بھوک‘ افلا س اور بے روزگاری سے تنگ آئے لوگ اگر ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں اور فرشتۂ اجل ان کو راستے میں اچک لے تو اس ناگہانی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر یہ ملک‘ اسلامی جمہوریہ ہے تو اس سوال کا سادہ جواب ہے: حکمران۔
ریاست کا مذہب ہوتا ہے یا نہیں‘ اس سوال کے جواب میں ممکن ہے‘ ایک سے زیادہ آرا ہوں۔ اس بات سے مگر کسی کو اختلاف نہیں کہ حکمرانوں کا مذہب ہوتا ہے۔ جو مذہب کو بقائمی ہوش و حواس قبول کیے ہوئے ہے‘ وہ جانتا ہے کہ اسے ایک دن اپنے پروردگار کے حضور میں جواب دہ ہونا ہے۔ یہ جواب دہی‘ ہر کسی کے سماجی کردار کے مطابق ہو گی۔ ایک باپ کو بحیثیت باپ جواب دہ ہونا ہے اور ایک حکمران کو بطور حکمران۔ دین نے بتا دیا ہے کہ باپ کے دینی فرائض کیا ہیں اور حکمران کے کیا۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے اس ہدایت کو جامع الفاظ میں بیان فرما دیا ہے: تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور ہر کسی سے اس کے بارے میں سوال ہوگا جس کی نگہبانی اسے سونپی گئی ہے۔
یہ نگہبانی جب مثالی صورت میں ظہور کرتی ہے تو امیر المومنین سیدنا عمرؓ ابن خطاب کی صورت میں ڈھل جاتی ہے۔ ان کا ارشاد ہے: ایک کتا بھی فرات کے کنارے بھوکا مر گیا تو عمر سے سوال ہو گا۔ کہاں دار الحکومت مدینہ اور کہاں فرات کا کنارہ؟ ایک ذمہ دار حکمران جانتا ہے کہ جہاں جہاں تک اس کے قلم رو کی سرحدیں ہیں‘ وہاں وہاں بسنے والے اس کی رعیت ہیں اور وہ ان کا نگہبان ہے۔ پاکستان کی مثال لیجیے تو گوادر کے ساحلوں پر بسیرا کرنے والے ایک مچھیرے کی ذمہ داری بھی ان حکمرانوں پر جو اسلام آباد میں بیٹھے ہیں۔
پاکستان کے حکمرانوں کی ذمہ داری تو اس سے سوا ہے۔ یہ وہ لوگ نہیں جنہیں ان کی مرضی کے برخلاف‘ مسندِ اقتدار پر بٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے یہاں بیٹھنے کے لیے پاپڑ بیلے ہیں۔ عام شہری سے لے کر مقتدرہ تک‘ ہر اس دروازے پر دستک دی ہے جہاں سے اقتدار ملنے کی کچھ بھی امید تھی۔ عمر فاروقؓ کے سر پر تو بنا خواہش اقتدار کا تاج رکھ دیا گیا‘ ان کا حال یہ تھا کہ ایک کتے کی بھوک کا اندیشہ ان کی راتوں کی نیند حرام کیے ہوئے تھا۔ جنہوں نے اپنی کوشش سے اقتدار لیا ہے‘ کیا انہیں اندازہ ہے کہ انہیں کس طرح کی پوچھ گچھ کا سامنا ہوگا؟
خدا کے حضور میں یہ جواب دہی کیسی ہو گی؟ ان لوگوں کو اس کا اندازہ ہے جنہیں کبھی قرآن مجید پڑھنے کی توفیق ہوئی ہے۔ جنہوں نے اللہ کے آخری پیغمبرﷺ کی سیرتِ مطاہرہ اور صحابہ کے حالات کا مطالعہ کیا‘ وہ جان سکتے ہیں کہ ان پاکیزہ ہستیوں کی راتیں جواب دہی کے اندیشے میں جاگتے گزر جاتی تھیں حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جنہیں خدا نے یہ بشارت دے رکھی ہے کہ ان کا پروردگار ان سے راضی ہے۔ اس کا کیا بنے گا جس کے ہاتھ میں اس طرح کی کوئی سند بھی نہیں ہے۔
جن کے پاس یہ سند تھی‘ ان کا معاملہ یہ تھا کہ عہدوں اور اقتدار سے دور بھاگتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ صرف اپنی ذات کا حساب دینا اگر اتنا مشکل ہے تو لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کے لیے جواب دہ ہونا کتنا مشکل ہوگا؟ تاہم جب ان کے سر ذمہ داری ڈال دی جاتی تو ان کی اندیشے کا عالم وہی ہوتا جس کی جھلکیاں خلفائے راشدین کی زندگی میں دکھائی دیتی ہیں۔
جب یہ ذمہ داری ان کو دے دی گئی تو انہوں نے رات دن ایک کر دیا کہ عوام کی محرومیوں کی تلافی ہو۔ ان کی غربت اور افلاس کا علاج ہو۔ تاہم ہر وقت یہ ممکن نہیں ہوتا کہ عوام کے ہر دکھ کا مداوا ہو سکے۔ ایسا وقت بھی آ سکتا ہے جب حالات صاحبانِ حکومت کی دسترس سے باہر ہو جائیں۔ جیسے قحط پڑ جائے۔ جیسے کوئی وبا پھوٹ پڑے۔ جیسے جنگ چھڑ جائے۔ ایسے حالات میں ہر شہری کی ہر ضرورت کو پورا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وبا سے بستیاں اجڑ جائیں۔ قحط ہو اور بھوک شہروں کا رخ کر لے۔ عوام نانِ جویں کو ترسیں۔
جب ایسا ہوتا تو حکمران خود پر روٹی حرام کر لیتے۔ آرام تج دیتے۔ ان کی راتیں خدا کے حضور میں آہ وزاری میں گزرتیں اور دن کو عالمِ اسباب کو کھنگالنے میں کہ عوام کے دکھوں کا مداوا ہو۔ عہدِ فاروقی میں قحط پڑا تو مسلمانوں کے امیر نے روغن اور گوشت کھانا چھوڑ دیا۔ حال یہ ہوا کہ کمزوری سے رنگ سفید پڑ گیا۔ خطاب کا بے مثل بیٹا اپنی ذات سے اس طرح بے گانہ ہوا کہ لوگوں کو ان کی صحت کے بارے میں اندیشوں نے گھیر لیا۔ ارشاد فرماتے: ''میں عوام کے دکھ کو کیسے سمجھ سکتا ہوں اگر خود اس سے نہ گزروں‘‘۔ خلیفۂ راشد نے تنہا عوام کو افلاس کے حوالے نہیں کیا‘ خود بھی عوام کی صف میں کھڑے ہو گئے۔
آج ہمیں معلوم ہے کہ حالات سازگار نہیں۔ معیشت 24کروڑ عوام کی ضروریات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ سب کو روزگار نہیں دے سکتی لیکن کیا حکومت عوام کی بھوک میں بھی شریک نہیں ہو سکتی؟ کیا وہ خود پر عیش و آرام کو حرام نہیں کر سکتی؟ عمرؓ ابن خطاب جیسے کردار تو یہاں نہیں ہیں کہ ہمارے نصیب ہمارے اعمال کا پرتو ہیں۔ ہمیں اپنی اوقات کا اندازہ ہے۔ لیکن کیا مسائل میں گھرے عوام سے اظہارِ یک جہتی کا کوئی عملی طریقہ موجود نہیں؟ کیا سوگ کے اعلان سے‘ حکمرانوں کی ذمہ داری ادا ہو گئی؟ اربابِ اقتدار کے پاس اب ایک ہی راستہ باقی ہے: وہ عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے تو ان کے مسائل میں شریک ہو جائیں؛ چند کام انہیں ابھی کرنا ہوں گے:
1۔ ریاست کے تمام نمائندہ اداروں کے سربراہوں‘ وزرا اور وزارتوں کے سیکرٹریز جو ریاست کے مختلف شعبوں کی نمائندگی کرتے ہیں‘ ان کے گھروں میں بھی اسی طرح بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی جائے جیسے عام آبادیوں میں ہو رہی ہے۔
2۔ ریاست کے تمام نمائندہ اداروں کے سربراہوں‘ وزرا اور وزارتوں کے سیکرٹریز کی تنخوائیں‘ اوسط آمدن کے برابر کر دی جائیں۔ یہ اس وقت تک ہو جب تک معیشت سنبھل نہیں جاتی ہے۔ ان میں سے جو آدمی نجی وسائل سے بہتر معیار زندگی رکھ سکتا ہے‘ اس پر بھی لازم ہو کہ وہ عام آدمی کی طرح زندگی گزارے۔ معیشت کے سنبھلے سے کیا مراد ہے‘ اس کا کوئی فارمولہ طے کر لینا چاہیے۔ مثال کے طور پر جب معیشت کی شرح نمو پانچ فیصد ہو جائے گی یا فی کس اوسط آمدن دس لاکھ روپے سالانہ ہو جائے گی۔
3۔ ریاست کے نمائندہ لوگوں کو بجلی وغیرہ کے ضمن میں جو مراعات دی جا رہی ہیں وہ فی الفور ختم کر دی جائیں۔
یہ پابندی ان پر ہو جو ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ رہا سماج کا طبقۂ امرا تو ان سے بھی اپیل کی جائے کہ وہ اس مشکل وقت میں عوام کے ساتھ ا ظہارِ یک جہتی کریں۔ ریاست ان پر اخلاقاً یا شرعاً کوئی پابندی نہیں لگا سکتی لیکن ان سے اس خواہش کا اظہار ضرور کر سکتی ہے۔ اقدام اس کے علاوہ بھی ہو سکتے ہیں۔ مطالبہ صرف یہ ہے کہ عوام شدید مشکل میں ہیں۔ اگر ریاست انہیں مشکل سے نکال نہیں سکتی تو اسے یہ پیغام ضرور دینا چاہیے کہ عوام کے مسائل اس کے مسائل ہیں۔
اس سے ممکن ہے وہ اضطراب کم ہو جائے جو ہر شہری کو اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یونان کے مسافروں کی موت ریاست کے لیے کہیں تیونس کے عزیزی کی موت نہ بن جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved