ہفتہ 21ستمبر کی شام جب وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی تقریر میںچند رعایتوں کا اعلان کررہے تھے ،شاید اس وقت دہشت گرد پشاور کے کوہاٹی بازار کے گرجا گھر کو تباہ کرنے اور عیسائیوں کا لہو بہانے کی تیاریوں میںمصروف ہونگے۔ عیسائیوں پر ایک اور حملہ ، ایک اوربربادی اور خونریزی …یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ کبھی رکے گا بھی یا نہیں؟ عیسائیوں سمیت دوسری مذہبی اقلیتوں کے خلاف دہشت گردی کو کون روکے گا؟ لیکن یہ ظلم ان کئی بربادیوں اور درندگیوں میںسے ایک ہے جو اس بدقسمت اور المناک معاشرے میں آگ اور خون کا کہرام مچارہی ہیں۔ کہیں معصوم بچیوں سے زیادتی ہوتی ہے اور کہیں عورتوںکے وجود کو ہی قدامت پرست سماجی قدروں اور نام نہاد اخلاقیات کی زنجیروں میں جکڑکر رکھ دیا گیا ہے ۔ بعض انتہا پسند گروپوں نے مذہب کے نام پر رجعتیت مسلط کرکے اس ملک کے قوا نین اور ریاستی اداروں کو اپنی جکڑ میں لے کر انسانوں کی زندگی کے ہر نجی معاملے کو اپنی تنگ نظر اور پست ذہنیت کے مطابق استوار کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ اِدھرمذہبی اقلیتوں اور خواتین کے خلاف یہ مجرمانہ جبر روا رکھا گیا ہے تو اُدھرمظلوم قومیتوں خصوصاً بلوچستان میں ریاستی جبر اور مذہبی خونریزی جاری ہے اوراس کے مظالم کی ایک اور درد ناک داستان ہے۔لیکن یہ بربادیوں کا سلسلہ اور آگے بڑھتا ہے‘ ایک طرف سامراجی ڈرون حملوں کی یلغار سے معصوموں کی جانیں جارہی ہیں تو دوسری جانب طالبان کی دہشت گردی نے اس سماج کے باسی ہونے کو ایک اذیت ناک عذاب بنا کر رکھ دیا ہے ۔ پھر اس ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے جہاں کئی دہائیوں سے قتل وغارت گری ایک سماجی معمول بن کر رہ گئی ہے ۔ ملک کے طول وعرض میں بھتہ خوری ‘بدعنوانی ‘منشیات کا کاروبار‘اغوا برائے تاوان‘ ڈاکے اور راہ زنی اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی سب سے بڑے کاروبار بن چکے ہیں۔ پاکستان کی دوتہائی معیشت اس کالے دھن پر مبنی ہے ۔ اس کالی معیشت پر ’’سفید ‘‘ سیاست‘ پاکیزہ اخلاقیات ‘ نیکی کی اقدار اورمذہبی ثقافت استوار کرنے کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے، جس سے درحقیقت اس ملک کی سیاست ‘ثقافت ‘صحافت اور سماجی زندگی جھوٹ‘فریب ،دھوکہ دہی‘ منافقت‘ غیبت‘جرم اور ظلم کی دلدل میں غرق ہوچکے ہیں۔ سچائی ایک بے وقوفی سمجھی جانے لگی ہے اور چالاکی اوردھوکہ دہی سیاست اور ثقافت کا ایک قابل رشک فن بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک طرف مذہبی پارٹیاں‘ ادارے ‘ فرقے اور اشرافیہ ہے جو اس سماج کو ماضی بعید کی تاریکیوں میں ڈبو دیناچاہتی ہے۔ جہاں وہ روشن خیالی اور ترقی پسندی کو کچل دینا چاہتے ہیں وہاں وہ آپس میں بھی برسرِپیکار ہیں ۔ ان کی آپس کی لڑائیاں اتنی نظریات اور انکی تشریح کی بنیاد پر نہیں ہیںجتنی ان مالی مفادات پر مبنی ہیںجو وہ فرقہ وارانہ منافرتیں پھیلا کر حاصل کرتے ہے۔ انہی تعصبات کا پھیلائو اور ٹکرائو ان کی کالی دولت کے ذخائر میں اضافوں کا باعث اور اعلیٰ جائیدادوں کی ملکیت کا ذریعہ ہیں۔ لیکن جوں جوں یہ تعصبات توہمات میں بدل کر وحشت اور جنون کی شکل اختیار کرتے ہیں توں توںانسانی لہو مزید شدت سے بہایا جاتا ہے۔ ایک طالبان لیڈر کو رہا کریں گے تو دوسرا گروہ پشاور میں گرجا گھر کو اڑا دے گا۔ ایک گروہ کی قیادت سے مذاکرات کریں گے تو دوسرا گروہ اس سے بڑی دہشت گردی کرے گا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی پختونخواحکومت نے مذاکرات کا اتنا واویلا کرکے غریبوں کے ساتھ کیا کروادیا۔حکمران کن طالبان سے مذکرات کرنا چاہتے ہیں؟ ان سے مذاکرات کس ایجنڈے پر ہونگے ؟ کن نکات پر بحث کے بعد کسی نتیجے ‘ کسی فیصلے پر پہنچاجاسکتا ہے؟ اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ۔ شرائط کا کسی کو کچھ پتہ نہیں ‘ بس مذاکرات کا شور ہے۔ مذاکرات کے بارے میں ’’مذاکرات ‘‘ہندوستان کے ساتھ گزشتہ 66برسوں سے چل رہے ہیں۔ شاید اسی طرح کے مذاکرات کے بارے میں بات چیت طالبان سے بھی جاری ہے، لیکن ان اسلامی بنیاد پرستوں میں وفاداریاں تیزی سے بدلتی ہیں ۔ دوسری جانب مغرب زدہ لبرل سیکولراور سول سوسائٹی کے رجحانات سرمایہ دارانہ سیاست ‘معیشت اور اقتصادیا ت کے ذریعے ترقی کرنے کے یوٹوپیاپر کارفرما ہیں۔وہ یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی سرمایہ دارانہ نظام کے گلے سڑے ہونے کی غمازی کرتے ہیں۔ پھر جس سامراج اور ریاست نے کمیونزم کوروکنے کے لیے جو کچھ تخلیق کیا تھا وہ انہی کے لیے وبالِ جان بن چکا ہے ۔اب نہ وہ ان سے ناطے توڑ سکتے ہیں اور نہ ہی فوجی طور پران کو کچلنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ آخر پسماندہ طالبان کے پاس کون سا جنگی ہنر ہے کہ تاریخ کا سب سے طاقتور سامراج ان کو کچلنے میں ناکام ہے، بلکہ شکست وریخت کا شکا ر ہوا ہے۔ کیا ایسا ہونا کسی’’اور‘‘ ریاست یا ریاستوں کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر ممکن ہے؟ پشاورکے گرجا گھر میں ہونے والے خود کش حملے پر آخر کچھ تو اخراجات آئے ہونگے ۔ وہ رقم کس نے کیوں ادا کی ہوگی؟ ملک کے طول وعرض میں جاری شدت اختیار کرتی ہوئی اس دہشت گردی کی سیاسی معاشیات آخر کیا ہے؟ اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری آخرکون کررہا ہے؟ان قوتوں کے کیا مفادات ہیں؟ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی اس ریاست معیشت ‘ صحافت اور اخلاقیات میں اجازت نہیں!سب جانتے ہیں لیکن حکمرانوں کا ہر دھڑا اور ان کے حواری دانشور اپنے گریبانوں میں جھانکنے کو تیار نہیں۔ا پنی اصلیت اور رجعتی کردار کو چھپائے بیٹھے ہیں۔ بڑے سے بڑاجرم اور بدترین مجرم اس نظام کی آغوش میں تحفظ حاصل کیے ہوئے ہے۔ حکمران بدلتے رہتے ہیں حالات نہیں بدلتے بلکہ بد سے بد تر ہوتے چلے جاتے ہیں ، لیکن مذہبی اقلیتوںپر ظلم وتشدد‘ خواتین سے زیادتی اور ان کے سماجی عذابوں ‘مظلوم قومیتوں پر تشدد… ان تمام دھاروں کے تانے بانے کسی ایک نقطہ پر آکر ملتے ہیں، ان کو الگ الگ کرکے ان کے بارے میں رائے عامہ تو ہموار کی جاسکتی ہے لیکن ان مظالم سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ خواتین ہوں یا مذہبی اقلیتیں یا پھر مظلوم قومیتیں ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا شکار ہونے والے تقریباً سب کے سب غریب محنت کش طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح ان مختلف اقسام کے جبر اور استحصال کے خلاف جدوجہد کو مشترک اور متحد کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس لڑائی کو ایک طبقاتی جنگ سے جوڑا جائے۔ جب ایک نظام تاریخی متروکیت اور اقتصادی بربادی کا شکار ہوچکا ہو تو ناگزیر طورپراس نظام پر مبنی سماج انتشار‘ خونریزی ‘ قتل وغارت‘ مہنگائی ‘ غربت ‘ بیماری اور ذلت کا شکار ہوگا۔ اس ملک میں اتنا کچھ ہورہا ہے ‘ اتنا شور اور بربادیاں ہیں اور اسکے باوجود کوئی حکمران پارٹی‘ نظریہ اور لائحہ عمل اس میں بہتری نہیں لا رہا۔ہر طرف ‘ ہر دن بری سے بری خبر آنا ہی یہاں کا معمول بن کر رہ گیا ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا: منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ لیکن اب تو معاشی جمود سے اس سماج کے ارتقا کا سفرہی رک گیا ہے۔اگر ہم غور سے دیکھیں تو اس نظام کا بحران اس معاشرے کو بربریت کی اندوہناک کھائی میں دھکیل رہا ہے ۔ مسئلہ صرف حکومتوں ‘ ریاستوں اور نظام کا نہیں ہے، اس وقت یہاں انسانی تہذیب اور معاشرے کے وجود کا خطرہ ہے۔ اس نظام کو اکھاڑے بغیر اب انسانی زندگی اور سماج کی بقا ہی ممکن نہیں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved