پاس ہو نہ ہو‘ والدین کے پاس ضرور ہوگا۔ بچے خاص طور پر والد کو ہیرو یا سپرمین سمجھتے ہیں اور اُنہیں یہ توقع رہتی ہے کہ اُن کی ہر مشکل اگر دور ہوگی تو ''بابا‘‘ یعنی ابا کے ہاتھوں۔ جب بچوں کی توقعات کا یہ عالم ہو تو والدین کو معاملے کی حساسیت کا احساس ہونا چاہیے۔ والد کو خصوصی طور پر الرٹ رہنا چاہیے۔ اُس کی طرزِ فکر و عمل سے بچوں کو کسی بھی معاملے میں کوئی غلط اشارہ نہیں ملنا چاہیے۔ تو کیا ایسا ہے؟ بہت افسوس کے ساتھ ماننا پڑے گا کہ ایسا نہیں ہے۔ والدین اپنی اِس بنیادی ذمہ داری سے یکسر بے نیاز و لاتعلق ہیں۔
جب بھی کسی معاشرے میں خرابیاں بڑھتی ہیں تو بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ اس حقیقت پر کوئی بھی غور نہیں کرتا کہ خرابیاں سب کی پیدا کردہ ہیں یعنی سب کے افکار و اعمال کا مشترکہ نتیجہ ہیں۔ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ خرابیوں میں اُس کا کوئی کردار نہیں۔ پھر بھی سب گھبرا اٹھتے ہیں، مسائل سے چشم پوشی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ اِسی کے نتیجے میں گریز کی راہ بھی دکھائی دیتی ہے۔ مسائل کو مزید پیچیدہ بنانے کا ایک اچھا طریقہ ہے اُن کا حل تلاش کرنے سے گریز۔ جب ہم کسی بھی مسئلے کو نظر انداز کرتے ہیں یا اُس سے نظر چراتے ہیں تب وہ زیادہ پیچیدہ ہوکر ہمارے سامنے آتا ہے۔ لوگ زندگی بھر اِس کیفیت کا سامنا کرتے رہتے ہیں مگر اپنی طرزِ فکر و عمل درست کرنے کے بارے میں سنجیدگی اختیار نہیں کرتے۔
آج کا ہمارا معاشرہ بہت عجیب موڑ پر کھڑا ہے۔ جو کچھ ہمارے ہاں دکھائی دے رہا ہے یعنی جن خرابیوں نے ہمیں جکڑ رکھا ہے ویسی ہی بلکہ اِس سے کہیں زیادہ خرابیاں دوسرے بہت سے معاشروں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ ہر معاشرے کو اپنے حصے کے دُکھ ملتے ہیں۔ مادّی اعتبار سے قابلِ رشک حد تک ترقی یافتہ ممالک کے عام آدمی سے بات کیجیے تو وہ بھی چند ایک مسائل کا رونا روتا ہوا ملے گا۔ ہاں‘ وہ مسائل ہوں گے بالکل مختلف نوعیت کے ۔ بنیادی سہولتوں کا معاملہ ترقی یافتہ دنیا میں طے ہوچکا ہے۔ لوگ تعلیم و صحتِ عامہ کے معاملے میں قابلِ رشک مقام پر ہیں۔ اور بھی بہت کچھ ہے جو اُن کی زندگی کا حصہ ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُن کے تمام مسائل حل ہوچکے ہیں اور اب اُنہیں کسی بھی حوالے سے کسی بڑی پیچیدگی کا سامنا نہیں۔ ہم نے یہ فرض کرلیا ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں زندگی دُکھوں اور الجھنوں سے مکمل طور پر پاک ہے اور یہ کہ وہاں گزاری جانے والی زندگی ہی حقیقی معنوں میں جامع ترین زندگی ہے۔ یہ محض خام خیالی ہے۔ ہر معاشرے کی چند مخصوص پیچیدگیاں ہوتی ہیں جنہیں دور کیے بغیر وہ معاشرہ جامع نہیں کہلا سکتا۔ انسان فطرتاً ایسا واقع ہوا ہے کہ اپنی ہر مصیبت کو دنیا کی سب سے بڑی مصیبت سمجھتا ہے اور دوسروں کو دیکھ کر سوچتا رہتا ہے کہ وہ بہت مزے میں جی رہے ہیں، ساری پریشانیوں نے بس میرے گھر کا رستہ دیکھ لیا ہے۔
ڈھنگ سے جینے کے سو طریقے ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہر طریقہ ہم سے فکر و نظر کی گہرائی و گیرائی کا متقاضی رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنی خرابیوں سے جان چھڑانے کے بارے میں محض سوچیں اور جان چھوٹ جائے۔ معاشرے میں عمومی سطح پر پائی جانے والی انتہائی درجے کی خرابیاں ہمیں اُس مقام کی طرف دھکیلتی ہیں جہاں ذہن سے کام لینے کے بارے میں سوچا نہ جائے۔ کسی بھی پریشان کن صورتِ حال کا انتہائی بنیادی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اُس کے تدارک کے بارے میں سوچا جائے اور ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جو کرنا ہے وہی نہیں کرتے یعنی شدید بے ذہنی کی حالت میں رہتے ہوئے خالص بے دلی کو بھی گلے لگاتے رہتے ہیں۔
نئی نسل کو یہ بات ذہن میں گِرہ کی صورت رکھ لینی چاہیے کہ کسی بھی پریشان کن معاملے کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے یعنی ذہن کو بروئے کار لانے سے گریز کی راہ پر گامزن نہیں ہونا اور فکر و عمل سے کام لیتے رہنے کی روش پر چلتے رہنا ہے۔ بس اِتنا دھیان رہے کہ ذہن ''چالو‘‘ حالت میں رہنا چاہیے۔ یہ چلتا رہے گا تو کچھ بھی نہیں رُکے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved