زندگی کسی نہ کسی طور گزر ہی جاتی ہے۔ تو پھر اِتنی محنت کیوں کی جائے؟ زندگی کو زیادہ سے زیادہ رنگا رنگ بنانے کی کوشش کیوں کی جائے؟ کیا لازم ہے کہ ہر انسان زندگی کو زیادہ دلکش بنانے کی تگ و دَو میں لگا رہے؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوال ہر اُس انسان کے ذہن کے پردے پر ابھرتے رہتے ہیں جو زندگی کے بارے میں تھوڑا سا بھی سنجیدہ ہو، کچھ سوچنے اور کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، اِس دنیا کو کچھ دے کر جانے کا خواہش مند ہو۔ ایسے سوالوں کے جواب میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ زندگی کے بارے میں ہم عمومی سطح پر زیادہ نہیں سوچتے، خاطر خواہ حد تک سنجیدہ نہیں ہوتے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے، ملتمس رہتی ہے کہ ہم سوچیں اور منصوبہ سازی کریں مگر ہم بالعموم اِس بنیادی تقاضے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، اپنے وجود کو آزمائش کے مراحل سے گزارنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ زندگی خود بخود دلکش یا پُرکشش ہو جائے؟ ایسا کبھی ہوا ہے کہ کسی نے کوئی شعوری کوشش نہ کی ہو اور بامقصد زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہو جائے؟ آپ ہی بتائیے کبھی ایسا ہوسکتا ہے! یقینا نہیں۔ زندگی کی ساری دلکشی اور معنویت صرف اور صرف شعور کی مرہونِ منت ہوا کرتی ہے۔ منصوبہ سازی کے بغیر کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہوسکتا۔ آپ کو اپنے قریب ترین ماحول میں اور اُس سے باہر جتنی بھی دلکشی نظر آرہی ہے اور جتنے بھی تنوع سے مستفید ہونے کا موقع مل رہا ہے وہ سب کا سب محض ذہن کا پیدا کردہ ہے یعنی شعور کو بروئے کار لانے کی صورت میں یہ سب کچھ ممکن ہو پاتا ہے۔
زندگی کو بامعنی اور بامقصد بنانے کا عمل اُس کی دلکشی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ عمومی سطح پر یا معمول کی زندگی بسر کرنے میں دلکشی نام کی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی۔ جیسی زندگی سب بسر کر رہے ہوں ویسی ہی زندگی اگر آپ بھی بسر کریں تو کسی بھی حوالے سے دل کشی کی توقع رکھی نہیں جاسکتی۔ معمول کے مطابق جینا اپنے آپ کو محدود کرتے رہنے کا دوسرا نام ہے۔ لوگ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں مگر اِس کا ذکر پسند نہیں کرتے، نشاندہی پر برہم اور مغموم ہو جاتے ہیں، غور کرنے کی اہمیت نہیں سمجھتے اور ایسا کچھ بھی کرنے کے لیے آسانی سے آمادہ نہیں ہوتے جو معمولات میں تھوڑی سی ہلچل پیدا کرے، کسی معاملے میں تخلیق کا پہلو اجاگر کرے اور زندگی میں کچھ جدت نمایاں ہو۔ کچھ نیا کرنے سے بھاگنے کی ذہنیت بھی عجیب ہے۔ انسان کو قدرت نے وجود ہی اِس لیے بخشا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کچھ کرے بلکہ کچھ ایسا کرے جس میں جدت ہو‘ انفرادیت ہو۔ اگر یہ سوچ پروان نہ چڑھے تو زندگی چند بے جان اور بے رَس معمولات کی اسیر ہوکر رہ جاتی ہے۔ بھری دنیا میں ایسا کون ہے جو شاندار اور پُرکشش زندگی بسر کرنے کا خواہش مند نہیں؟ ہر انسان مرتے دم تک انتہائی پُرکشش زندگی بسر کرنے کا خواہش مند رہتا ہے۔ اس منزل تک پہنچنا سب کے لیے ممکن نہیں ہو پاتا۔ صرف وہ لوگ ڈھنگ سے جی پاتے ہیں اور زندگی میں دلکشی کا اہتمام کر پاتے ہیں جو شعوری سطح پر اِس کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ جیسا کوئی نہیں؟ آپ محض منفرد نہیں بلکہ انتہائی منفرد ہیں۔ پورے جہان میں آپ جیسا ایک بھی نہیں! جو کچھ آپ کے ذہن میں پنپتا ہے بالکل وہی کچھ کسی اور کے ذہن میں نہیں پنپتا۔ آپ کے جو بھی جذبات و احساسات ہیں وہ کسی اور کے نہیں۔ ہو بھی نہیں سکتے۔ آپ کا وجود اپنا کوئی عکس نہیں رکھتا۔ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ بالکل آپ جیسا ہے۔ والدین، بھائی بہن، اولاد، رشتہ دار، اہلِ محلہ و علاقہ، احباب اور رفقائے کار‘ کوئی بھی بالکل آپ جیسا نہیں ہوسکتا اور ایسا ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ بھرپور اطمینان یقینی بنانے والی حقیقت یہ ہے کہ آپ انتہائی منفرد ہیں مگر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھیے کہ جس طور آپ منفرد ہیں بالکل اُسی طور دنیا کا ہر انسان منفرد ہے! بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جس کی مکمل کاپی کہیں پائی جاتی ہو۔ ہر انسان اپنے خیالات، جذبات، احساسات، رجحانات اور طرزِ فکر و عمل کی بنیاد پر انتہائی درجے کی انفرادیت کا حامل ہے اور یوں اُس کا نعم البدل کوئی نہیں۔
ہمیں دنیا میں جتنا بھی تنوع دکھائی دے رہا ہے وہ اِس حقیقت کی بنیاد ہی پر تو ہے کہ ہر انسان منفرد ہے۔ یہ سارا تنوع اُن انسانوں کا پیدا کردہ ہے جو اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے وجود پر غور کرتے ہیں، اپنی صلاحیت و سکت کو بطریقِ احسن بروئے کار لانے کے بارے میں سنجیدگی اپناتے ہیں، امکانات تلاش کرتے ہیں، مواقع سے مستفید ہونے کی ذہنیت کو پروان چڑھاتے ہیں، اپنے آپ کو آزمائش کے مختلف مراحل سے گزارنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کوئی بھی شخص جب اپنے آپ کو پہچانتا ہے، سمجھتا ہے تب وہ کچھ ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اُسے دوسروں سے بالکل نمایاں کرکے پیش کرے۔ زندگی بسر کرنے کا معقول ترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے اور اپنی شناخت کو نمایاں اور مضبوط کرنے کی غرض سے مصروفِ جہد و عمل ہو۔ کم ہی لوگ اِس طرف آتے ہیں۔
ہر انسان مرتے دم تک کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے، ارادے باندھتا رہتا ہے، منصوبے تیار کرتا رہتا ہے۔ منصوبہ سازی اچھا عمل ہے مگر محض منصوبے تیار کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ سوال تو عمل کا ہے۔ جب کوئی بھی انسان حقیقی معنوں میں عمل پسند ہوتا ہے تب کچھ ہو پاتا ہے۔ کسی بھی انسان کے حوالے سے ہمیں کچھ بھی اُس وقت معلوم ہو پاتا ہے جب وہ حقیقی عمل پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ کرتا ہے۔ اس معاملے میں تذبذب زہرِ قاتل ہے۔ ذہن میں کوئی بھی اٹکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔ جو اٹکا وہی بھٹکا۔
ہر انسان کے لیے معقول ترین طرزِ فکر و عمل یہ ہے کہ اپنے بارے میں زیادہ سے زیادہ سوچے، اپنی شخصیت کے مختلف گوشوں کو بے نقاب کرے، اپنی صلاحیت و سکت کا اندازہ لگائے، اُن میں اضافے کے کوشاں رہے اور اِس دنیا کو جو کچھ بھی دے سکتا ہے ضرور دے تاکہ لوگ اچھے لفظوں میں یاد رکھیں۔ زندگی جیسی نعمت محض اس لیے تو عطا نہیں کی گئی کہ ہم خالص حیوانی سطح پر زندہ رہیں اور جیسے تیسے سانسوں کی گنتی پوری ہونے پر اِس دنیا سے چل دیں۔ مخلوقات تو اور بھی بہت ہے۔ انسان اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اُسے شعور عطا کیا گیا ہے۔ یہ شعور ہی تو ہے جو انسان کو زندگی کے مقصد کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی توفیق بھی عطا کرتا ہے۔ قدرت کی مشیّت بھی یہی ہے کہ ہم یعنی تمام انسان شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی بسر کریں، جو کچھ سوچ سکتے ہیں‘ سوچیں اور جو کچھ کرسکتے ہیں‘ کر گزریں۔ آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس میں تھوڑی سی انفرادیت یقینی بنانے کی کوشش کیجیے تو زندگی میں تنوع کا اہتمام ہوگا۔ کسی بھی معاملے میں تنوع یقینی بنانے کے لیے عبقری ہونا لازم نہیں۔ تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سی ندرت انسان کو دوسروں سے مختلف اور زیادہ بارآور بناتی ہے۔ کوئی بھی کام لگے بندھے انداز سے کیا جائے تو اُس میں لوگوں کو ذرا سی بھی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ یکسانیت کسی بھی انسان کو پسند نہیں، دوسروں کے معاملات میں تو بالکل نہیں۔ لوگ اپنی یکسانیت سے بھی بیزار رہتے ہیں مگر چونکہ یکسانیت سے نجات پانے کیلئے خاصی تگ و دَو کرنا پڑتی ہے، اپنے آپ کو آزمانا پڑتا ہے اِس لیے وہ آسانی سے اس راہ پر گامزن نہیں ہوتے۔
طے کیجیے کہ زندگی کا حق ادا کرنے کی جتنی بھی کوشش کی جاسکتی ہے آپ ضرور کریں گے۔ ہر انسان اپنی زندگی کا مقروض ہے۔ قرض یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا کرنا ہے جو دوسروں کے کیے ہوئے سے ہٹ کر ہو، ندرت کا حامل ہو۔ ندرت اور جدت کے ساتھ جینے ہی میں جینے کا اصل لطف پوشیدہ ہے۔ یکسانیت کسی بھی انسان کی فطری انفرادیت کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ انفرادیت پسندی کے گھوڑے پر سوار ہونے والے بڑے بڑے فاصلے ناپتے پھرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved