لوگ سوچتے ہیں کہ 9مئی کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا لیکن 'یوم سیاہ‘ کے افق سے ''یوم حساب‘‘ کیوں طلوع نہیں ہورہا ؟ کونوں کھدروں میں دبکے غم گسارانِ 9 مئی بھی ہولے ہولے ہُنرِ دشنام کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ جھوٹ کی دکانوں کے پھاٹک آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگے ہیں۔ ''پریس کانفرنسیں‘‘ تھم سی گئی ہیں اور نئے سیاسی حجروں کی چہل پہل میں کمی آ رہی ہے۔ پُرسکوں سطحِ آب سے فریب کھا کر لنگر اٹھانے اور بادبان کھولنے کی تیاریاں کرنیوالوں کو اندازہ نہیں کہ سمندر کس نوع کا ''تہیۂ طوفان‘‘ کیے ہوئے ہے۔ میں بتا چکا ہوں کہ 9 مئی کی بغاوت کے تمام کردار‘ منصوبہ ساز اور سہولت کار پہچانے جاچکے ہیں۔ سازش کی ساری کڑیاں جُڑ چکی ہیں۔ فارمیشن کمانڈرز کا اعلامیہ محض ایک جھلک تھی۔ بڑی پریس کانفرنس کی نوک پلک سنواری جارہی ہے جو اب زیادہ دور کی بات نہیں۔
9 مئی کے ارتعاشِ مابعد کے باوجود‘ قومی تاریخ کے شدید ترین معاشی بحران سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں۔ ہم فنی طورپر دیوالیہ ہوئے یا نہیں لیکن عملاً صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔ جب کوئی کرایہ دار‘ مالک مکان کے سامنے سرجھکا کر دست بستہ کھڑا ہوجاتا اور التجا کرتا ہے کہ ''میں کرایہ ادا کرنے کے لائق نہیں ہوں‘ مہربانی فرما کر دومہینے کے بعد اکٹھے لے لینا‘‘ تویہ نادہندگی ''دیوالیہ پن‘‘ ہی کا دوسرا نام ہے۔ اقتصادی امور کا گہرا‘ وسیع اور طویل تجربہ رکھنے والے سینیٹر اسحاق ڈار پہ کتنے ہی تازیانے برسا لیے جائیں‘ اُن کے اخلاصِ نیت اور اَن تھک محنت ہی کے باعث اب تک‘ کسی نہ کسی طور‘ بات بنی ہوئی ہے‘ لیکن ہمارا ناتواں بحری جہاز تیزی سے ''برموداتکون‘‘ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ یہ کس کے دست ِ بے ہُنر کا معجزہ ہے ؟ اب قوم اس سازش کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو بھی اچھی طرح جان چکی ہے۔ آسان فہمی کیلئے اس سازش کو ''پراجیکٹ عمران خان‘‘ کانام دیا جاتا ہے۔ سازشیوں اور سہولت کاروں کی نیت یا جاگتی آنکھوں میں سجے خوابوں سے قطعِ نظر‘ یہ پاکستان کی ہمہ گیر غارت گری اور ناقابلِ تصور اقتصادی تباہی کے حوالے سے ‘ پاکستان کو شدید نقصان پہنچانے اور بے بال وپر کردینے والی سب سے بڑی سازش تھی۔ ایسی سازش جو صرف پاکستان کے کسی دشمن کی کارگہ فکر میں جنم لے سکتی ہے۔ ایک ناپختہ کار ''طفلِ خود معاملہ‘‘ کے عشق میں‘ نوازشریف کو سب سے بڑے دشمن کا درجہ دے کر سرکوبی کرنے میں کم وبیش آٹھ سال لگ گئے۔ جنرل پاشا‘ ظہیرالاسلام و دیگران فوج کی عزت اور وقار کو 'پراجیکٹ عمران خان‘ کی بھٹّی میں جھونکتے قدم قدم آگے بڑھتے رہے۔ جنرل کیانی ہم آہنگ نہ تھے تو بھی منصوبہ سازوں کو نکیل نہ ڈالی البتہ 2013ء کے انتخابات میں نقب نہ لگانے دی۔ راحیل شریف کی ساری ترجیحات اور ادارہ جاتی مفادات صرف اپنی مدتِ ملازت میں توسیع کے مقصد ِبلند سے جڑے تھے۔ وہ اسی ہدف کیلئے پراجیکٹ کی سرپرستی کرتے رہے۔ خلافِ توقع جنرل قمر جاوید باجوہ تن من دھن سے اس منصوبے کے پراجیکٹ ڈائیریکٹر بن گئے اور نہایت تیزی کے ساتھ اسے آگے بڑھایا۔ میری جنرل باجوہ سے اچھی جان پہچان تھی اور میں نے اُن کی تقرری میں مقدور بھر کردار بھی ادا کیا تھا۔ مجھے ہرگز توقع نہ تھی کہ جمہوریت اور آئین سے گہری وابستگی کا دعویٰ کرنیوالے باجوہ صاحب بھاری اکثریت کے حامل ایک منتخب وزیراعظم کے ساتھ ایسا سلوک کریں گے۔ مدتوں عمران دوستی اور نوازدشمنی کو جنرل فیض حمید کے کھاتے میں ڈالا جاتا رہا لیکن اب یہ بات راز نہیں رہی کہ ''سینۂ شمشیر سے باہر 'تھا‘ دم شمیر کا۔‘‘ نوازشریف کو بھی کسی طرح جنرل باجوہ سے اس ''حُسن سلوک‘‘ کی توقع نہ تھی۔ آج بھی بات چلتی ہے تو انہیں سب سے زیادہ رنج‘ جنرل باجوہ کے طرزِ عمل ہی کا ہوتا ہے۔
پاکستان کیلئے نہایت بھیانک نتائج لانے والے 'پراجیکٹ عمران خان‘ کے منصوبہ سازوں نے کسی موڑ پر نہ سوچا کہ ہم کتنا بڑا جوا کھیل رہے ہیں۔ اُن کے پاس اس مکروہ مہم جوئی کی کوئی ٹھوس وجہ بھی نہ تھی۔ بس من موج تھی یا اہل وعیال کی تمنا ئے بے تاب۔ انہوں نے یہ دیکھنے کی زحمت گوارا ہی نہ کی نوازشریف کو 2013ء میں کیسا پاکستان ملا تھا اور وہ تمام تر سازشوں‘ جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے باوجود کس استقامت کے ساتھ پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکال رہا ہے۔ انہیں بالکل دکھائی نہ دیا کہ معیشت کی شرح نمو چھ فیصد سے اوپر جارہی تھی جسے 2018ء کے بعد آٹھ فیصد کو چھونا تھا۔ وہ نہ دیکھ سکے کہ افراطِ زر کی مجموعی شرح چار فیصد اور کھانے پینے کی اشیا کی افراطِ زر یعنی مہنگائی کی شرح صرف دو فیصد ہے۔ انہیں کوئی خبر نہ تھی کہ پاکستان کی سٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں پہلے اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر آگئی ہے۔ انہیں کسی نے نہ بتایا تھا کہ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان 2030ء میں دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شمار ہونے جارہا ہے۔ انہیں کچھ اندازہ نہ تھا کہ پاکستانی روپیہ‘ ڈالر کے مقابلے میں مضبوط قدموں پر کھڑا ہے۔ وہ سی پیک کی شکل میں 20 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری بھی نہ دیکھ پائے۔ انہیں اس انقلاب کی خبر بھی نہ ہوئی کہ 2013ء میں لوڈ شیڈنگ میں ڈوبے پاکستان میں روشنیاں واپس آگئی ہیں اور نیشنل گرڈ میں تقریباً 12ہزار میگا واٹ بجلی کا اضافہ ہوگیا ہے۔ انہیں بالکل علم نہ ہوسکا کہ ایک مرحلے پر پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر سے آگے نکل گئے تھے‘ اُنہیں اندھے عشق میں یہ بھی دکھائی نہ دیا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار وفاقی ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ وہ اس بڑی خبر سے بھی بے بہرہ رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف پروگرام کامیابی کیساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور نوازشریف نے کہا ''بائے بائے 'آئی ایم ایف‘آئندہ ہمیں آپ کی ضرورت نہیں پڑے گی‘‘۔ انہیں بین الاقوامی معیار کی موٹرویز‘ شاہراہیں‘ روزگار کے مواقع‘ توانا خارجہ پالیسی‘ پُرامید تاجر‘ حوصلہ مند صنعتکار‘ مطمئن کاشتکار‘ کچھ دکھائی نہ دیا۔ انہیں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نوازشریف کی کامیاب کوششیں بھی نظر نہ آئیں۔ نیلم پری‘ کے عشق میں ہلکان ٹولے نے نوازشریف کی مُشکیں کسیں‘ جھوٹے مقدمات بنائے‘ ججوں کے لبادے میں چھپے سہولت کاروں کے ذریعے ہانکا لگایا‘ نوازشریف کو گھر بھیجا‘ 2018ء میں تاریخ کی سب سے بڑی انتخابی دھاندلی کی اور چار سال تک گز گز بھر لمبے نوکیلے کانٹوں والی فصل کو اپنے مقدس ادارے کا لہو پلاتے رہے۔ معاشی برمودا تکون تک آپہنچنے والا پاکستان‘ سنہری گوٹے کناری والی سیاہ ریشمی عبائوں میں لپٹے اُن منصفانِ کرام کو بھی کیسے بھول سکتا ہے جنہوں نے اپنے حلف سے روگردانی کی‘ اپنا ضابطۂ اخلاق پامال کیا اور بغض وعناد میں لتھڑے ایسے متعّفن نوشتے رقم کیے جن سے آج بھی گھِن آرہی ہے۔ ثاقب نثار‘ آصف سعید کھوسہ وغیرہ نے پراجیکٹ عمران خان میں جو کردار ادا کیا‘ اُسے کیسے بھلایا جاسکے گا؟ مانا کہ وردی پوش اور عبا پوش‘ سابق ہوکر بھی حاضروموجود ہی رہتے ہیں اور کوئی قانون انہیں میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا لیکن کیا وہ سب سے بڑے قادر وعادل کی گرفت سے بھی بچ جائیں گے؟
اگر آج کا پاکستان اُسی 'آئی ایم ایف‘ کی دہلیز پر ماتھا ٹیکے منتیں کررہا ہے جسے نوازشریف نے بائی بائی کہہ دیا تھا‘ اگر 2017ء میں دنیا کی 34ویں معیشت 2022ء میں‘ سو فیصد نیچے گر کر47ویں نمبر پر آگئی ‘ اگر نواز شریف دور میں چار فیصد سے اوپر نہ جانے والی مہنگائی 35فیصد پر آگئی ہے اور اگر آج پاکستان گہری دلدلی پاتال سے نکلنے کے جتن کررہا ہے تو لامحالہ نگاہیں پراجیکٹ عمران خان کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کی طرف اُٹھ ہی جاتی ہیں۔ 9 مئی کا یوم سیاہ بھی اسی سیاہ کاری کا ثمر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved